سیلفی کے جنون سے حج کا تقدس پامال

سہیل انجم
اسلام میں تصویر کشی و تصویر سازی حرام ہے۔ علما نے بدرجہ مجبوری اس کو جائز قرار دیا ہے۔ یعنی پاسپورٹ اور دیگر ضروری دستاویزات کے لیے تصویر کھنچوائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کو مکمل طور پر جائز اور حلال کر لینا اور ہر مناسب و نامناسب موقع پر تصویر کشی کرنا اب ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔ اگر ہم کسی موقع کی کوئی تصویر لینے میں ناکام رہتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ کچھ ادھورا ادھورا سا ہے، کچھ کمی کمی سی ہے۔ اس کا دائرہ بھی اب کافی وسیع ہو چکا ہے اور اس میں کئی نئے پہلو جڑ چکے ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف فوٹو کھنچوانے تک محدود نہیں رہ گیا بلکہ اس سے بھی آگے سیلفی، ویڈیو گرافی اور ویڈیو کالنگ تک پہنچ گیا ہے۔ اس شوقِ نامراد کی زلفِ گرہ گیر کے شکار بلا لحاظ ملت و فرقہ، بلا تخصیص عمر و جنس اور بلا امتیاز ملک و علاقہ اور رنگ و نسل تمام بنی نوع انسان بن چکے ہیں۔ اب ہمارے یعنی مسلمانوں کے مقدس مذہبی امور و ارکان بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ حج جیسا دین کا اہم اور مبارک رکن بھی اس کی آلائشوں میں لت پت کر دیا گیا ہے۔ حرمین جیسے مقامات مقدسہ اور دیگر مشاعر مبارکہ بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔ اس کا بدترین مشاہدہ اگر کسی کو کرنا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ حرمین کا مبارک سفر کرے اور پھر ان مقامات پر مسلمانوں کی بد احتیاطیاں دیکھے اور ماتم کرے۔ اسمارٹ فون نے اس شوقِ ناہنجار کو وبائی مرض میں تبدیل کر دیا ہے۔ جسے دیکھیے وہ اس مرض میں مبتلا ہے اور اس شوق کی تکمیل کی خاطر کسی بھی بد احتیاطی بلکہ بداخلاقی کو گوارہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
ہم نے مسجد نبوی میں اسمارٹ فون کی منحوس کرامات دیکھی تھیں اور کف افسوس مل کر رہ گئے تھے۔ اس بارے میں ہم نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کو قلمبند بھی کیا تھا اور اس پر روشنی ڈالی تھی کہ کس طرح بہت سے معتمرین و عازمین سیلفی، ویڈیو گرافی اور ویڈیو کالنگ کے ذریعے مسجد نبوی اور یہاں تک کہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔ ایسے کئی افراد دیکھے جو اللہ کے رسول کو سلام پیش کرنے جا رہے ہیں اور ویڈیو کالنگ کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے گفتگو کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کی خواتین روضہ رسول کے سامنے موبائیل فون کی اسکرین پر بے پردہ نظر آرہی ہیں اور دوسرے لوگوں کی نگاہیں ان پر پڑ رہی ہیں۔ ایسے افراد کے لبوں پر درود و سلام کے بجائے لایعنی فقرے ہوتے ہیں اور وہ اس پر فخر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اسمارٹ فون سے اپنے بیوی بچوں کو بھی قبر مبارک کی زیارت کرا دی ہے۔ کسی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ فون اسمارٹ نہیں ہوتا انسان اسمارٹ ہوتا ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست معلوم ہوئی۔ لیکن یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہر آدمی اسمارٹ نہیں ہوتا۔ اسمارٹ تو وہ شخص ثابت ہوا جس نے اسمارٹ فون بنایا۔ باقی تو بیوقوف بن گئے۔البتہ اسمارٹ بن جانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔
ہم نے مسجد نبوی میں جو کچھ دیکھا تھا وہ اس جدید ترین ”بدعت“ کا ایک ہلکا سا نمونہ تھا۔ جامع اور تفصیلی مشاہدہ تو حرم مکی میں ہوا۔ یہاں اِس اِس انداز میں اسمارٹ فون کو استعمال کیا جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہم نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا جنھوں نے طواف کے دوران پورے شوط میں موبائل کیمرہ آن کیے رکھا اور ان کی نگاہیں مسلسل اسکرین پر ٹکی رہیں۔ ان کی ساری توجہ اس پر تھی کہ ان کا چہرہ اسکرین سے غائب نہ ہونے پائے بلکہ خانہ کعبہ اور اسکرین کے مابین موجود رہے۔ اس طرح انھوں نے ایک چکر پورا کیا۔ ان کے لب خاموش تھے۔ نہ دعائیں نہ چہرے پر اللہ کے حض ©ور حاضری کا کوئی تاثر۔ کچھ لوگ خانہ کعبہ کے سامنے سیلفی لینے میں مگن ہیں تو کچھ ہزاروں کلو میٹر دور اپنے اعزا کو یہاں کے مناظر سے لطف اندوز کرا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ لو حجر اسود کو بوسہ دے دو۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ لوگ طواف میں مشغول ہیں کہ اچانک کوئی گروپ ٹھہر گیا، پیچھے کے لوگوں کو بھی مجبوراً ٹھہرنا پڑا۔ غور کیا تو دیکھا کہ کوئی ایک شخص پورے گروپ کی یا تو تصویر لے رہا ہے یا ویڈیو بنا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان کے اس عمل سے دوسروں کو کتنی پریشانی ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف نوجوان ہی اس بیماری میں مبتلا ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس نے معمر افراد کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایک بار ہم حرم شریف میں نماز فجر کے وقت مطاف میں بیٹھے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ جوں ہی اذان شروع ہوئی ایک ادھیڑ عمر شخص اٹھا اور مطاف کے درمیان میں خانہ کعبہ کی جانب پشت کرکے کھڑا ہو گیا۔ ایک دوسرے شخص نے جو قدرے کم عمر تھا موبائل فون سنبھالا اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر ویڈیو بنانے لگا۔ جب تک اذان مکمل نہیں ہو گئی معمر شخص بت بنا کھڑا رہا اور ویڈیو بنواتا رہا۔ اذان ختم ہونے کے بعد یہ سلسلہ بند ہوا۔ حرم مکی میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ انتہائی معمر جوڑے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ خانہ کعبہ کے سامنے تصویریں بنوا تے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو سپورٹ کر تے ہیں۔ یعنی بیوی کرسی پر بیٹھتی ہے تو شوہر اس کی فوٹو بناتا ہے اور شوہر کرسی پر بیٹھتا ہے تو بیوی اس کی تصویر اتارتی ہے۔
ایک بار ہم نے دوسری منزل پر رات میں تقریباً ڈیڑھ بجے طواف مکمل کیا اور ریلنگ کے پاس آکر نیچے خانہ کعبہ اور مطاف کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگے۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ وھیل چیئر پر براجمان دو معمر ایرانی خواتین کو ایک نسبتاً کم عمر شخص نے اس طرح لا کر ریلنگ کے پاس سجایا کہ ان کی پشت خانہ کعبہ کی جانب تھی۔ اور پھر اس نے کعبہ کو بیک گراونڈ میں رکھ کر ان کی فوٹو کھینچی۔ ہمارا قیام عزیزیہ میں ہے۔ ایسا اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ بس سے حرم جا رہے ہیں اور کوئی خاتون یا مرد اپنے گھر پر ویڈیو کالنگ کیے ہوئے ہے اور اطراف کے مناظر خصوصاً سڑکوں، عمارتوں اور پہاڑوں کے، بڑی دلچسپی سے دکھا رہا ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ایسے مواقع پر لوگ اطراف سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور یوں جوش خروش میں بلند آواز میں گفتگو کرتے ہیں جیسے وہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس دوران کوئی رازداری نہیں برتی جاتی اور ہر گفتنی و ناگفتنی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہم نے ہوٹلوں کی لابی میں، جہاں مفت وائی فائی کی سہولت موجود ہے، دیکھا کہ مرد و خواتین ویڈیو کالنگ میں مست ہیں۔ عورتوں کو ہلکی آواز میں گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن لابی میں بیٹھ کر وہ اس طرح زور زور سے باتیں کرتی ہیں کہ جیسے وہ اپنے کمرے میں ہوں اور کوئی اجنبی وہاں پر موجود نہ ہو۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ایسے افراد جو اسمارٹ فون کے دیوانے ہیں، عبادت میں خشوع و خضوع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کی ساری توجہ تصویر کشی اور سیلفی پر ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے نزدیک یہ بھی حج کا کوئی اہم رکن یا طواف کا کوئی اہم عمل ہے کہ اگر یہ رہ گیا تو نہ تو حج ہوگا اور نہ ہی طواف۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں نے حج کی تربیت کے دوران اپنی تمام تر توجہ ارکان کی ادائیگی سیکھنے پر نہیں بلکہ سیلفی لینے پر مرکوز کر رکھی تھی۔
اس سلسلے میں دو رائیں سامنے آئی ہیں۔ انٹرنیٹ پر العربیہ ڈاٹ نیٹ کے حوالے سے ایک خبر موجود ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے سرکردہ علما نے مسجد حرام میں عبادت، طواف، سعی اور دیگر مناسک کے دوران تصاویر کھنچوانے کو شرعاً حرام قرار دیا ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ لوگوں میں تشہیر کی غرض سے تصویر اتارنا عبادت میں اخلاص کی نفی کے مترادف ہے۔ 2015 کی اس خبر کے مطابق علما نے بیان جاری کرکے کہا ہے کہ مساجد صرف اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں۔ انھیں کسی دنیاوی مقصد یا تفریحی مشاغل کے لیے استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مساجد کو نماز، تلاوت قرآن اور ذکر خداوندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا شرعاً حرام ہے۔ خبر کے مطابق مسجد حرام میں منعقدہ ایک سمینار کے بعد جاری کردہ مشترکہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ مساجد کا تقدس قائم رکھنا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے۔
انٹرنیٹ پر اس خبر کے سلسلے میں ایک بحث بھی موجود ہے۔ ایک پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1996 تک حرمین میں تصویر اتارنا سختی سے منع تھا۔ خادمین میں سے اگر کوئی کسی کو ایسا کرتے دیکھتا تو کیمرے سے پوری فلم ضائع کر دی جاتی تھی اور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ آئندہ اگر ایسا کیا تو کیمرہ ضبط کر لیا جائے گا۔
لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ اب تو اسمارٹ فون کی شکل میں ہر شخص کے ہاتھ میں نہ صرف یہ کہ جدید ترین کیمرہ ہے بلکہ پورا اسٹوڈیو اور پورا سنیما ہال موجود ہے۔ اسمارٹ فون سے جہاں یہ فائدہ ہے کہ لوگ اپنے اہل خانہ اور اعزا سے رابط رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی خیریت سے باخبر ہوتے رہتے ہیں وہیں اس کا غلط استعمال بھی دھڑلے سے کیا جاتا ہے۔ یقیناً اس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ اس پر تو صارف خود پابندی لگائے تو لگائے انتظامیہ یا حکومت کی جانب سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ اگر کوئی پہلی بار حرمین کے سفر پر آیا ہوا ہے اور حج و عمرہ کے بعد اپنے قیام کے دوران اس طرح سیلفی لیتا ہے یا تصویر اترواتا ہے کہ دوسروں کو کوئی زحمت نہ ہو اور مقامات مقدسہ کا تقدس بھی پامال نہ ہو تو اسے حرام قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ ایسے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیجیٹل کیمرہ سے تصویر یا فلم بنانا ”متفقہ طور پر بذات خود ایک جائز عمل ہے“۔ ان کے مطابق یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص آئینے میں اپنی شکل دیکھے۔ اس بارے میں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ حرمین شریفین میں یہ عمل خود کار سیکورٹی کیمروں کی مدد سے نہ صرف یہ کہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے بلکہ مختلف ٹی وی چینلوں سے یہ براہ راست ٹیلی کاسٹ بھی ہوتا رہتا ہے۔
یہ بات تو بالکل درست ہے کہ مدینہ منورہ ہو یا مکہ معظمہ، دونوں مقامات پر ہوٹلوں اور دوسری جگہوں پر حرمین کو لائیو دکھایا جاتا ہے۔ اس بارے میں علما ہی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ درست ہے یا نہیں۔ البتہ مذکورہ بالا دلیل میں اسے یہ کہہ کر جائز قرار دیا گیا ہے کہ سیکورٹی کیمروں سے فلم بندی ہوتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں سے جو فلم بندی ہوتی ہے وہ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے ہوتی ہے نہ کہ ظاہری دکھاوے یا ریاکاری کی نقطہ نظر سے۔ خیال رہے کہ اگر کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو اس کی مدد سے تحقیقات میں آسانی ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی شخص یادگار کے طور پر ایسا کرتا ہے تو اسے درست مانا جا سکتا ہے لیکن تشہیر کی غرض سے اگر ایسا کیا جا رہا ہے تواس میں ریاکاری کا پہلو بہر حال نکلتا ہے۔ ریاکاری کا یہ پہلو پہلے بھی موجود تھا۔ یعنی اگر کوئی شخص فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے جا رہا ہے تو وہ اس کا ڈنکہ پیٹتا تھا اور پھر بہت سے لوگ اس کو چھوڑنے آتے تھے۔ اب بھی بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یہ بتانے کے لیے کہ وہ حج کرنے جا رہے ہیں مختلف حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب ہم حاجی بننے جا رہے ہیں اور جب لوٹ کر آئیں گے تو ہمیں حاجی صاحب ہی کہنا۔ اسمارٹ فون کا استعمال بھی بڑی حد تک خود تشہیری سے جڑا ہوا ہے۔
مذکورہ پوسٹ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ”کوئی عمل اگر حرام قرار پاتا ہے تو سب کے لیے حرام ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی عمل عوام کے لیے تو حرام ہو اور خواص کے لیے جائز۔ حرمین شریفین میں مقامی ”شاہی ارکان“ کی آمد ہو یا غیر ملکی مسلم حکمرانوں اور ان کے وفود کا دورہ، ان سب مواقع کا سرکاری طور پر ویڈیو بنایا جاتا ہے اور اسے ٹی وی اور اخبارات میں شائع کرایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سے آس پاس کے دیگر افراد شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ علما کو حرمت کا فتویٰ دیتے وقت ان باتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے“۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومتی انتظامات کا معاملہ الگ ہے اور عبادت کے دوران سیلفی اور تصویر کشی کا معاملہ الگ ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔
ان دلائل کے برعکس علما کا ایک بڑا طبقہ اسمارٹ فون سے سیلفی اور ویڈیو گرافی کو حرام قرار دیتا ہے۔ علما کا خیال ہے کہ اس طرح لوگ عبادت نہیں کرتے بلکہ عبادت کا ڈرامہ کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کے سامنے یا مسجد نبوی میں جس طرح دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر تصویریں کھنچواتے ہیں، اس کا مقصد عبادت نہیں ریاکاری ہے۔ اس بارے میں مولانا عبد الرزاق عبد الغفار سلفی نے ہمیں ایک ویڈیو ارسال کیا ہے جو کہ یو ٹیوب پر بھی موجود ہے۔ یہ شیخ سلیمان الرحیلی کی ایک تقریر ہے جو انھوں نے 2016 میں کی ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تصاویر کے حوالے سے لوگوں کی نرمی اصل میں ایک ظاہری بات ہے۔ یہاں تک کہ مسجد نبوی شریف میں بھی خطیب خطبہ دے رہا ہے اور ادھر اپنی تصویر لی جا رہی ہے، سیلفی لی جا رہی ہے۔ اس نے خطبہ میں سے کچھ بھی نہیں سنا۔ اوپر سے وہ تصویر میں جھوٹ بول رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ برائے مہربانی کیا آپ میری تصویر لے سکتے ہیں۔ وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے اور تصویر بنوا رہا ہے۔ واللہ وہ جھوٹا ہے، وہ دعا نہیں کر رہا ہے۔ لیکن جب وہ انڈونیشیا (یعنی اپنے ملک) واپس جاتا ہے تو وہ اس تصویر کو فریم کرواتا ہے اور اپنے کمرے میں لگاتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر دعا مانگ رہا ہے۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہ حرام ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ یہاں تک کہ مسجد نبوی میں چلیں ایسا سوچ لیتے ہیں کہ اس کے حرام ہونے کا امکان صرف دس فیصد ہے تو کیا آپ مدینے میں خود کو گناہ کے خطرے میں ڈالنے آتے ہیںیا اجر و ثواب اور انعام حاصل کرنے آتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو اللہ کے رسول کے شہر میں گنہگار ہونے کے امکان میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ یہ ایک اور نقطہ نظر سے ممنوع ہے اور وہ ہے ریاکاری۔ سلف اپنے نیک اعمال کو چھپایا کرتے تھے، یہاں تک کہ خشوع کے لحاظ سے بھی۔ امام احمد بن حنبل جب لوگوں کے ساتھ بات کرتے اور وہ محسوس کرتے تھے کہ وہ رونے لگے ہیں تو وہ اپنا ہاتھ اپنی ناک پر رکھتے اور کہتے کہ کیسی شدید سردی ہے۔ یعنی وہ آواز جو ان کے بولنے سے آرہی تھی (وہ چاہتے تھے کہ لوگ یہ سوچیں کہ) یہ اس سردی کی وجہ سے تھی۔ اور بعض اوقات وہ کھڑے ہو جاتے، مسجد سے نکلتے اور گھر چلے جاتے۔ سلف اپنے نیک اعمال کو جہاں تک ممکن ہوتا چھپایا کرتے تھے۔ اور جھوٹ بولنا، دعا کرتے ہوئے اپنی تصویر لینا اور پھر اسے لوگوں کو دکھانا غلط ہے“۔ لیکن آج عالم یہ ہے کہ لوگ سلف کے نہیں بلکہ سیلفی کے عقیدت مند ہیں اور اس صف میں کچھ سلفی میں شامل ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جس طرح بہت سے مقامات پر Jammer نصب کر دیے جاتے ہیں تاکہ وہاں موبائیل فون کے سگنل کام نہ کر سکیں اسی طرح کوئی ایسا انتظام کیا جانا چاہیے کہ حرمین میں تصویر کشی ناممکن بن جائے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور میں یہ مشکل نہیں ہے۔ سعودی حکومت کے ذمہ داروں اور بالخصوص حرمین کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کے ساتھ اس پر گفتگو کریں اور ان کے ساتھ مل کر کوئی ایسا Divice (آلہ) تیار کریں جسے حرمین کی چھتوں پر نصب کر دینے سے کم از کم موبائیل کیمرے بے اثر ہو جائیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس پر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو کوئی نہ کوئی انسٹرومنٹ تیار کیا جا سکتا ہے۔
بہر حال اگر اسمارٹ فون کے استعمال میں ریاکاری کا عنصر شامل ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا حج ”حج مبرور“ نہیں ہو سکتا۔ حج مبرور کے بارے میں کئی قسم کی آرا سامنے آئی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ حج ہے جو عند اللہ مقبول ہو جائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مراد وہ حج ہے جو ریا و شہرت سے پاک ہو اور جس میں فحاشی و لڑائی جھگڑا نہ کیا گیا ہو۔
حج اسلام کا پانچواں اور مقدس رکن ہے۔ حاجی ضیوف الرحمن یعنی اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی حجاج کی دعا رد نہیں کرتے۔ وہ ان کی ہر دعا قبول کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے کہ جس شخص نے حج کیا اور اس دوران اس نے نہ تو بدکلامی کی اور نہ فحاشی کا مظاہرہ کیا تو یہاں سے وہ ایسا واپس ہوگا جیسا کہ اس روز تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ یہ مرتبہ ہے حجاج کا۔ سعودی عرب میں حجاج کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ ان کی خدمت کو اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہم جس ہوٹل میں مقیم ہیں وہاں کام کرنے والے سیالکوٹ پاکستان کے ایک شخص محمد عامر نے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں حجاج کا غلام اور نوکر بننے پر فخر محسوس ہوتا ہے اور ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ اللہ نے ہمیں اس کا موقع عنایت کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی انسان کسی انسان کا غلام یا نوکر بننا پسند نہیں کرے گا۔ لیکن چونکہ حاجی اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اس لیے ہم ان کی خاطر و تواضع کو باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ لیکن اس نے حاجیوں کے رویے اور بالخصوص اسمارٹ فون کے ناروا استعمال پر اظہار افسوس بھی کیا۔
مدینہ منورہ ہو یا مکہ مکرمہ، لوگ حاجیوں کے درمیان کھانے پینے کی اشیا بڑی مقدار میں مفت تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جہاں کوئی چیز مفت تقسیم ہوتی ہوئی نظر آئی کم از کم ہند و پاک کے حاجی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جس پر تقسیم کرنے والے ان کی حرکتوں سے عاجز آکر تقسیم کا سلسلہ ہی بند کر دیتے ہیں۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ لاکھوں روپے خرچ کرکے حج پر آتے ہیں اور چند ریال کے کھانے پر اس طرح ٹوٹتے ہیں جیسے کہ شیرے پر مکھی۔ وہ اپنے مقام اور وقار کا بالکل ہی پاس و لحاظ نہیں رکھتے۔
حجاج کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کے مہمان ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کے یہاں مہمان بن کر جاتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اس کے کسی عمل سے اس کے میزبان کو تکلیف نہ پہنچے۔ جب ایک عام انسان کا مہمان بننے پر ہم آداب اور حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں تو اللہ کا مہمان بننے پر تو ہمیں اور بھی محتاط رہنا چاہیے۔ اللہ سے بڑا کوئی میزبان نہیں ہو سکتا۔ اور حجاج کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ ان کا میزبان اللہ تعالی ہے۔ کائنات کے اس سب سے بڑے میزبان کا مہمان بننے پر ہمیں بطور خاص اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور ایسے کسی بھی عمل سے بچنا چاہیے جو اسے ناگوار گزرے یا جو اسے ناپسند ہو۔ خواہ وہ سیلفی ہو یا ویڈیو گرافی۔ ہمیں اپنی عبادتوں کو بہر حال ان آلائشوں سے محفوظ رکھنا چاہیے۔
sanjumdelhi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں