ہندوستانی مسلمانوں کے ایک اور متفقہ موقف سے مولانا سلمان ندوی کا انحراف ،بابری مسجد کی اراضی ہندو فریق کے حوالے کردینے کا مشورہ

نئی دہلی ۔7فروری(ملت ٹائمز)
منتازع بیان اور امت مسلمہ کے بیشتر متفقہ موقف سے ہٹ کر اپنی علاحدہ رائے قائم کرنے کیلئے مشہور مولانا سید سلمان الحسینی ندوی نے بابری مسجد کے مسئلے پربھی اپنی ایک علاحدہ رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو بابری مسجد کی اراضی ہندو فریق کے حوالے کردینی چاہئے اور اس کے عوض ان سے کچھ معاہدے کرائے جانے چاہیئے۔
سوشل میڈیا پربھٹکل میں ای ٹی وی اردو کو دیاگیا مولانا سلمان ندوی کا ایک انٹر ویو وائر ل ہورہاہے جس میں مولانا بابری مسجد کے مسئلہ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اور ہندوستانی مسلمانوں کے متفقہ موقف کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہ رہے کہ کچھ شرطوں اور معاہدوں کے ساتھ بابری مسجد کی اراضی ہندو وفریق کے حوالے کردینی چاہیئے ،وہ انٹر ویوں میں وضاحت کے ساتھ یہ کہ رہے ہیںکہ اگر عدلیہ سے کچھ جگہ بابری مسجد کی تعمیر کیلئے مسلمانوں کو دے بھی دی گئی تو مسلمان وہاں مسجد کی تعمیر نہیں کر پائیں گے ،پہلے بھی مسجد ویران تھی اس لئے بہتر یہی ہے کہ مسلمان عدلیہ کے باہر مذاکرات کی راہ اپنائیں،سادھو سنتوں سے ملاقات کریں اور ہندو فریق کے حوالے وہ جگہ کردیں اور اس کے بدلے یہ معاہدہ کرائیں کہ آئندہ اب کسی اور مسجد،مدرسہ اور قبرستا ن کے بارے میں کوئی اور مطالبہ نہیں ہوگا ۔نیز بابری مسجد انہدام کے تمام مجرموں کو سزا دی جائے گی ۔انہوں نے انٹر ویو میں اس جانب بھی توجہ دلائی کہ بعض فقہی مسلک میں اس بات کی گنجائش ہے کہ ضرورت پڑنے پر مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے ،بابری مسجد کی شہادت کے نام پر سینکڑوں مسلمانوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے ،آج بھی مسلمانوں کا قتل کیا جارہاہے اس لئے بہتر شکل یہی ہے کہ فریق مخالف کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کیا جائے ۔
مولانا نے اپنے انٹر ویومیں اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ شری شری روی شنکر سے 8 فروری کو بنگلور میں اس مسئلہ پرہونے والی میٹنگ میں وہ شرکت کررہے ہیں،اس سے قبل بھی ان کی اس مسئلے پر بات ہوچکی ہے ۔ دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے جنرل سکریٹری روی روی شنکر کی صلح کی پیشکش کویہ کہتے ہوئے ٹھکرا چکے ہیںکہ عدلیہ کے باہر اس سلسلے میں کوئی بات چیت نہیں ہوگی ،سابق چیف جسٹس ٹی ایس کھیر نے بھی مسئلہ کو عدلیہ کے باہر سلجھان کی اپیل کی تھی اور کہا تھاکہ ہم ثالثی کیلئے تیار ہیں لیکن اسے بھی دونوں فریق کی جانب سے مسترد کردیاگیاتھا ۔اسی طرح کے مضمون پر مشتمل مارچ 2017 میں لکھاگیا مولانا کا ایک لیٹر بھی گردش کررہاہے جس میں انہوںنے لکھاکہ مسلمان بابری مسجد کی اراضی سے دستبراد ہوجائیں ۔
واضح رہے کہ 8 فروری سے بابری مسجد کے مسئلے پر سماعت شرو ع ہورہی ہے ،دوسری جانب شری شری روی شنکرکی میٹنگ بھی اسی تاریخ میں منعقد ہورہی ہے جس میں پہلی مرتبہ کسی معروف مسلم رہنما کی شرکت ہوگی ۔ہم آپ کو بتادیںکہ مولانا سلمان ندوی آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے رکن تاسیسی ہیں ۔طلاق کے مسئلہ پر بھی انہوں نے بورڈ کے موقف سے علاحدہ رائے اختیا ر کرتے ہوئے مودی سرکار کے بل کی مخالفت کی تھی ۔ تاہم شدید تنقید ہونے کے بعد انہوں نے رجوع کرتے ہوئے کہاتھاکہ غلط فہمی کی بنیاد پر ہم نے بل کی حمایت کی تھی ۔

یہاں کلک کرکے سنیں مولانا کا انٹرویو