“شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات”

یاسر ندیم الواجدی

کیا گندگی کا جواب گندگی سے دیا جانا ضروری ہے؟ کیا آپ کی خاموشی کبھی کبھی بہترین علاج ثابت نہیں ہوسکتی؟ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ آپ کے برابر سے گزرنے والا شخص اگر آپ کا دامن داغ دار کرنے کے لیے کیچڑ میں اچھلے تو آپ بھی بدلے میں اچھلنے لگیں؟ اس عمل سے آپ کا دامن زیادہ داغ دار ہوگا۔ ایسا تقریبا ہر روز ہوتا ہے کہ ہمیں فیس بک پر کوئی ایسی پوسٹ نظر آتی ہے جسے پڑھ کر ہمیں غصہ آتا ہے، بلکہ ہمیں اپنے نظریات ہلتے ہوے نظر آتے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ مارک زوکربرگ نے یہ فیس بک ہمیں اس لیے نہیں دیا کہ ہم اپنے دائیں انگوٹھے کی ایکسر سائز کرتے رہیں، بلکہ اس لیے دیا ہے ہم دنیا کو بتائیں کہ ہمارے ذہن میں کیا چل رہا ہے اور چونکہ فلاں شخص نے ایک معمولی پوسٹ کے ذریعے ہمارے نظریات کو جنبش دی ہے اس لیے ہمارے ذہن میں اس کے خلاف لاوا پک رہا ہے اور پکا کر برتن میں باقی رکھ چھوڑنا ہمیں آتا نہیں ہے لہذا اس پکے ہوے لاوے کو اپنے فیس بکی دوستوں کی اسکرین پر انڈیلنا نہایت ضروری اور مارک زوکربرگ کی وصیت کے عین مطابق ہے۔ بس آنا فانا ہم اپنے غصے کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں اور “قومی بحث” میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہر گندگی کے ازالے کا طریقہ اسے دھو ڈالنا نہیں ہے، بلکہ کبھی اسے چھوڑ دینا بھی طهارة الأرض يبسها کے قاعدے پر پاکی کا بہتر اور آسان طریقہ ہے۔

ہاں دو ایک افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے طرزِ عمل سے ہمیں یا ہمارے پرائیویٹ لمیٹڈ نظریات کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچاتے ہیں، ایسے مواقع پر اپنے ترکش کے تیر روکے رکھنا مداہنت کہلاتا ہے۔

آپ جب بھی کسی پوسٹ پر تبصرہ کریں تو دیکھیے کہ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد مسعود ہوتا تو آپ کا اسوہ کیا ہوتا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ایک بڑھیا اپنے بیٹے کی قبر پر بیٹھی گریہ وزاری کررہی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صبر کی تلقین کی تو اس نے بغیر دیکھے جذبات سے مرعوب ہوکر نامناسب تبصرہ کیا، اس نے کہا کہ میری جگہ آکر دیکھو تو اندازہ ہوگا کہ بیٹا کھونے کا غم کیا ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا اور تشریف لے گئے۔ اس بڑھیا کو بعد میں معلوم ہوا کہ جس ذات کو اس نے جواب دیا ہے وہ رسول خدا تھے وہ معافی مانگنے کے لیے حاضر خدمت ہوئی۔ اسی طرح ہم جب کوئی نامناسب طرز عمل دیکھیں یا کوئی ایسی تحریر پڑھیں جو ہماری سوچ وفکر سے متصادم ہو تو یہ سمجھ کر خاموش رہیں کہ لکھنے والا ابھی کسی اور دنیا میں ہے، اس کی عقیدتوں کا محور وہ افراد نہیں ہیں جو آپ کی عقیدتوں کا محور ہیں۔ اس لکھنے والے کو اجتماعی طور پر چھوڑ دیجیے، آپ دیکھیں گے کہ وہ خود اپنی تحریر پر آج نہیں تو کل غور کرے گا اور اگر وہ اپنی بات سے رجوع کی ہمت نہ جٹا پایا تو سکوت کی ہمت ضرور جٹا چکا ہوگا۔

یہ تو رہا فیس بک پر طرز عمل، اب آئیے واٹس ایپ پر۔ ہمارے درمیان اس طرح کے افراد وجود میں آچکے ہیں جن کے بارے میں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ علم میں ان کا سلسلہ دربار رسالت سے ملتا ہے، لیکن عمل میں بھی وہیں ملتا ہے یا نہیں، ان کا طرز عمل ہمیں شک میں ڈال دیتا ہے۔ یہ افراد اپنے ٹارگٹ کو اپنے واٹس ایپ گروپس میں زبردستی شامل کرتے ہیں اور پھر اس کی اوقات بتانے کے لیے تنابز بالالقاب کا اجتماعی ورد کرتے ہیں۔ میں اکثر ٹویٹر پر سنگھیوں کی اسلام دشمنی کا جواب نسبتا سخت الفاظ میں دیتا ہوں جس کے بعد بوکھلائے ہوئے سنگھی خوب گالیوں سے نوازتے ہیں، تکلیف تو کجا کبھی کبھی اچھا ہی لگتا ہے، لیکن یہی اگر اپنے کریں تو مجھے یقین ہے کہ میرے لیے یہ نہایت تکلیف کا باعث ہوگا۔ کچھ روز پہلے ہمارے ایک موقر دوست اس بے عملی اور فکری افلاس کا شکار ہوچکے ہیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی ٹرولنگ کرنے والے ہمارے “راہبران قوم” اور “مصلحین معاشرہ” تھے۔ میں ان حضرات سے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر ان کو یقین ہے کہ آپ کے پاس اتنے اعمال ہیں کہ فیصلہ خداوندی کے بعد آپ نے ادھر ادھر تقسیم بھی کردیے تب بھی وافر مقدار میں بچے رہیں گے تو آپ جو کررہے ہیں کرتے رہیے، ورنہ ابھی بھی وقت ہے، حکم تو یہ ہے کہ حساب یہیں بیباق کرالیں، لیکن اگر فی الحال اس کی ہمت نہیں ہوپارہی ہے تو اس عمل سے کلی اجتناب کا عزم مصمم تو کرہی لیں۔ اس طرح اپنے جسم میں کھولتے ہوے خون کو بچاکر رکھیے وقت پڑنے پر کام آئے گا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں