مسلم پرسنل لاءمیں مداخلت ہرگزقبول نہیں،بابری مسجدپرسپریم کورٹ کافیصلہ منظور:جمیعة علمائے ہند

ممبئی 13فروری(ملت ٹائمز)
آزاد ہندوستان کی پوری تاریخ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے لئے نئی نئی آزمائشوں سے عبارت رہی ہے،لیکن آج جیسے روح فرسا اور حوصلہ شکن حالات ماضی میں بھی نہیں آئے ۔ طلاق ثلاثہ اور احکام شریعت میں حکومت کی مداخلت کی کوشش،بابری مسجد ملکیت معاملے پر سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کے لئے جمعیةعلماءکی کوششوں پر مولاناحلیم اللہ قاسمی نے جمعیةعلماءضلع تھانے و پالگھر کی سہ ماہی میٹنگ زکریا مسجد،قسمت کالونی ،ممبرا کوسہ میں روشنی ڈالی ۔مولانا حلیم اللہ قاسمی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں جمعیة علماءہند روز اول سے فریق ہے۔۰۳ ستمبر۰۱۰۲ئ کو بابری مسجد کے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو جس میںا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھاکو سب سے پہلے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اورعدالت کے حکم کے بموجب ہندی،اردو،فارسی،سنسکرت ودیگر زبانوں میں موجود دستاویزات کے ترجمے بھی کرائے گئے ۔مولانا نے بابری مسجد قضیہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ءکی شب میں بابری مسجدکے اندر رام للا کی مورتی رکھے جانے کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۵۴۱ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیة علماءاتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجہاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھافی الوقت جواپیل عدالت عظمی میںزیر سماعت اس میں مولانا سید اشہد رشیدی صدر جمعیةعلماءاتر پردیش بطور فریق شامل ہیں ،اور جمعیةعلماءہند کی نمائندگی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ۰۳ ستمبر ۰۱۰۲ئ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا گیا تھا وہ فیصلہ نہیں بلکہ سمجھوتہ تھا جس کا مطالبہ فریقوں میں سے کسی نے نہیں کیا تھا ۔اسی بناءپر جمعیة علماءنے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر جمعرات کو سماعت عمل میں آئی اور اس کی اگلی تاریخ ۴۱ مارچ مقرر کی گئی ہے۔جمعیة علماءہند کا کہنا ہے کہ عدالت کو آرجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ کی روشنی میں حق ملکیت کا فیصلہ کرنا چاہئے اور عدالت جو بھی فیصلہ کردے گی وہ ہمیں منظور ہوگا،لیکن فریق مخالف حیلے بہانے سے اس کو آستھا کا موضوع بنانے پر تلا ہوا ہے،جمعیةعلماءامن و امنا کی بحالی کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حق ملکیت کا فیصلہ چاہتی ہے اور عدالتوں کا یہی دائرہ اختیار بھی ہے۔طلاق ثلاثہ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا حلیم اللہ قاسمی نے فرمایا کہ یہ ملک کو یکساں سول کوڈ کی جانب لے جانے کی ایک کوشش ہے جس کا عملی آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب سپریم کورٹ آف انڈیا کے جسٹس وکرم سین اور جسٹس شیوا کرتی سنگھ نے۵۱ دسمبر ۷۱۰۲ءکوایک سوموٹو جاری کرکے حکومت ہند سے جواب طلب کیا کہ کیوں نہ ملک میں یکساں سول کوڈ بنایا جائے؟اخبارات میں اس کی خبر آنے کے بعد جمعیة علماءہند کے صدر محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی کے حکم پر جمعیة علماءہند کے رکن عاملہ اور جمعیة علماءمہاراشٹر کے صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی صاحب کی طرف سے ۵ فروری ۶۱۰۲ کو سپریم کورٹ میں اس نوٹس کے تعلق سے مداخلت کار بننے کی درخواست داخل کی گئی،جس کوسپریم کورٹ نے منظور کیا اور حکومت ہند کو اس اعتراض کا جواب داخل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ جو۷ اکتوبر ۶۱۰۲ئ کو سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کیاجس میں مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے ۳ طلاق اور دوسری شادی پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔اس کے بعد جمعیةعلماءکے وکلاءنے د ارالعلوم دیوبند کے مفتیان عظام ا ور علماءکرام سے ان مسائل پر سیر حاصل گفتگواورتبادلہ خیال کے بعداسلامی تعلیمات (قرآن شریف، مستند احادیث اور فقہی جزئیات)کی روشنی میں ہی حلف نامہ تیارکرکے مارچ ۷۱۰۲ءمیں اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔جس میں طلاق ثلاثہ کو چاروں امام کے مسلک کی روشنی میں جائز قرار دیا گیا ہے ،اور تعدد ازدواج و نکاح حلالہ کو بھی عین شریعت کے مطابق تسلیم کیا گیا ہے۔نیزجمعیة علماءہند نے عدالت سے یہ مطالبہ کیا تھاکہ طلاق ثلاثہ ،حلالہ اور تعدد ازدواج کے تعلق سے جو عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں انہیں مسترد کردیا جائے۔بالآخر سپریم کورٹ نے محض چند درخواستوں کو اہمیت دیتے ہوئے ظلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دے دیا ،اس کے بعد مرکزی حکومت نے طلاق ثلاثہ پر۸۲ دسمبر ۷۱۰۲ئ کو لوک سبھا سے بل منظور کروا لیا ہے جس سے شریعت اسلامی پر کھلی زد پڑتی ہے،اور اس کو راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا ،مسلم پرسنل لاءبورڈکی بر وقت کوششوں سے ۳ جنوری و۵ جنوری ۸۱۰۲ئ کو راجیہ سبھا سے یہ بل منظور نہ ہو سکا۔اس موقع پر نظامت کے فرائض اور کارروائی کی خواندگی حافظ محمد عارف انصاری نے کی ۔ میٹنگ میں جمعیةعلماءضلع تھانے و پالگھر کی یونٹوں کے ذمہ داران و اراکین منتظمہ نے شرکت کی جن میں مفتی لئیق احمد قاسمی ،مفتی یاسین قاسمی،مفتی حفیظ اللہ قاسمی ،مفتی فیاض قاسمی،مولانا نور اللہ قاسمی،مولانا عبد الوہاب قاسمی،حافظ ذاکر سابلے،حافظ ایاز،قاضی عبد اللہ قاسمی،مولانا عبدالصمد قاسمی،حافظ محمد الیاس،حافظ لقمان،مولانا عبد السبحان،مولانا شمشیر عالم قاسمی،حافظ علی حسین،مولانا عبد القدوس،مفتی محمد اعلم ،مولانا قطب اللہ،مولانا طارق،مولانا احمد اللہ ،مولانا ذوالفقار ،حاجی عبد المتین شیخ حمید منصوری،محمد اسلم شیخ ،مولانا عقیل احمد مظاہری،مولانامحمد ادریس قاسمی،مفتی عبد الاحد قاسمی،حاجی یونس خان،حاجی صغیر احمد خان،مولانا عتیق الرحمٰن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔آئندہ سہ ماہی میٹنگ ۸ اپریل ۸۱۰۲ئ کو مدرسہ سراج العلوم بھیونڈی میں ہونا طے پایا ہے۔