دہلی اقلیتی کمیشن نے جاری کی فیکٹ فائندنگ رپوٹ ، پلو ل مسجد کی تعمیر کیلئے نہیں لیاگیا غیر ملکی پیسہ

یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی مسجد کے بارے میں ایسی رپورٹ آئی ہے کہ اس کا تعلق دہشت گردوں سے ہے یا اس میں دہشت گردوں کا پیسہ لگا ہے
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
ہریانہ کے ضلع پلول میں واقع موضع اٹاور میںایک زیر تعمیر مسجد کے بارے میں مبینہ غیر ملکی فنڈ کی فراہمی سے متعلق الزامات کی تحقیقات کے لئے دہلی اقلیتی کمیشن نے پچھلے دنوںایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ مذکورہ واقعے میں دہلی کا ایک شہری گرفتار ہے۔ کمیٹی نے علاقے کا دورہ کیا اور مسئلے کی گہرائی میں جانے کی غرض سے پولیس وانتظامیہ کے افسران،مقامی پنچایت کے ذمہ داران، علاقے کے لوگوں اور متاثرہ خاندانوں کے افراد سے گفتگو کی۔کمیٹی نے اس کیس میں ایک ملزم محمد سلمان کے خاندان سے بھی دہلی میں ملاقات کی۔اس کمیٹی کے سربراہ حقوق انسانی کے معروف کارکن اویس سلطان خاں تھے جو دہلی اقلیتی کمیشن کی مشاورتی کمیٹی کے رکن ہیں۔ کمیٹی دہلی اقلیتی کمیشن کے دوسرے ممبران سابق رکن دہلی اقلیتی کمیشن اوراس کی مشاورتی کمیٹی کے ممبر اے سی مائکل ، شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے ممبر سردار گور مندر سنگھ متھارو اور معروف ماہر قانون وحقوق انسانی کے کارکن ابوبکر سباق تھے۔
مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ دہلی اقلیتی کمیشن نے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس منعقد کرکے ۱۳ اکتوبر کو ریلیز کی۔ اس موقعے پر کمیشن کو صدر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اور ممبر سردار کرتار سنگھ کوچر کے ساتھ تحقیقاتی کمیٹی کے تمام ممبران موجود تھے۔ اس موقعے پر کمیشن نے رپورٹ قبول کرتے ہوئے اس کو ریلیز کیا اور اس کے نتائج کو انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں میں جاری کیا جبکہ پوری رپورٹ انٹرنٹ پر ڈال دی گئی ہے

:دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپوٹ کیلئے یہاں کلک کریں
اویس سلطان خاں نے میڈیا کے سامنے کمیٹی کی تحقیقی رپورٹ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی مسجد کے بارے میں ایسی رپورٹ آئی ہے کہ اس کا تعلق دہشت گردوں سے ہے یا اس میں دہشت گردوں کا پیسہ لگا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس مسجد کو ۴۸ گاو¿وں کے لوگوں نے مل کر بنایا ہے ۔ سولہ ہزار نمازیوں کے لئے کافی یہ مسجد سنہ ۹۰۰۲ سے بن رہی ہے اور ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ مسجد ہندومسلمان ایکتا کا مظاہرہ بنتی کیونکہ یہ مسجد بہت سے گاو¿وں کی مشترکہ (شاملاتی) زمین پر بنائی گئی ہے ۔ کل زمین دس ایکڑ تھی جس میں سے گاو¿وں کے ہندو و¿ں اورمسلمانوں نے خوشی خوشی ۸ ایکٹر زمین مسجد کے لئے دی اور دو ایکٹر زمین کو ایک سرکاری اسپتال اور بوڑھوں کے گھر (اولڈ ایج ہوم) کے لئے دی ۔
زمین مین روڈ پر ہے اور اس کے کچھ حصے پر کچھ لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے سامنے والے حصے میں دوسو دکانیں بن سکتی تھیں جن میںہر کی ایک کی قیمت ۵۲ لاکھ ہوگی۔ گاو¿وں والوں اور این آئی اے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی نے ”منسٹری“ کو شکایت بھیجی اور منسٹری نے وہ شکایت این آئی اے کو بھیج دی ۔ این آئی اے نے ابتک اپنے سرکاری بیانوں ےا اپنی ویب سائٹ پر اس بات کا الزام نہیں لگایا ہے کہ مذکورہ مسجد میں دہشت گردوں کا پیسہ لگا ہے جبکہ کچھاخبارات نے این آئی اے کے سورس کو کوٹ کرتے ہوئے یہ بات لکھی ہے۔ کمیٹی کی تحقیتقات میں اسے اس بات کا کوئی اشارہ نیہں ملا کہ مسجد کی تعمیر میں کسی طرح سے دہشت گردوں یا باہر کا پیسہ لگا ہے۔ مقامی پولیس اور پنچایت کے لوگوں نے بتایا کہ مقامی طور سے اس طرح کی کوئی شکایت نہیں ہے۔ اویس سلطان خاں نے مزید بتایا کہ لشکر طیبہ/فلاح انسانیت ایک سلفی تنظیم ہے جبکہ یہ مسجد تبلیغی جماعت والوں کی ہے اور ان دونوں کی سوچ بالکل مختلف ہے اور ان کے درمیان کوئی تال میل ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
اویس سلطان خاں نے مزیدبتایا کہ این آئی اے نے گاو¿ں یا مسجد کے ذمے داران میں سے کسی سے بات نہیں کی لیکن انھوں نے سارا ریکارڈ اپنے قبضے میںلے لیا اور نہ اس کی ضبطی (سیزر) کی رپورٹ بنائی اور نہ ہی اس کی رسید دی۔ دہلی سے گرفتار شدہ شخص محمد سلمان کے گھر میں بھی این آئی اے نے یہی کام کیا۔ انھوں نے محمد سلمان کو دو دن (۵۲۔۶۲ ستمبر)گرفتار رکھنے کے بعد ۷۲ ستمبر کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جبکہ قانونی طور سے انھیں ایسے کسی گرفتار شدہ شخص کو ۴۲ گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ اویس سلطان نے بتایا کہ این آئی اے کی پریس ریلیز اور ایف آئی آر میں تال میل نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سارا معاملہ ایک سماج کوٹارگٹ کرنے اور گاو¿وں کے کچھ افراد کی سازش کا ہے۔
اویس سلطان خاں نے مزید کہا کہ درحقیقت لوگوں میں ایک احساس کمتری Inferiority complex پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ آپ خود سے مسجد، مندر نہیں بنا سکتے ہیں بلکہ ضرور کہیں اور سے پیسے آئے ہیں۔ جب مسجد کا آغاز ہواتو علاقے کے سب لوگوںنے ایک ایک ہزار روپئے دئے۔ علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس کوئی شکایت نہیں ہے اور انٹیلی جینس نے بھی ہم کو ایسی کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔گاو¿ں کے مسلم سرپنچ کہا کہ ان کی ماں ۰۸ سال کی ہے اور چاہتی ہے کہ مرنے سے پہلے پاکستان میں اپنے رشتہ داروںسے مل آئے یاان سے فون پر بات ہی کر لے لیکن ہم لوگ ان سے فون پربھی بات نہیں کرتے۔
معروف ماہر قانون وحقوق انسانی کے کارکن ابوبکر سباق نے کہا کہ ایسے بہت سے کیسس سامنے آتے رہے ہیں جن میں آپسی لڑائی کی وجہ سے یا پیسہ اینٹھنے کی غرض سے پولیس لوگوں کو پھنساتی ہے ۔ موجودہ کیس میں این آئی اے نے نہ دعوی کیا ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے۔ مذکورہ مسجد علاقے میںتبلیغی جماعت کا مرکز ہے۔گاو¿ں کے موجودہ سرپنچ اور سابق سرپنچ نے کہا کہ یہ پراپرٹی کی لڑائی ہے اور کسی نے شکایت کی ہوگی ، اسی لئے بات یہاں تک پہنچی ہے۔قاعدے کے لحاظ سے کوئی ریکارڈ ضبط کرتے ہوے اس کاسیزر میمو بناکر فوٹو رکھا جاتا ہے جبکہ اصل دستاویزات ملزم کے پاس رہتی ہیں۔ مذکورہ مسجد کے چندے کے لئے پوری کمیٹی جاتی تھی۔گاو¿ ں کے لوگوں کے مطابق ملزم محمد سلمان کے والد تبلیغی جماعت کے امیرمولانا الیاس رحمة اللہ سے ۰۲۹۱ سے جڑے تھے۔ محمد سلمان نے گاو¿ں میںواقع اپنی زمین بیچ کر مسجد کو پیسے دئے تھے ۔ جو کچھ ریکارڈ اس وقت این آئی اے کے پاس ہے وہ پروسیجر کی خلاف ورزی کی وجہ سے مشکوک ہے۔ محمد سلمان کا بھائی ان پڑھ ہے پھر بھی اس سے درخواست لکھوائی گئی ہے۔
دلی اقلیتی کمیشن کے سابق ممبر اے سی مائکل نے کہا کہ مسجد کی تعمیر ۹۰۰۲ میں شروع ہوئی اور اب ۸۱۰۲ ہے۔ اتنے سالوں میں سرکار کو کیوں کچھ نہیں معلوم ہو سکا؟ این آئی اے کی ویب سائٹ پر اس کیس کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ ان کے پاس اپنے دعوے کے لئے کوئی قابل قبول ( (validسبب نہیں ہے۔ محمد سلمان کو جھوٹ بول کر اس کے بینک بلایا گیا اور وہاں اس کو گرفتار کیا۔ محمد سلمان پر الزام ہے کہ وہ ۰۷ لاکھ روپئے پاکستان سے لایا ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ موجودہ سرپنچ اور سابق سر پنچ نے ہمیں بتایا کہ علاقے کے سارے سرپنچوں نے مل کر اس زمین کو مسجد کے لئے دی ہے۔خود محمد سلمان نے اپنی زمین بیچ کر ۲۲۔۴۲ لاکھ روپئے اس کام کے لئے دئے ہیں۔ڈی ایس پی وغیرہ نے ہمیں بتایا کہ مسجد ،مندر، گردوارہ کے لئے توسب لوگ دیتے ہیں اور اس کا کوئی حساب نہیں رکھا جاتا ہے۔ پولیس نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی شکایت نہیں آئی ہے۔
اے سی مائکل نے مزید کہا کہ آرایس ایس کو سب سے زیادہ باہر سے پیسہ ملتا ہے جب کہ وہ رجسٹرڈ باڈی بھی نہیں ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ ایسے کسی فنڈ کے بارے تحقیقات کرے۔ این آئی اے کی دونوں پریس ریلیزوں میں مسجد کے لئے باہر سے پیسہ آنے کا ذکر نہیں ہے ، پھر جرنلسٹوں کو کیسے خبر مل گئی؟ کیا ان کا ڈائرکٹ لنک حافظ سعید سے ہے؟ باہر سے پیسہ آنا جرم نہیں ہے۔
شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے ممبر سردار گور مندر سنگھ متھارو نے کہا کہ ہمیں ایسا کچھ نہیں لگا کہ باہر سے فنڈ آتے ہیں۔مسجد کے رجسٹر میں ۰۷ لاکھ روپئے کی کوئی انٹری نہیں ہے۔ زمین شاملاتی ہے اور ہندو مسلمان سب نے مل کرمسجد کو زمین دی ہے۔ اصلیت کچھ اور ہے اور اس کی صحیح تحقیقات کرانی چاہئے۔ ہم میڈیا کے خلاف نہیں ہے لیکن ان کو ایک طرفہ فرقہ وارانہ باتیں نہیں چھاپنی چاہئے۔

SHARE