ہمارے بارے میں

ملت ٹائمزایک کثیر لسانی آن لائن اخبار ہے جس کا مرکزی دفتربھارت کی راجدھانی دہلی میں واقع ہے ۔اردو ،انگریزی ، ہندی اور بنگلہ، فی الحال چار زبانوں میں یہ آن لائن اخبار ہے اور اسی نام سے سبھی زبانوں میں علاحدہ یوٹیوب چینل بھی ہے ۔ملت نیوز نیٹ ورک پرائیوٹ لمٹیڈ کے ماتحت ملت ٹائمز کی اشاعت عمل میں آتی ہے۔ اس کا اردو ایڈیشن ہندوستان میں سب سے زیادہ پڑھاجاتاہے اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی قارئین کی بڑی تعداد ہے ۔سیاسی ،سماجی ،ہندوستانی اقلیت ،عالمی حالات ، مسلم ممالک کے ایشوز اور اردو زبان وادب پریہاں نیوز ،مضامین ،انٹرویوز ،گراﺅنڈرپوٹس اور فیچرس شائع کئے جاتے ہیں ۔ان موضوعات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جسے مین اسٹریم میڈیااور ٹی وی چینلوں کے ذریعہ نہیں دکھایاجاتاہے اور نظر انداز کردیاجاتاہے ۔

ملت ٹائمز کا قیام
ملت ٹائمز کے بانی اور سی ای او شمس تبریز قاسمی ہیں ۔18 جنوری 2016 میںممبئی کی سرزمین پر ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ وناظم ندوة العلماءلکھنو کے ہاتھوں اس کا افتتاح عمل میں آیاتھا ۔دہلی میں اس کی مرکزی آفس ہے ۔اپریل 2016 میں ملت ٹائمز نے انگریزی نیوزپورٹل کا آغاز کیا جس کے بانی ممبر اور ایڈیٹر محمد ارشاد ایوب ہیں ۔ایک سال مکمل ہونے کے بعد دہلی کے سیئنر صحافیوں کے ہاتھوں 19 جنوری 2017 کو ملت ٹائمز نے ایپ لاﺅنچ کیا ۔جولائی 2017 میں بیرسٹر اسد الدین اویسی کے ایک انٹرویو کے ذریعہ شمس تبریز قاسمی نے ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل کا بھی آغاز کیا ۔2018 میں ملت ٹائمز نے ہندی نیوز پورٹل کی شروعات کی جس کے بانی ایڈیٹرمرحوم محمد قیصر صدیقی تھے۔24اکتوبر 2020 کو محمد قیصرصدیقی کی وفات کے بعد یہ ایڈیٹر کی ذمہ داری اسرار احمد سنبھال رہے ہیں ۔ ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر محمد ظفر صدیقی ہیں ۔

ملت ٹائمز کے دورسرے چینلز
ملت ٹائمز نے علاقائی خبروں کیلئے متعدد نیوز پورٹل بھی شروع کررکھاہے جس میں میوات ٹائمز تین زبانوں میں آن لائن اخبار اور یوٹیوب چینل ہے ،اس کے ایڈیٹر محمد سفیان سیف ہیں ۔” ایک اور علاقائی نیوز پورٹل سیتامڑھی ٹائمز ہے جسے مرحوم قیصر صدیقی نے شروع کیاتھا ۔24اکتوبر 2020 کو ان کی وفات کے بعد سیتامڑھی ٹائمز میں چیف ایڈیٹر شمشیدہ خاتون کو بحال کیاگیاہے جبکہ محمد معراج اور ثاقب رضا اس سے وابستہ ہیں ۔اس کے علاوہ ملت ٹائمز کا یک مستقبل ہندی نیوز پورٹل جے جے پی نیوز ہے جس کے چیف ایڈیٹر محمد شہنواز ناظمی ہیں۔ ملت ٹائمز کے تحت تاریخی اور معلوماتی ویڈیوز کیلئے مستقل ایک یوٹیوب چینل ہے” دی ہسٹری پوائنٹ“ ۔ اردو زبان وادب کے فروغ کیلئے ”اردو ٹاک“ کے نام سے باضابطہ ایک پلیٹ فارم کی شروعات کی گئی ہے اسی نام سے یوٹیوب چینل بھی ہے جہاں اردو ادب سے متعلق ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں اورمحترمہ رضواں خالد اس کی چیف ایڈیٹراور انچارج ہیں۔ مذہبی امور کی اشاعت کیلئے مدینہ ٹی وی کے نام سے ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل لانچ کیاگیاہے ۔یہ سبھی آن لائن اخبارات اور نیوز پورٹل ملت نیوز نیٹ ورک پرائیوٹ لمٹیڈ کے ماتحت ہیں ۔

ملت ٹائمز کے بانی اور سی ای او
ملت ٹائمز کے بانی اور سی ای او شمس تبریز قاسمی ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے فارغ ہیںاور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے گریجویٹ اور ایم اے ہیں ۔ شمس تبریز قاسمی بھارت میں صحافیوں کی سب سے قدیم تنظیم پریس کلب آف انڈیا کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے بھی ممبر ہیں ۔اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی حقوق سے منظور شدہ بھارت کے معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز میں میڈیا کورآڈینٹر کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں ۔ اس سے قبل سال 2014 سے 2016 تک وہ مشہور نیوز ایجنسی آئی این انڈیا میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔ اردو اخبارات میں ان کاہفت روزہ کالم ” پس آئینہ “ بہت زیادہ پسند کیا جاتاہے ۔صحافتی خدمات کی بنیاد پر وہ متعدد ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں۔

پس منظر
بیباک صحافت،سرکاری دباﺅ سے آزاد اور اقلیتوں کے ایشوز کو نمایاں کرنے کیلئے ملت ٹائمزکو خصوصیت کے ساتھ جاناجاتاہے ۔ملت ٹائمز کا بنیادی ایجنڈا ان ایشوز کو اٹھاناہے جسے مین اسٹریم میڈیا اور ٹی وی چینلوں کے ذریعہ نہیں دکھایاجاتاہے یا سچ کو چھپادیاجاتاہے ۔آن لائن اخبارات کے ساتھ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے ناظرین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔یوٹیوب پر خبر در خبر ۔ خاص ملاقات ۔انٹریوز گراﺅنڈ رپوٹ ، پبلک اوپینن، صدائے نوجوان۔ اسپیشل رپوٹ جیسے پروگرام بیحد مقبول ہیں ۔ملت ٹائمز نے کئی ایسی اسٹوریز کی ہے جو ہندوستان کی حکومت ،انتظامیہ ،سماج ، ملی تنظیموں ،اہم شخصیات اور مین اسٹریم میڈیا پر اثراانداز ہوئی ہے ۔ ہندوستان کے بیشتر اردو اخبارات ملت ٹائمز کی خبریں اور مضامین اپنے یہاں شائع کرتے ہیں ۔بیرون ممالک میں شائع ہونے والے اردو ویب پورٹل اور اخبارات اپنے بین لاقوامی صفحات کیلئے ہندوستان کی خبریں ملت ٹائمز کے حوالے سے شائع کرتے ہیں ۔

ملت ٹائمز کی موئثر اسٹوریز
ملت ٹائمز کی نمایاں رپورٹ میں تین طلاق کے خلاف سپریم کورٹ جانے والی عشرت جہاں کا وہ سچ ہے جسے میڈیا نے پوری دنیاسے مہینوں تک چھپایا اور اسلام کے خلاف منفی پیروپیگنڈہ کیا ۔ وہ سچ یہ تھاکہ کوکولکاتا کی عشرت جہاں کواس کے شوہر مرتضی انصاری نے کوئی طلاق ہی نہیں دی تھی ۔سیتامڑھی فساد اور 80 سالہ زین لانصاری کی لنچنگ کی رپوٹ بھی سب سے پہلے ملت ٹائمز نے تمام ثبوتوں کے ساتھ یوٹیوب چینل اور ملت ٹائمز ہندی میں شائع کیا ۔بہار حکومت اور انتظامیہ نے اس واقعہ کو چھپا دیاتھا اوروائرل تصویر کوفرضی بتایاتھا ۔ملت ٹائمز کی رپوٹ آنے کے بعد سیتامڑھی کے ایس پی وکاس برمانے واقعہ کا اعتراف کیا کہ ہاں واقعی 80 سالہ زین الانصاری کو شرپسندوں نے زندہ ذبح کرکے جلادیاتھا ۔اس کے بعد مشہور آن لائن اخبار دی کوئنٹ،دی وائر اور دیگرنیوز ویب سائٹس نے اپنی تحقیق میں اسے درست ماناکہ ملت ٹائمز کی خبر صحیح ہے ۔ واقعہ کے 20 دن بعد انڈین ایکسپریس نے بھی اپنے فرنٹ پیج پر یہ خبر شائع کی ۔بعد میں این ڈی ٹی وی اور بی بی سی نے بھی اسے کور کیا۔ سینئر صحافی رویش کمار نے بھی اپنے پرائم ٹائم میں اس لنچنگ کا تذکرہ کیا ۔اس سے قبل31اکتوبر 2018 کوبہار کرائم برانچ نے آئی پی سی کی دفعہ 91 کا حوالہ دیتے ہوئے نوٹس بھیج کرملت ٹائمزسے مطالبہ کیا کہ فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل سے ستیامڑھی فساد اور زین لانصاری کی لنچگ سے متعلق جو ویڈیو رپوٹ نے آپ شائع کیا ہے اس سے لاءاینڈ آڈر کو خطرہ لاحق ہے ہٹالیں ۔ جس سے ملت ٹائمز نے انکا ر کردیا بعد میں یوٹیوب اور فیس بک نے خود یہ ویڈیو ڈیلیٹ کردی ۔
15دسمبر 2020 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر دہلی پولس نے لاٹھ چارج کیاتھا اور لائبریری میں داخل ہوکر حملہ کیاتھا جس کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی تھی۔اسی طرح اس سے قبل 13دسمبر کو بھی سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران جامعہ کے طلبہ پر پولس نے لاٹھی چارج کیا تھا اور آنسو گیس کے گولے داغ تھے ۔ان دونوں واقعات کے رونما ہونے کے وقت ملت ٹائمز کے صحافی منور عالم وناں موجود تھے اورگراﺅنڈ زیر و سے براہ راست لائیو رپوٹنگ کررہے تھے اور پہلی مرتبہ ملت ٹائمز کے یوٹیوب اور فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ کے دوران دیکھنے والوں کی تعداد بیک وقت ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئی تھی ۔ آنسو گیس کی وجہ سے منور عالم کو بھی کئی دنوں تک دقتوں کاسامناکرناپڑا۔ رپوٹنگ کے دوران مرتبہ پولس نے بھی انہیں نشانہ بنانے اور روکنے کی کوشش کی ۔
فروری 2020 میں دہلی کے نارتھ ایسٹ میں ہوئے فساد کی رپوٹنگ بھی سب سے پہلے ملت ٹائمز نے ہی کی تھی ۔ 2425اور 26فروری کو ملت ٹائمز کے متعدد صحافیوں نے گراﺅنڈ زیرو سے جاکر رپوٹ کیاتھا جہاں فساد ہورہاتھا ۔ رپوٹنگ کے دوران ملت ٹائمز کے صحافی اسرار احمد اور کیمرہ مین محمد معصوم پر شرپسندوں نے حملہ بھی کیا ۔ کیمرا بھی چھین لیاتھا اور تشدد کا نشانہ بنایا تاہم ملت ٹائمز نے فساد کی رپوٹنگ جاری رکھی ۔24 فروری کی یہ وہ تاریخ تھی جب فساد کی یہ رپوٹ صرف ملت ٹائمز پر نشر ہورہی تھی ۔ نیشنل میڈیا اور ٹی وی چینلوں کی پوری توجہ” نمسٹے ٹرمپ “پروگرام پر تھی ۔ 25فروری کی صبح نیشنل میڈیا نے فسا د کی رپوٹ دکھاناشروع کیا ۔اس کے علاوہ ملت ٹائمز نے ہی سبھی مسجدوں کی رپوٹ دکھائی جسے فساد کے دوران شرپسندوں نے جزوی یا کلی طور پر نقصان پہونچایاتھا اور منہدم کردیاتھا۔
شاہین باغ احتجاج کو مین اسٹریم میڈیا تک پہونچانے اور اسے عام کرنے میں بھی ملت ٹائمز کا خصوصی کردار تھا اور شروع دن سے اخیر تک ملت ٹائمز نے شاہین باغ کو کور کیا ۔ملت ٹائمز کے کیمرہ پر بولنے کے بعد کئی خواتین کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائر ل ہوئی ،دیگر چینلز اور یوٹیوبرس نے بھی ان تک رسائی حاصل کی اور آج ایسی سبھی خواتین سوشل ایکٹویسٹ کے طور پر سرگرم ہیں ۔
بہار کے چمپارن میں ایک جگہ مسجد کی تعمیر کو بجرنگ دل کے کنان نے روک دیاتھا ۔ ملت ٹائمز میں خبر شائع ہونے کے بعد پولس وہاںپہونچی اور اپنی نگرانی میں کام کرایا۔
بہار کے ویشالی میں 30اکتوبر 2020 میں 22سالہ گلناز خاتون کو شرپسندوں نے زندہ جلادیاتھا جس کی سترہ دنوں بعد موت ہوگئی ۔ اس معاملے کو مین اسٹریم میڈیا نے ملسل نظر انداز کیا تاہم ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے گراﺅنڈ پر پہونچ کر رپوٹنگ کی اورپوری سچائی سے دنیا کو آگاہ کیا ۔
اس کے علاوہ جشن ریختہ میںطارق فتح کے خلاف احتجاج کی رپوٹ ،مولانا سلمان ندی کا شری شری روی شنکر کے ساتھ ملکر بابری مسجد سے دستبر دار ہوجانے کا مشورہ اور ایسے کئی ایشوزہیں جن پر ملت ٹائمز کی رپورٹ نے تاریخ رقم کی ہے۔انتظامیہ نے نوٹس لیاہے اور پانچ سالوں کے دوران اب تک 100 سے زیادہ ایسی خبریں ملت ٹائمز کے سبھی پلیٹ فارمزپر شائع ہوچکی ہیں جو قومی، عالمی میڈیا،حکومت ،انتظامیہ اور سماج پر اثر انداز ہوئی ہیں اور تاریخ رقم کرنے کا کام کیا ہے

ملت ٹائمز کے خلاف نوٹس
اپریل 2018 میں دیوبند کے ایک کتاب تاجرمولانا ندیم الواجدی نے ملت ٹائمز اور اس کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی سمیت چھ افراد کے خلاف نوٹس بھیج کر پچاس لاکھ روپے کا مطالبہ کیاتھا ۔اس نوٹس میں ملت ٹائمز پر دہشت گردی پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے ملک کی داخلہ سلامتی کیلئے خطرہ بتایاگیاتھا ۔نوٹس بھیجنے والے نے حکومت اور عدلیہ سے اپیل کی تھی کہ اس کے خلاف جانچ ایجنسیوں سے تحقیق کرائی جائے اوریہ پورٹل بند کرادیا جائے ۔اس کے علاو اور بھی کئی سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے ۔دیوبند تھانہ میں مولانا واجد ی کیس بھی کرنے گئے تھے جسے ایس ایچ او نے قبول نہیں کیا ۔ملت ٹائمز کی لیگل ٹیم نے اس نوٹس کا جواب دیتے ہوئے و اضح کردیاتھاکہ الزامات بے بنیاد ہیں ۔مولانا ندیم الواجدی نے نوٹس بھیجنے کی وجہ یہ لکھی تھی کہ ملت ٹائمز کے بیور و چیف عامر ظفر قاسمی اورمحمد قیصر صدیقی نے اپنے فیس بک پر ایک مضمون شیئرکیا ہے جس سے ان کی ہتک عزت ہوتی ہے چناں چہ اسی بنیاد انہوں نے ملت ٹائمزاور چیف ایڈیٹر سمیت چھ افراد کے خلاف نوٹس بھیج کر سنگین الزام لگائے اور اس کی جانچ کا مطالبہ کیا۔31 اکتوبر کو بہار کرائچ برانچ نے نوٹس بھیج کر ملت ٹائمزسے سیتامڑھی لنچگ پر بنی ویڈیو کو فیس بک پیج اور یوٹیوب سے ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کیاتھااور کہاتھاکہ اس رپوٹ سے لاءاینڈ آڈر کو خطرہ لاحق ہے ۔ ملت ٹائمز نے اس نوٹس کو مسترد کردیا اورکہاکہ ملت ٹائمز نے وہی دکھایاہے جو سچ ہے ۔ لاءاینڈ آڈر پر قابو پانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔ ملت ٹائمز کا کام سچائی سے عوام کو آگاہ کرناہے اوریہ سلسلہ جاری رہے گا ۔اس کے علاوہ متعدد بی جے پی لیڈران اور پولس انتظامیہ کی جانب سے ملت ٹائمز کو نوٹس موصول ہوچکی ہے تاہم ملت ٹائمز کے سچ کا سفر جاری ہے ۔

قارئین
ملت ٹائمز کے ماہانہ قارئین اور ناظرین کی تعداد مجموعی طور پر 50 ملین ہے ۔ یوٹیوب پر بھی ملت ٹائمزکے سبسکرائبر آٹھ لاکھ سے زیادہ ہیں اور دسیوں ویڈیوز کے ناظرین کی تعداد ایک ملین سے زیادہ ۔ فیس بک پرایک ملین سے زیادہ فلووز ہیں اور لاکھوں میں یہاں ملت ٹائمز کو دیکھاجاتاہے ۔ دہلی فسا د کی ایک رپوٹ کو فیس بک پر 200 ملین سے زیادہ لوگوں نے دیکھاتھا، وہاٹس ایپ، ٹیلی گرام ، ٹوئٹر ، انسٹاگرام اور لینکڈ سمیت دیگر سوشل میڈیا سائٹ پر بھی لاکھوں افراد ملت ٹائمز سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ملت ٹائمز کو ہندوستان کے علاوہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، قطر ، برطانیہ اور امریکہ میں بھی بہت زیادہ اہتمام اور دلچسپی کے ساتھ پڑھاجاتاہے ۔

ملت ٹائمز رجسٹر ڈکمپنی ملت نیوز نیٹ روک پرائیوٹ لمٹیڈ کے ماتحت ہے ۔اس سے وابستہ زیادہ تر صحافی نوجوان اور وہ لوگ ہیں جو صحافت کے ذریعہ ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں ۔