آسام شہریت معاملہ پر سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ۔دونوں جمعیت نے خیر مقدم کیا

آسام شہریت معاملہ پر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کو جمعیت علماءہند کی دونوں قیادت نے بہتر پیش رفت بتایاہے ۔
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
آسام شہریت معاملہ پر سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کو جمعیت علماءہند کی دونوں قیادت نے بہتر پیش رفت بتایاہے ۔
جمعیةعلماءہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے عدالت کے فیصلے کو خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ آسام شہریت تنازعہ کے حل کے تعلق سے یہ فیصلہ ایک بڑی پیش رفت ہے ، اور ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے ونون میں جو لوگ این آرسی میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں انشاءاللہ وہ لوگ بھی اپنے ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے انشاءاللہ ، انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ سے مثاثرین کو بہت مددملے گی اور جس طرح نکالے گئے دستاویزات کو بحال کیا گیا ہے اس سے لوگوں کو اب ثبوت پیش کرنے میں آسانی ہوگی ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کی اس فیصلے سے ایک بارپھر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس مسئلہ کو لیکر عدالت بہت حساس اورسنجیدہ ہے ، اسٹیٹ کوآدینیٹر کی مخالفت کے باوجود نکالے گئے دستاویزات کی بحالی اس کا ثبوت ہے ، مولانامدنی نے ایک بارپھر آسام کے تمام متاثرین سے یہ اپیل کی کہ وہ کوتاہی نہ برتیں اور این آرسی کے مراکز پر جاکر معینہ مدت کے اندراپنی درخواستیں جمع کروادیں ، جمعیةعلماءہند اور جمعیةعلماءآسام کے وکلاءکی ٹیم اور رضاکاران مراکز پر موجودرہیںگے جہاں وہ متاثرین کی مذہب سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بنیادپر ہر طرح کی قانونی امدادفراہم کریںگے ، انہوں نے آخر میں کہا کہ آئندہ بھی جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوگی جمعیةعلماءہند متاثرین کی مددکے لئے ہمیشہ کی طرح موجودرہے گی ۔
جمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیة علماءصوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے آج کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پنچایت سر ٹیفیکٹ کی حیثیت کی بحالی کے بعد ان پاننچ ڈوکومنٹس کی بحالی سے انصاف کی ایک اور جیت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلہ سے چالیس لاکھ لوگوں کو بہت بڑی راحت ملی ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر افسران ایمانداری کے ساتھ کام کریں گے تو باقی ماندہ لوگ جن کے پاس ڈوکومنٹس ہےں وہ اپنی شہریت آسانی کے ساتھ ثابت کر پائیں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ این آر سی کا کام کرنے والے ذمہ داران انصاف کے ساتھ کام کریںگے اور کوئی بھی فیصلہ ڈوکومنٹس کی بنیاد پر کریں گے، مذہب یا زبان کی بنیاد پر نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جن دو کروڑ نوے لاکھ لوگوں کا نام این آر سی میں شامل ہو چکا ہے ان سب کو پندرہ ڈوکومنٹس استعمال کرنے کی اجازت تھی اور خود این آر سی کے کو آرڈینیٹر نے عدالت میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ 93% سے زیادہ لوگوں اپنے شہریت کے ثبوت میں ان پانچ ڈوکومنٹس کا استعمال کیا ہے تو پھر باقی ماندہ چالیس لاکھ لوگوں کو ان پانچ ڈوکومنٹس کے استعمال سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔این آر سی کے کو آر ڈینیٹر نے عدالت کو بتایا کہ ان پانچ ڈوکومنٹس کو بہت سے لوگوں نے غلط طریقے سے حاصل کیا ہے بلکہ خریدا ہے جس سے غلط لوگوں کا نام این آر سی میں شامل ہو جائےگا اس لئے ان پانچ ڈوکومنٹس کو مسترد کیا جائے۔ فاضل ججوں نے واضح انداز میں کہا کہ اگر کسی طرح کی گڑبڑی کا انکشاف ہو تو آپ اس کی جانچ کیجئے، اس میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کیجئے مگر ان ڈوکومنٹس کی حیثیت کو ختم نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سے ان لوگوں کو بھی دشواری کا سامنا ہوگا جن کے پاس یہ اوریجنل ڈوکومنٹس موجود ہیں کیونکہ کچھ لوگوں کی غلطی کی وجہ سے دوسرے صحیح لوگوں کو سزا نہیں دی جا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ عدالت نے آج شہریت کے ثبوت کا فارم بھر نے کی تاریخ بھی 25 نومبر سے بڑھاکر 15 دسمبر 2018 تک کردی ہے،اس کے بعد ویریفیکیشن کا کام ہوگا اور فروری 2019 میں اس پر سنوائی کے لئے این آر سی سینٹر میں لوگوں کو بلایا جائےگا۔ آج کے فیصلہ کے بعد جمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیة علماءصوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل نے کہا کہ ہمیں عدالت پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہاں سے انصاف ملے گا اور ہندوستان کے شہریوں کو ان کے ہی ملک میں شہریت سے محروم ہونے سے بچا لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آج آسام شہریت اور این آرسی سے جڑے معاملوں پر سماعت کرتے ہوئے مثاثرین کو بڑی راحت دیتے ہوئے ثبوت کے دائرہ سے باہر نکالے گئے پانچوں دستاویزبحال کردیئے ، ساتھ ہی جمعیةعلماءہند کی وکلاءکی طرف سے عدالت میں پانچ اہم مطالبے پیش کئے گئے ، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایف آر نریمن کی دورکنی مانیٹرنگ بینچ میں سماعت ہوئی ۔ کارروائی شروع ہوتے ہی سب سے پہلے عدالت نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلاسے دریافت کیا کہ ان پانچ دستاویزات کے علاوہ کیا وہ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں ، اس پرمسٹر ہزیلا نے کہا کہ ہم نے ان دستاویز ات سے متعلق جو رپورٹ پیش کی ہے اس پر اپنی بات رکھنا چاہیںگے، اس پر عدالت نے فریقین کو مخاطب کرتے ہوئے وہی سوال دہرایا کہ کیا وہ ان دستاویزات کے علاوہ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ،۔ آبجکشن فائل کرنے کا طریقہ شہریت کے قانون 1955کی دفعہ 17کی روسے صحیح نہیں ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ 31اگست 2015کے بعد کے متعلقہ دستاویزات کو بھی پیش کرنے کی اجازت مل نی چاہئے اور جس طرح سے 14سال کے بچوں کو والدین کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے اسی طرح اس کے دائرہ میں 18برس تک کے بچوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے اس پر فاضل عدالت نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر کو اس بابت غورکرنے کو کہا ، آبجکشن کے تعلق سے مسٹرکپل سبل کی طرف سے پیش کی گئی دلیل پر عدالت نے کہا کہ اسٹیٹ کوآڈینیٹر کی رپورٹ کے مطابق اب تک تقریبا 26ہزار کلیم داخل ہوچکے ہیں مگر آبجکشن کی تعداد محض 54ہیں ، بعد ازاں دائرہ کارسے باہر نکالے گئے دستاویزات کو لیکر عدالت نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا سے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ ان دستاویز کی آڑ میں غیر حقیقی شہری بھی این آرسی میں اپنا نام شامل کراسکتے ہیں ، اس طرح ان کا غلط استعمال ہوسکتا ہے لیکن آپ کی یہ بات سراسر ناقابل قبول ہے ، قابل غور بات تو یہ ہے کہ ان دستاویزات سے متعلق مسٹر پرتیک ہزیلاکی رپورٹ پر فاضل ججوں نے ناراضگی کا اظہاربھی کیا اور کہا کہ قانون کی یہ منشاءہزگز نہیں ہے کہ کسی کوپریشان کیا جائے ، عدالت نے ان سے یہ بھی کہا کہ آپ کی یہ دلیل کہ ان دستاویز ات کے سہارے غیر حقیقی باشندے بھی این آرسی میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دستاویزات کی عدم شمولیت سے کہیں ریاست کے حقیقی شہری این آرسی سے باہر نہ رہ جائیں ، چنانچہ عدالت نے ان دستاویزات کو بحال رکھنے کا فیصلہ دیا ، اس طرح اب شہریت کے لئے پہلے ہی کی طرح 15دستاویز پیش کرنے کی شہریوں کو اجازت ہوگی ، اس ضمن میں عدالت نے یہ بھی کہا کہ قانونی طورپر ہر درخواست کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے تاکہ کوئی غیر حقیقی شہری این آرسی میں شامل نہ ہوسکے ، اس کے ساتھ ہی عدالت نے کلیم اور آبجکشن کی تاریخ ایک ماہ آگے بڑھاکر 25دسمبر کردی ہے ، عدالت نے آج ایک بڑی ریایت یہ دی کہ اگر کوئی کسی دوسری ریاست کا رہنے والا ہے اور آسام میں جاکر آبادہوگیا ہے تو وہ شہریت کے ثبوت میں اپنی آبائی ریاست کا کوئی ثبوت پیش کرسکتا ہے اور یہ قابل قبول ہوگا ، دوسرے نئے طریقہ کارمیں کہا گیا تھا کہ چونکہ این آرسی میں درخواست دینے کی تاریخ 31اگست ہے اس لئے شہریت کے ہر قسم کے دستاویز 31اگست 2015کے ہی منظورہوںگے ، گزشتہ 28گست کی سماعت میں جمعیةعلماءہند اور دیگر فریقین کے وکلاءنے اس پر اپنا اعتراض درج کراتے ہوئے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ کٹ آف تاریخ بڑھاکر اس تاریخ سے کردی جائے جس تاریخ سے کلیم اور آبجکشن کا عمل شروع ہوا ، عدالت نے پرتیک ہزیلاکو اس پر غورکرنے کو کہا ہے، دائرہ کار سے نکالے گئے دستاویزات کے حوالہ سے گزشتہ سماعت کے دوران جمعیةعلماءہند کے وکلاءنے دلیل پیش کی تھی کہ یہ دستاویز سب رول A4حصہ ہے ، انہوں نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ 1951کی این آرسی اور 1971تک کی ووٹرلسٹ خصوصی طورپر A4کی بنیادپر ہی تیارکی گئی ہے اس لئے ان کا نکالا جانا قانونی اور اصولی طورپر غلط ہوگا ،امید افزابات یہ ہے کہ عدالت نے آج ان دلائل کو منظورکرتے ہوئے ان دستاویزات کی بحالی کے حق میں فیصلہ صادر کیا ۔جن دستاویزات کو آج عدالت نے بحال کیا ان کی تفصیل یہ ہے (1)۔این آرسی کا1951ءاقتباس (2)۔24/مارچ1971ءسے پہلے کی الیکٹرورل رول کی تصدیق شدہ کاپی/اقتباس (3)۔1971 سے پہلے ریاست کے باہر کے کسی رجسٹرڈ اتھارٹی سے جاری کیا گیا شہریت کا سرٹیفیکٹ(4)۔1971ءسے پہلے کا ری فیوجی رجسٹریشن سرٹیفیکٹ(5)۔1971ء سے پہلے ایشو کیا گیا راشن کارڈ حکومتی مہر اور دستخط ۔متاثرین اب 15دسمبر سے 15جنوری تک اپنے کلیم اور آبجکشن داخل کرسکتے ہیں ، بعدازاں اسٹیٹ کوآڈینیٹر کو عدالت نے ہدایت کی کہ وہ 15جنوری سے یکم فروری تک ان درخواستوں کی چانچ پڑتال کا کام مکمل کریں اور نوٹس جاری کرکے سماعت کا مرحلہ مکمل کرکے اپنی رپورٹ فاضل عدالت کو پیش کریں، اس کے لئے عدالت نے کوئی تاریخ طے نہیں کی البتہ عدالت نے کہا کہ اس پورے عمل کے مکمل ہونے کے بعد وہ کوئی فیصلہ دیگی ۔

SHARE