اردگانِ ہند اسد الدین اویسی

فضیل احمد ناصری

الہیٰ! بھیج دے ملت کو کوئی راہ داں اپنا
حوادث کی طرف ہےجادہ پیما کارواں اپنا

نظرترچھی کیےبیٹھےہیں ہم پرپھرصنم خانے
ابولہبی شراروں کی ہے زد میں آشیاں اپنا

زمانہ پیکرِ تصویر ہے الکفر ملۃ کی
نہیں بزمِ جہاں میں کوئی یارب مہرباں اپنا

سبب ویرانیوں کا بن گئیں آزادیاں اپنی
مٹا جانے لگا ہے رفتہ رفتہ ہر نشاں اپنا

الہی! پھر جنوں والوں کی ملت کو ضرورت ہے
ہوا جاتا ہے خالی بلبلوں سے گلستاں اپنا

مسرت ہے کہ اک تازہ ہوا آئی ہے دکّن سے
اٹھا ہے سربکف اک حیدرآبادی جواں اپنا

بچا رکھی ہے اس شیرِ ببر نے عزتِ مسلم
سیاست کےافق پر ہے یہی اک ترجماں اپنا

اذاں دیتا ہے وہ بت خانۂ ہندی میں جا جا کر
اسی کےدم سےروشن ہےچراغِ ضوفشاں اپنا

لہو ہے گرم تر اس سے مسلمانانِ ہندی کا
ملا امت کو اس کی شکل میں اک ہم زباں اپنا

تزلزل اس کی للکاروں سے ہے ایوانِ باطل میں
مجاہد بن کے رکھتا ہے برہمن میں بیاں اپنا

نہ اس کو موت کی پروا،نہ زنجیروں کا ڈر اس کو
جہاں جاتا ہے رکھ دیتا ہے وہ دردِ نہاں اپنا

خداوندا ! سلامت رکھ اویسی کی جوانی کو
یہی ہے ہند کی دھرتی پہ طیب اردگاں اپنا

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں