آسامکے 26لاکھ خواتین کی شہریت پر خطرہ ابھی بھی برقرار۔جمعیة کی کوششوں سے خصوصی کیٹگری کے لئے گائیڈلائن مقرر کرنے کی درخواست منظور

نئی دہلی (ملت ٹائمز)
سپریم کورٹ نے آج آسام غیر ملکی شہریت معاملہ میںاسٹیٹ کوآرڈینیٹر کوہدایت دی ہے کہ وہ عدالت میں جواب داخل کر کے بتائے کہ ایسی 26لاکھ خواتین جن کا پنچایت سرٹیفکیٹ رد کر دیا گیا اور وہ ”خصوصی کیٹگری “ میں بھی شامل نہیں ہیں ، ان کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی۔اس معاملے میں آئندہ سماعت اب15نومبر کو ہوگی ۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے جمعیة علما ہند کی اس خصوصی درخواست کو منظور کر لیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’خصوصی کیٹگری‘ میں کسے شامل کیا جائے اور کسے نہیں اس کی باقاعدہ گائیڈ لائن تیار کی جانی چاہئے۔ جمعیة علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے خصوصی کیٹگری کے لئے گائیڈ لائن مقرر کئے جانے کی درخواست قبول کئے جانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے سے خصوصی کیٹگری میں ان ہی افراد کو شامل کیا جائے گا جو ا سکے جائز حقدار ہوں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ابھی جن 26لاکھ خواتین کے سر پرغیر ملکی شہریت کی تلوار لٹک رہی ہے، عدالت ا سکے حل کا بھی کوئی قابل قبول حل تلاش کرے گی۔
عدالت عالیہ میں جسٹس گوگوئی اورجسٹس سنہا کی بنچ کے سامنے آج آسام غیر ملکی شہریت معاملہ پر سماعت ہوئی ۔سماعت کے دوران عدالت نے تین اہم باتیں کہیں۔عدالت نے جمعیة علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی جانب سے داخل ا س خصوصی درخواست کومنظور کر لیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ آسام میں شہریت تنازع معاملہ حل کرنے کے تعلق سے جوایک خصوصی کیٹگری ( اصل مقیم) پالیسی تیار کی گئی ہے ۔ ا سکے تعلق سے کوئی گائیڈ لائن مقرر نہیں کی گئی ہے کہ آیا اس کیٹگری میں کس کو شامل کیا جانا چاہئے اور کسے نہیں ۔ جمعیة کا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ اس سلسلے میں گائیڈلائن مقرر کرے ۔ عدالت نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے اس پر 15نومبر کوبحث کی بات کہی ہے ۔ دوسری اہم یہ بات رہی کہ اس مقدمہ میں مداخلت کار کے طور پر شامل ہونے کی آسام کانگریس کمیٹی کی درخواست کو عدالت نے نا منظور کر دیا ۔ ابھی یہ مقدمہ جمعیة علما ہند ، آمسو اور دیگر آسامی تنظیمیں لڑ رہی ہیں ۔
واضح ہو کہ عدالت نے گذشتہ سماعت کے دوران اسٹیٹ کوآرڈی نیٹر کو یہ بات واضح کرنے کی ہدایت دی تھی کہ ایسی کتنی خواتین ہیں کہ ریاستی ہائی کورٹ کی ہدایت پر پنچایت سرٹیفکیٹ رد ہوجانے کے باوجودبھی ان کا نام این آر سی میں شامل ہو جائے گا۔ اسٹیٹ کوآرڈی نیٹر پرتیک ہجیلا نے آج عدالت میں ایک حلف نامہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی خواتین کی تعداد 17لاکھ 40ہزار ہے جن کا نام’ خصوصی کیٹیگری‘ ( اصل مقیم) کے طور پر درج ہے۔اس لئے اگر ان کا پنچایت سرٹیفکیٹ رد بھی ہوجاتا ہے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ان کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ کنواری لڑکیوں اور سوا لاکھ مردوںنے بھی یہ سرٹیفکیٹ جمع کرا دیا تھا جبکہ یہ سرٹیفکیٹ صرف شادی شدہ خواتین ہی جمع کرا سکتی ہیں ۔ ایسے میں ان لوگوں کے نام بھی وہاں سے ہٹا دئے جائیں گے ۔ اس طرح اب تقریباً 26لاکھ خواتین ایسی رہ جاتی ہیں جن پر غیر ملکی شہریت کی تلوار لٹکی رہے گی۔ عدالت نے اب اسٹیٹ کوآرڈی نیٹر پرتیک ہجیلا کو ہدایت دی ہے کہ وہ آئندہ سماعت کے دور ان عدالت کے سامنے اس بات کوواضح کرے کہ اگر سپریم کورٹ سے پنچایت سرٹیفکیٹ سے متعلق آسام ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد نہیں کیا جاتا ہے تب ان26لاکھ خواتین کے خلاف کیا قدم اٹھایا جائے گا۔
عدالت میں جمعیة علما ہند کی جانب سے آج سینئر وکیل سلمان خورشید ، وویک تنکھا،سنجے ہیگڑے اور فضل ایوبی وغیرہ موجود تھے۔واضح ہو کہ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹی زنس تیار کرنے کے عمل کے دوران گوہاٹی ہائی کورٹ کے شہریت کے ثبوت کے طور پر دیگر دستاویزات کے ساتھ گاﺅ ں پنچایت یعنی پردھان کے سرٹیفکیٹ کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دینے کے بعد یہ مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ یہ کام تقریباً مکمل ہی ہونے والا تھا کہ مرکز اور ریاست کی بی جے پی سرکارنے این آر سی کے لئے گاﺅں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو ثبوت ماننے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں وہ خواتین جن کی شادیاں اب سے 40-50سال پہلے ہوچکی ہیں اور وہ بیاہ کر دوسرے گاﺅںاور شہروں میں چلی گئیں انکے پاس ہندوستانی شہری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے کیونکہ اس زمانے میں لوگ عام طور سے پیدائش سرٹیفکیٹ تک حاصل نہیں کرتے تھے ، لڑکیاں پانچویں چھٹی جماعت تک ہی اسکول جاتی تھیں اس لئے ان کے پاس اسکول کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے ۔ ایسے میں صرف گاﺅں پنجایت ہی یہ سرٹیفکیٹ دے سکتی ہے کہ فلاں عورت فلاں ِشخ±ص کی بیٹی، بہن یا بہوہے لیکن اب اسے ریاستی حکومت ماننے کو تیار نہیں ہے جس کے بعد جمعیة علما ہند کی آسام یونٹ کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیموں کوبھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاناپڑا ۔