ہندو یوا واہنی کی کھلے عام غنڈہ گردی ۔ خوف سے ایک مسلم فیملی اپنا شہر چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور

بلند شہر: اتر پردیش کی ہوگی حکومت میں انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے بعض علاقوں میں مسلمانوں کے درمیان خوف و ہراس کا ماحول بڑھتا جا رہا ہے ایسا ہی ایک واقعہ بلند شہر میں پیش آیا ہے جہاں جیل میں بند9 ہندو یوا واہنی کارکنان کی آزادی کی خبر سے ایک مسلم فیملی نے خوفزدہ ہوکر شہر چھوڑ دیا ہے ۔ خبر ہے کہ مسلم فیملی کے16 اراکین ایک ساتھ علی گڑھ منتقل ہوگئے ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ کی تنظیم ’ہندو یوا واہنی‘ کے خوف سے بلند شہر کی ایک مسلم فیملی علی گڑھ ہجرت کر گئی ہے۔ معاملہ بلند شہر کے پہاسو علاقہ کا ہے جہاں گزشتہ سال ہندو یوا واہنی کے کارکنان نے ایک مسلم شخص کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کے بعد ملزمین کو پولس نے گرفتار کر کے جیل ضرور بھیج دیا تھا لیکن اب وہ چھوٹ کر جیل سے باہر آ رہے ہیں۔ ہندو یوا واہنی کارکنان کے باہر آنے کی خبر سے مقتول شخص کے اہل خانہ گھبرائے ہوئے ہیں اور انھوں نے پہاسو چھوڑنے جیسا قدم اٹھایا ہے۔ اطلاع کے مطابق مسلم فیملی کے 16 اراکین ایک ساتھ گاؤں سے ہجرت کر گئے ہیں۔دراصل گزشتہ سال اپریل میں پہاسو تھانہ کے سوہی گاؤں میں اس فیملی کا ایک لڑکا کسی ہندو لڑکی کے ساتھ فرار ہو گیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے جسے ہندو یوا واہنی کے لوگوں نے ’لو جہاد‘ کا نام دے دیا۔ لڑکی کے گھر والوں نے اس پورے معاملے کی شکایت پولس سے کی لیکن لڑکی اور لڑکے کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا۔ اس بات سے ہندو یوا واہنی کے کارکنان اتنے ناراض ہوئے کہ لڑکےکے گھر پہنچ کر اس کے ایک بزرگ رشتہ دار غلام محمد کی خوب پٹائی کی۔ لاٹھی ڈنڈوں سے کی گئی اس پٹائی میں غلام محمد کا انتقال ہو گیا۔
غلام محمد کے قتل کے بعد علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی تھی جس پر پولس نے کسی طرح قابو پایا اور اس درمیان ہندو یوا واہنی کے 9 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کرکے گرفتار کرلیا۔ یہی 9 ملزمین اب قید سے آزاد ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ فیملی نے گاؤں سے ہجرت کرنے جیسا قدم اٹھا لیا ہے۔ فیملی والوں کا کہنا ہے کہ انھیں حکومت اور پولس انتظامیہ کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملی اور گاؤں میں کوئی انھیں کام بھی نہیں دیتا، اس لیے گاؤں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اس فیملی نے علی گڑھ کو اپنا نیا ٹھکانہ بنا لیا ہے اور مرد حضرات وہیں روزگار کی تلاش میں لگ گئے ہیں۔ اس معاملے میں پولس نے کسی طرح کے خوف کی بات سے انکار کر دیا ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ روزگارکی تلاش میں فیملی علی گڑھ گئی ہے۔ حالانکہ یہ سوچنے والی بات ہے کہ فیملی کے 16 اشخاص ایک ساتھ علی گڑھ کیوں ہجرت کر گئے اور یہ ہجرت ایسے وقت میں ہی کیوں ہوئی جب ہندو یوا واہنی کے کارکنان جیل سے چھوٹ رہے ہیں۔دراصل غلام محمد کے اہل خانہ انصاف نہ ملنے سے مایوس ہیں اور انھیں خوف ہے کہ ہندو یوا واہنی کے کارکنان انھیں ایک بار پھر نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے انھوں نے بلند شہر چھوڑ کر علی گڑھ کو اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ بنائی گئی تنظیم ’ہندو یوا واہنی‘ کے کارکنان اس وقت بے خوف ہیں اور پولس انتظامیہ کی بھی انھیں پروا نہیں ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گرفتاری ہوئی بھی تو کچھ دن بعد آزادی تو مل ہی جائے گی۔