معروف سیاسی رہنما بیرسٹر اسد الدین اویسی کی ملت ٹائمز کے ساتھ خاص بات چیت 

بیرسٹر اسد الدین اویسی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ،آپ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور تین مرتبہ سے لوک سبھا کے ایم پی ہیں،حیدر آباد سے نکل کر آپ کی سیاست شمالی ہنداور جنوب تک پہونچ چکی ہے ،ہندوستان بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں بستے ہیں،ملی مسائل کیلئے بیباکی کے ساتھ آواز بلند کرنا،پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرنا،اقلیتوں اور دلتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا آپ کی نمایاں پہچان ہے، سڑک سے لیکر سنسد تک آپ مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں،اسلامی وضع قطع کے ساتھ ہرجگہ نظر آتے ہیں ،گذشتہ چند سالوں میں آپ کی قیادت میں مجلس اتحاد المسلمین کی سیاسی ترقی ہوئی ہے اور مہاراشٹر ،یوپی اور بہار میں اس پارٹی نے اپنے قدم جمانے شروع کردیئے ہیں،مہاراشٹرا اسمبلی میں دو ایم ایل ہیں،یوپی اور بہار میں کامیابی نہیں مل سکی ہے لیکن آئندہ انتخابات میں بہتر کارکردگی کی توقع ہے ،بالخصوص بہار کے سیمانچل پر آپ کی خاص توجہ ہے ،2015 کے اسمبلی انتخابات میں مجلس نے اپنے چھ نمائندے کھڑے کئے تھے لیکن کسی کو بھی کامیابی نہیں مل سکی ،بہار ایم آئی ایم کے صدر جناب اختر الایمان صاحب کو بھی شکست کا سامنا کرناپڑا لیکن اس کے باوجود حوصلے بلند ہیں اور آئندہ انتخابات کیلئے ابھی سے سیمانچل میں تیاری جاری ہے ،اسی پس منظر میں گذشتہ 30 جولائی کو سیمانچل میڈیا منچ کے ٹیم کی اسد الدین اویسی صاحب سے کانسٹی ٹیوشن کلب دہلی میں چائے پر ملاقات رکھی گئی ،اس میٹنگ میں سیمانچل میڈیا منچل کے لوگوں نے سیمانچل کے مسائل کو بیان کیا ،اویسی صاحب سے انہیں حل کرنے کا مطالبہ کیا، اسدالدین اویسی صاحب نے اس موقع پر مسلم لیڈر شپ پرخاص توجہ دلائی،مخلص قیادت پر قوم کے عدم اعتماد کا شکوہ ہ کیا اور شرکاء کے بہت سارے سوالوں کا انہوں نے جوا ب دیا،اسی موقع پر انہوں نے ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل کیلئے خصوصی انٹرویو بھی دیا اور اس طرح ان کے خصوصی انٹرویوسے ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل کا آغا ز ہوا ،میٹنگ میں اویسی صاحب کی گئی تقریر کے اہم نکات اور ملت ٹائمز سے ہوئی بات چیت کے اہم اقتباسات کو قارئین کی خدمت میں ہم تحریری طور پرپیش کررہے ہیں۔
شمس تبریر قاسمی


سوال :مجلس اتحاد المسلمین کا مقصد اور مشن کیا ہے ؟
جواب: مجلس اتحاد المسلمین ایک سیاسی پارٹی ہے ،اس کا مقصد ہندستانی سیاست میں حصہ داری ،ملک کی ترقی اور مذہبی تفریق کے بغیر تمام ہندوستانیوں کے مسائل اور حقوق کی جنگ لڑناہے ،ہم جانتے ہیں کہ ہماری حکومت نہیں بن سکتی ہیں لیکن ہم اپنے چند مخصوص نمائندوں کو ضرور پارلیمنٹ اور اسمبلی میں بھیج سکتے ہیں ،جو ایک مخصوص نظریہ کے ساتھ ہماری آواز اٹھائیں ،بیباکی کے ساتھ ملت کے مسائل کو رکھیں ،اگر ایک بھی صاحب بصیرت ،بیباک ،ذمہ دار اور ہوش مند شخص کو ہم اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھیج دیتے ہیں تو وہ ہماری آواز بنیں گے ،بیباکی کے ساتھ آواز بلند کریں گے ، جہاں تک بات ہے اسلام کو لاحق خطرات کی تو ایسا کچھ نہیں ہوگا ،وہ کچھ ایسے ایشوز کو چھیڑ کر اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور ملک ومیڈیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کیلئے کرتے ہیں،مائیناریٹیز کے اپنے حقوق ہیں،سبھی کو مذہبی آزادی حاصل ہے ، اسے کوئی نہیں چھین سکتاہے ،ہندوستان میں مسلمانوں کو سیاسی برتری حاصل کرنا بیحد ضروری ہے اور اسی جانب توجہ دینے کی اشد ضررو ت ہے ۔
سوال:
مجلس کی شبیہ شیوسینا جیسی بنا دی گئی ہے ،اس کے بر عکس مولانا بد الدین اجمل صاحب کی پارٹی کسی حدتک سیکولر زمرے میں شامل ہے ؟
جواب:
یہ سیاست ہے لوگ ایک دوسرے کو بدنام کرتے رہتے ہیں،مولانا بدرالدین اجمل صاحب کے پیچھے خود وہاں کی سیکولر پارٹیاں سب سے زیادہ پڑی ہوئی ہیں،اس مرتبہ کانگریس کی پوری فکر مولانا بدرالدین اجمل کو ہرانے پر تھی ،آسام سے تعلق رکھنے والے ایک کانگریسی نے مجھے یہاں تک کہاکہ اگر دس سے کم سیٹ آئی تو ان کی پارٹی ختم کردیں گے ،کانگریس نہیں چاہتی ہے کہ مسلمان براہ راست سیاست میں آئیں ،وہ چاہتی ہے کہ ہمیشہ ان کے ووٹ بینک بنے رہیں ،ان کی تابعداری کریں اور جولوگ آتے ہیں ان پر فرقہ پرستی ،تشدد اور دیگر الزامات عائد کرتی ہیں،میں خدا تعالی کا بیحد شکر گزار ہوں کہ آسام میں مولانا کی پارٹی مقبول ہے ،اس مرتبہ بھلے ہی کچھ کم سیٹیں آئیں لیکن مستقبل میں ہمیں بڑی امیدیں وابستہ ہیں ۔
سوال 
نئی نسل کا شکورہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان لیڈر شپ کا فقدان ہے؟
جواب
مسلمانوں کے درمیان بالکل بھی لیڈر شپ کا فقدان نہیں ہے بلکہ لیڈر شپ کی بہتات ہے ،لیکن یہاں لیڈروں کی قدر نہیں ہے ،مسلمانوں رہنماؤں کی مسلمانوں کے درمیان اہمیت نہیں ہے ،وہ اپنوں پر اعتبار نہیں کرتے ہیں ،وہ اپنوں کی قیادت کی بجائے سیکولرزم کے نام پر دھوکہ کھانا پسند کرتے ہیں ۔
سوال
بہار میں آپ کو عوام نے مسترد کردیا ،اب آپ کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا ؟
جواب :

یہ سیاسی لڑائی ہے ،ہم لڑیں گے ،خواہ نتیجہ ہماری مرضی کے مطابق آئے یا نہ آئے ،آپ سوچیں کہ اگر ایک اختر الایمان بہار میں ہوتے تو وہاں کا نقشہ آج کچھ اور ہوتاہے ،مجھے بہت افسوس ہے کہ اختر الایمان نہیں جیت سکے ۔اب دیکھئے بہار میں دونوں طرف اتنے سارے مسلم ایم ایل اے ہیں لیکن سب خاموش ہیں ،انہیں صرف فکر یہ ہے کہ جمعہ کی نماز ہے جلدی کریں ،دوسرے فرائض کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے ۔
لنک پر کلک کرکے ملت ٹائمز کا یوٹیوب چینل سسکرائب کریں
سوال 
2015 میں ایم آئی ایم بہار میں گئی تھی ،سیمانچل میں اپنے چھ نمائندے انہوں نے کھڑے کئے تھے ،لیکن عوام نے مسترد کردیا کوئی جیت نہیں ملی ،خدانخواستہ عظیم اتحاد کے بجائے بی جے پی جیت جاتی تو اس کا ٹھیکرا اسد الدین اویسی کے سر پھوڑا جاتا،لیکن 20 ماہ بعد دوبارہ وہاں بی جے پی جیت گئی ہے ،آپ کا اس پر کیا ردعمل ہے ؟۔
جواب :
نہیں ہم نے صرف چھ سیٹ پر مجلس کے نمائندے کھڑے کئے تھے ،اتنے بڑے صوبے میں چھ نمائندے ہم نے اتارے تھے اس لئے بی جے پی کے جیتنے کا وہاں کوئی سوال ہی نہیں تھا ،ہاں لیکن اب جو وہاں سیاسی تبدیلی آئی ہے تو اس کا جواب ان لوگوں کو دینا پڑے گا جنہوں نے بہار کی عوام سے سیکولرزم کے نام پر ووٹ طلب کیاتھا لیکن اب وہ فرقہ پرستوں کے ساتھ چلے گئے ،ان تینوں پارٹیوں کو بہار کی عوام نے ووٹ دیا تھا لیکن یہ اتحاد برقرار نہیں رہ سکا ،ان تینوں کو جواب دینا پڑے گا اور یہ تینوں ذمہ دار ہیں۔
سوال 
پورا بہار پسماندہ ہے ،پھر آپ کی توجہ صرف سیمانچل پر کیوں ہے ؟
جواب
یقیناًپورا بہار پسماندہ ہے ،پسماندہ صوبوں میں بہار کا نام شامل ہے لیکن سیمانچل سب سے زیادہ پسماندہ ہے ،آسام میں میرا جانا ہوا،مولانا بد را لدین اجمل صاحب کے حلقہ ڈبروگڑھ وغیرہ کو میں نے دیکھاتو مجھے لگا کہ اس سے زیادہ پسماندگی پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوگی ،دنیا کا یہ سب پسماندہ اور بیک ورڈ علاقہ ہے لیکن سیمانچل جانے کے بعد معلوم ہواکہ اس کے مقابلے میں آسام بہتر ہے ،یہاں پسماندگی کی انتہاء ہے ،سڑکیں نہیں ہے ،لوگوں کے پاس رہنے کیلئے مکان نہیں ہے ،تعلیم کا صحیح نظام نہیں ہے ،ڈیٹا اور ریکاڈ س بتاتے ہیں کہ سیمانچل سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ ہے ۔
سوال 
سیمانچل کے فلاح وبہبود کیلئے آپ کا منصوبہ کیا اور کن شعبوں میں آپ کام کررہے ہیں؟
جواب:
ہماری پوری لڑائی سیمانچل کیلئے ہے ،شروع دن سے ہم لوگ سیمانچل کے حقوق کی لڑائی لڑرہے ہیں،آپ لوگ بھی ہمیں مشورہ دیں بتائیں کہ ہمیں سیمانچل کیلئے کیاکرنا چاہیئے ،رہاسوال ایم ایس ڈی پی کے فنڈ کا تو میں ذمہ داری کے ساتھ بتارہاہوں کہ پارلیمنٹ کی اسٹنڈنگ کمیٹی کا میں ممبر ہوں،اس میں وزارت اقلیتی فلاح وبہبود بھی آتی ہے ، ہر میٹنگ میں میں سیمانچل کے مسائل کو پیش کرتاہوں ،سوال کرتاہوں،پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن میں کشن گنج میں قائم اے ایم یو کے سینٹر کا جو بجٹ کم کردیاگیا ہے اس کو بڑھانے کے بارے میں میں نے لکھ کردیا ہے اس کے علاوہ میں نے وہاں کچھ کورسیز بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے ۔
سوال 
بہار کے موجودہ سیاسی بحران کیلئے کون ذمہ دار ہے ،راہل گاندھی ،لالو پر سا یادو یا نتیش کمار ؟
جواب
تینوں ذمہ دار ہیں ،ان تینوں نے بہار کی عوام سے وعدہ کیاتھا کہ آپ ہمیں ووٹ دیں ہم بہار کو فرقہ پرست طاقتوں سے دور رکھیں گے ،فاشزم طاقتوں کو وہاں نہیں آنے دیں گے لیکن ان لوگوں نے اس وعدہ کی تکمیل نہیں کی اور بی جے پی کی حکومت بنادی ۔
سوال 
مجلس 2019 کے لوک سبھا اور 2020 کے اسمبلی انتخابات میں دوبارہ بہار میں حصہ لے گی ،اگر لیتی ہے تو پورے بہار میں یا صرف سیمانچل میں ؟
جواب
2019/2020 میں ابھی وقت ہے ،وقت آنے پر سب کچھ ہوگا،ہماری پارٹی جو فیصلہ لے گی اس پر عمل ہوگا ،لیکن یہ یاد رکھیئے کہ ایک سیاسی پارٹی الیکشن لڑنے کیلئے ہی بنائی جاتی ہے ، ہمارا کام جاری ہے ،ہمارے اراکین محنت کررہے ہیں ،ہمیں امید ہے کہ اگلے الیکشن میں سیمانچل کی عوام ہمارا بھر پور تعاون کرے گی ،وہ ہمیں سپورٹ کرے گی ۔
آخری سوال 
ہندوستان میں سیکولزم کا مستقبل کیا ہے ؟
جوب
ہندوستان میں سیکولزم کا مستقبل اسی وقت ہوگا جب سیکولز م کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی پارٹیاں یہاں کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے ساتھ انصاف کرے،چاہے مسلمان ہوں،دلت ہوں یا آدی واسی ہوں،اور سیکولرزم پر دوبارہ سے بحث ہونی چاہیئے ،آئین میں تو سیکولرزم لکھاگیاہے لیکن یہ جو الیکشن کے وقت سیکولرزم کے نام پر ٹھگا جاتاہے ،لوگوں کو دھوکہ دیا جاتاہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ہندوستان کی بہت بڑی تعداد سیکولرزم پر یقین رکھتی ہے ،میری ان تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ اس کا محاسبہ کریں جو سیکولرزم کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں ، بہار میں ابھی جو کچھ ہواہے ،جس طرح فاشزم طاقتوں کو چور دروازے سے اقتدار سونپا گیاہے اس سے سیکولرزم پر یقین رکھنے والی عوام کو دھکا لگاہے۔


ملت ٹائمز سے بات چیت کرنے اور وقت دینے کیلئے بہت شکریہ
آپ کا بھی شکریہ ،محنت کریں ،آپ کی کوشش قابل قدر اور لائق ستائش ہے ،میڈیا کے میدان میں آپ جیسے لوگوں کو بہت بڑھ چڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے ،میری دعائیں اور نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔