صبر کا شکر کا مجسم پیکر مولانا اہل اللہ صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

مفتی محمد اللہ قیصرقاسمی

صبح اچانک فون کی گھنٹی پر آنکھ کھلی، اتنے سویرے بڑے بھائی کی کال دیکھ کر کچھ ملے جلے احساس کے ساتھ ریسیو کیا، اور پھر انہوں نے جو خبر دی وہ ایک ایسی بجلی تھی جو ہوش و حواس کے خرمن کو چشم زدن میں راکھ کر گئی : “بڑے ماموں کا انتقال ہوگیا” یہ سنتے ہی ایک زور کا دھچکہ لگا اور میں” انا للہ و انا الیہ راجعون” کہہ کر خاموش ہوگیا ۔ نگاہوں کے سامنے شرافت کے پیکر اس عظیم انسان کی مسکراتی تصویر آگئی اور دل کے غم آنسووں کی شکل میں رواں ہوگئے ۔

صوبہ بہار کی ایک مردم خیز بستی اور اہل علم کا گہوارہ چندرسین پور کے جلیل القدر عالم دین مولانا عبد الحفیظ صاحب نور اللہ مرقدہ کی روایتوں کے امین، حضرت مولانا سعید صاحب قدس سرہ کے گنجینہ حکمت و معرفت کے محافظ، اور حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے علوم و عرفان کے سچے جانشیں، مدرسہ بشارت العلوم کے سابق مہتمم علم و عمل کا حسین سنگم حضرت مولانا اہل اللہ صاحب قاسمی اپنے بے شمار شاگردوں اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کردار فانی کو الوداع کہہ دار البقاء کے باسی بن گئے، اپنے رب کریم کے جوار رحمت میں پناہ گزیں ہوگئے، ایسا لگا جیسے وہ گئے نہیں بلکہ زمانے کی سازشوں کے پے در پے حملوں سے خوف کھاکر رب رحیم کے سایہ رحمت میں ایسے چھپ کر بیٹھ گئے جیسے کوئی معصوم بچہ کسی انجان شیئ سے ڈر کر ماں کے آنچل میں دبک جاتا ہے ۔

بانی مدرسہ بشارت العلوم کھرما، دربھنگہ حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نبیرہ، اور سابق مہتمم مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند، حضرت مولانا اہل اللہ صاحب قاسمی رحمہ اللہ ایک بلند پایہ عالم دین ہونے کے ساتھ بلند کردار، نیک دل، شریف النفس اور صاحب نسبت بزرگ تھے ۔ ان کی وفات یقینا علمی دنیا کیلئے بڑا نقصان ہے، وہ ہٹو بچو کی صدا سے دور تواضع و انکساری، سادگی و گمنامی کی زندگی کو اولیت دینے والے انتہائی شریف الطبع انسان تھے ۔

  ان کا تصور کیجئے تو ان کا سراپا کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ،گورا رنگ، میانہ قد، بڑی بڑی آنکھیں ، چوڑی پیشانی،پیشانی پر سجدے کی نشانی،بلند ناک، وجیہ، بارعب اور مسکراتا چہرہ، ریشمی گھنی ڈاڑھی،متوسط بدن،نرم و شیریں گفتار، کم گو،، یاد الٰہی میں رطب اللسان، سلیم الطبع برد بار، معمولات کے شدت سے پابند،اوصاف اسلاف کے سچے ترجمان ۔

سوانحی خاکہ:

حضرت مولانا اہل اللہ صاحب قاسمی کی ولادت حضرت شیخ الاسلام کے مسترشد، ولی وقت حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے گھر 1963 میں ہوئی، آبائی گاؤں چندرسین پور تھا جو ہمیشہ سے اہل علم کا گہوارہ رہا ہے، گھر میں شروع سے ہی علمی اور دینی ماحول رہا،چناں چہ آپ کے دادا حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک جلیل القدر عالم دین ہونے کے ساتھ قطب عالم حضرت مولانا بشارت کریم گڑہولوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز تھے، جنہوں نے اپنے پیر و مرشد کے نام سے منسوب مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ کی بنیاد ڈالی، آپ کے دادا کے برادر خورد حضرت مولانا سعید صاحب رحمہ اللہ اہل علم میں بحرالعلوم سے مشہور تھے، اور والد حضرت مولا عتیق الرحمن صاحب رحمہ اللہ ایک باکمال صاحب علم ہونے کے ساتھ روحانیت کے بلند و بالا مقام پر فائز تھے، ایسے گھریلو ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی تو فطری طور پر طبیعت میں علمی اور روحانی میلان پروان چڑھتا چلا گیا، بچپن سے ہی طبیعت میں شرافت غالب تھی، حتی کہ لڑکپن میں بھی اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ لڑنے بھڑنے یا کم عمری کی شرارت میں وقت گذارنے سے زیادہ گھر میں وقت گزارتے۔ کھیل اور تماشہ بینی سے طبعی طور پر اباء تھا۔

تعلیم:

ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ کے پاس رہ کر مکمل کی، اور اردو فارسی کی ابتدائی کتابیں گاؤں میں ہی استاذ العلماء حضرت مولانا امیر حسن صاحب رحمہ اللہ سے پڑھی، پھر ثانوی تعلیم کیلئے مدرسہ بشارت العلوم گئے جہاں عربی درجات کی بیشتر کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھی، چونکہ ذکاوت و ذہانت ورثہ میں ملی تھی، حصول علم کا شوق تھا، خوب سے خوب تر کی تلاش کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اس لئے عسیر الفہم اسباق اور دقیق مسائل کے فہم و استظہار میں دشواری نہیں پیش آتی تھی، بہت کم عمری میں دارالعلوم دیوبند گئے، اور قلیل عرصے میں اپنی محنت، لگن، اور علمی مشاغل کے ساتھ شرافت نفسی و طبیعت کی پاکیزگی کی وجہ سے کبار اساتذہ کے عزیز ترین شاگرد بن گئے، دار العلوم کی علمی فضاؤں میں دوسال گذارے۔ آپ ان خوش نصیب طلبہ میں سے ہیں جن کو کئی اساتذہ سے بخاری شریف پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، چناں چہ آپ نے قاری طیب صاحب، مولانا نصیر احمد خان صاحب، مولانا انظر شاہ کشمیری، اور مولانا سالم صاحب رحمہم اللہ سے بخاری شریف پڑھی، ان کے علاوہ شیخ عبد الفتاح ابوغدہ اور شیخ شمس الحق افغانی رحمہا اللہ سے بھی استفادہ کا موقع ملا۔

 1981 میں تکمیل دورۃ حدیث کے بعد ایک بار پھر اپنے والد بزرگوار کی تربیت میں آگئے،روحانی تربیت بھی انہیں سے پانے لگے،اور مدرسہ بشارت العلوم میں ہی درس و تدریس میں مشغول ہو گئے، چونکہ آپ انتہائی ذہین و فطین ثابت ہوئے تھے ، اس لئے درس نظامی کی اکثر متداول کتابیں آپ نے پڑھانی شروع کردی، 1987 میں والد محترم کی وفات حسرت آیات کے بعد ذمہ داران مدرسہ اور علاقہ کے مؤقر حضرات کی تحریک اور حضرت قاضی مجاہد الاسلام رحمہ اللہ کی تائید پر اہتمام مدرسہ کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی گئی، چونکہ آپ کے دادا نے اس گاؤں کے بزرگوں کے ساتھ مل کر اس چمن کی کیاری بندی کی، چھوٹے دادا نے اس کی آبیاری کی اور والد بزرگوار نے چمن کو سجایا،سنوارا اور پروان چڑھایا تھا، اسی لئے آپ علم و معرفت کے اس باغ کے حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرنے میں تن و من سے جٹ گئے، ایک عرصہ تک اساتذہ مدرسہ بالخصوص اپنے بہنوئی اور اپنے والد کے دست و بازو کی حیثیت رکھنے والے ان کے وفا شعار و باعتماد شاگرد، یقین محکم اور عمل پیہم کی لازوال قوت سے مالا مال حضرت مولانا قیصر صاحب قاسمی نیز ان کے دوسرے باکمال شاگرد، سادگی و برد باری میں اپنے استاذ کے پرتو حضرت مولانا عبد المالک حفظہما اللہ کے ساتھ مل کر اس ذمہ داری کا حق ادا کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے رہے۔

اس دوران آپ اپنے والد رحمہ اللہ کے حقیقی وارث کا کردار ادا کرتے ہوئے مدرسہ کی ذمہ داری کے ساتھ ان کے نامکمل علمی کاموں کی تکمیل میں بھی لگے رہے، چنانچہ آپ نے اپنے والد بزرگوار کی تاليف ایثار السنن پر افکار الحسن کے نام سے حاشیہ لکھا جس میں احادیث کی تحقیق وترتیب اور تبویب و تشریح ( غیر مطبوعہ)کا کام کیا، یاد حرم و الحج منظوم پر *الرحیق المختوم* کے نام سے تقدیم و تحشیہ کا کام کیا جو درحقیقت مکمل حج گائڈ ہے۔(مطبوعہ)

” العقائد الحاوی “ منظوم ترجمہ اردو عقیدۃ الطحاوی پر تبویب و تشریح بنام ” التحفۃ المثالیۃ “ (غیر مطبوعہ)کی تکمیل کی۔

مبتدی طلبہ بالخصوص تبلیغی جماعت کے افراد کے لئے ” عقائد اسلامی “ کی تکمیل کی۔

 ان دنوں اپنے والد حضرت مولانا عتیق الرحمن رحمہ اللہ کی سوانح پر کام کر رہے تھے جو بد قسمتی سے پائہ تکمیل کو نہ پہونچ سکا۔

ذہانت و فطانت کے ساتھ ذوق مطالعہ کی عظیم نعمت سے خوب مالامال تھے، روز مرہ کے مشاغل کے بعد باقی وقت مطالعہ میں گذارنے کی کوشش کرتے، ان کے کمرہ کی ہیئت دیکھ کر پہلی نظر میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ کتب بینی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، یا ان کیلئے اکسیر حیات ہے، اگر کسی کے حجرہ خاص میں الماریوں کے علاوہ تخت پر آدھے حصے میں کتابیں ہو تو اسے کتابوں کا کیڑہ کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات کا اکثر حصہ مطالعہ و شب بیداری میں گذار دینا ان کا معمول تھا ۔

قوت حافظہ بھی قابل رشک ملاتھا، متون کی طویل ترین عبارتیں ازبر تھیں. دیر رات تک پڑھنے پر کوئی ٹوکتا تو کہتے کہ مطالعہ روح کی غذا ہے اس سے روحانی بالیدگی حاصل ہوتی ہے، آپ بھی پڑھیں، ناصح منصوح بن کر خاموش ہوجاتا۔

کچھ لوگ اپنے اخلاق و کردار کی وجہ سے اپنے اردگرد رہنے والوں اور جاننے والوں کے ذہن ودماغ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، ان کی کچھ خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں، اسلئے وہ یکتاء زمانہ ہوتے ہیں، رب قدیر نے ان کے اندر اخفاء نفس کی عجیب و غریب عادت ودیعت کی تھی، روز مرہ کے معمولات اور مشاغل یومیہ تو دور اپنے بڑے سے بڑے اعمال و افعال کا تذکرہ بھی نا پسند کرتے تھے، ان کی اسی عادت نے ان کی شخصیت کو کئی تہوں میں چھپا کر رکھ دیا، حتی کہ اہل خانہ میں بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے اورادو وظائف، ذکر و اذکار، تسبیح و تہلیل، قیام اللیل، مراقبہ و محاسبہ اور شب بیداری تقریبا آپ کا معمول ہوگیا تھا، جس کا اثر یہ ہوا کہ صحت متاثر ہونے لگی، لیکن یہ ایسی چاٹ ہے کہ جس کو لگ جائے اس سے کہاں چھوٹنے والی ۔ استغناء کی دولت سےناقابل یقین حد تک مالامال تھے، حتی کہ جب زندگی کی شدید ترین اور وجود کو ہلاکر رکھ دینے والی مصیبت سامنے آئی تو لوگوں نے اصحاب اقتدار سے تعاون لینے کا مشورہ دیا، اس وقت فرمایا کہ میں اپنا معاملہ اپنے رب کے سپرد کرچکا ہوں، بندوں کے پاس جاؤں گا تو میرا رب مجھ سے ناراض ہوجائے گا۔ بلا شبہہ وہ صبر کے کوہ گراں تھے،سنگین ترین حالات اور انسانی وجود کو متزلزل کر دینے والی پریشانیوں میں بھی جزع فزع کی کیفیات سے دوچار نہیں ہوئے، توکل گویا ان کے عناصر ترکیبی کا جزو لاینفک تھا، لہذا کبھی تنخواہ ملنے میں تاخیر ہوتی یا مدرسہ مالی مشکلات سے دوچار ہوتا، اساتذہ و ذمہ داران آتے ، پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے کیسے پورا ہوگا جواب میں بس ایک جملہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ” اللہ پورا کرے گا” گویا سب کہتے”متی نصر الله” اور وہ جواب دیتے” ألا إن نصر الله قريب”پھر اسباب کی فراہمی میں جٹ جاتے، میرے والد مولانا قیصر صاحب جو مدرسہ میں ان کے دست راست اور یار غار اور مدرسہ میں فراہمی اسباب کے اہم ذمہ دار تھے ، کہتے ہیں کہ مشکلات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں، سفر میں نکلتے ہوئے توکل سے لبابب ان کے جملے امید کی کرن بن کر ایک عجیب روشنی فراہم کرتے تھے، پتہ نہیں ہائے توبہ اور جزع فزع سے ان کو کیا بیر تھا، کبھی پاس پھٹکنے نہیں دیا، زہد و ورع اور خشیت الٰہی کی مجسم شکل بنانے بیٹھیں تو حضرت مولانا اہل اللہ صاحب رحمہ اللہ کی تصویر بن جائے گی ۔ زندگی کے چھوٹے موٹے واقعات کبھی کبھی انسان کی پوری طبیعت کا خاکہ پیش کردیتے ہیں، میری والدہ جو ان کی بڑی بہن ہیں سناتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپ کی والدہ نے کوئی ڈبہ کھولنے کیلئے دیا، انہوں نے کھول کر جوں کا توں واپس کر دیا، والدہ نے کہا اہل اللہ تم نے دیکھا نہیں کہ ڈبہ میں کیا ہے، فرمایا امی آپ نے کھولنے کا حکم دیاہے دیکھنے کی اجازت نہیں دی تو کیسے دیکھوں، والدہ جو انتہائی نیک دل،شریعت کی بڑی پابند، اورتہجد گزار خاتون تھیں میری والدہ سے کہا ” الحمدللہ مجھے “اہل اللہ” میں خیر کے آثار نظر آرہے ہیں ۔ انتہائی غیض و غضب کی حالت میں بھی بہت اونچی آواز میں نہیں بولتے، امی کہتی ہیں کہ مجھے یاد ہی نہیں کہ میرے بھائی نے کبھی مجھ سے بھی اونچی آواز میں گفتگو کی ہو، ان کے شاگرد اس بات کی تصدیق کریں گے کہ مدرسہ کے چھوٹے بچوں کی تنبیہ کیلئے بھی ڈانٹ پھٹکار کا طریقہ نہیں اپناتے، بچوں کے ساتھ شفقت اور نرمی ان کی فطرت تھی، اللہ نے انہیں خوش اخلاقی، حلم و بردباری، عاجزی و انکساری کے زیور سے اراستہ کیا تھا، جس نے انہیں لوگوں کا چہیتا بنا دیا تھا ۔

 کچھ لوگ عبادات میں ادنی کسل مندی برداشت نہیں کرتے، صوم وصلاۃ کی پابندی، نوافل وسنن کا اہتمام اس قدر ہوتا ہے کہ پہلی نظر میں انہیں فرشتوں کی جماعت کا بھٹکا ہوافرد قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اخلاقی حالت ایسی کے الامان و الحفیظ، معاملات ایسے کہ اللہ کی پناہ، حضرت مولانا کی خوبی یہ تھی کہ کثرت عبادات کے ساتھ اخلاقیات و معاملات میں بھی شریعت کی تعلیمات و ہدایات سے سرمو انحراف سے بھی حتی الوسع بچنے کی کوشش کرتے،رقیق القلب ایسے کہ کسی کی ادنی پریشانی سن کر رو پڑتے، لوگ آتے، یا فون کرکے اپنی پریشانیاں بیان کرتے، دعا کی درخواست کرتے وہ سب کو دعا کے ساتھ صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے کہ صبر امید کی کنجی ہے اور صابر اللہ کی پناہ میں ہوتا ہے، صبر کرو. مہمان نوازی ان کا امتیاز تھا، امیر غریب، خاص، عام، عالم جاہل کوئی پہونچ جائے حتی الوسع مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

 بعض انسان میں کچھ خوبیاں ایسی ہوتی ہیں کہ بغیر تجربہ کے ان کا یقین ممکن نہیں، حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ بھی ان میں سے ایک تھے، شدید ناراضگی کے عالم میں بھی، بدکلامی، بدگوئی یا مخالفین کی غیبت نہ کرتے، طیش کے عالم میں بھی کرخ دار آواز میں گفتگو کسی نے نہیں سنی۔ گاؤں میں گھوم جائیے ان کے ارد گرد والوں سے پوچھ لیجئے کسی کو یہ یاد نہیں کہ اپنے ذاتی معاملات کی وجہ سے انہوں نے کبھی غیض و غضب کا اظہار کیا یا ان کا کوئی جھگڑا ہوا.

 تقوی و طہارت، رزق حلال پر قناعت،خلاف شرع رسم رواج اور شرک و بدعات سے نفرت اور ان کی اصلاح کے لازوال جذبہ سے مزین تھے، خلاصہ یہ کہ خالق نے گوناگوں خوبیوں کے ساتھ ان کی تخلیق کی تھی، یہی وجہ ہے کہ آج ہر خاص و عام ان کے ذکر خیر میں رطب اللسان ہے.

دعا ہے کہ رب رحیم و کریم ان کو اپنے جوار رحمت میں مقام خاص عنایت کرے ۔

بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔