کورونا پازیٹو صحافی نے ایمس کی چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر کی خودکشی

خودکشی کرنے والے صحافی کے تعلق سے بتایا جاتا ہے کہ وہ کورونا پازیٹو ہونے کے ساتھ ساتھ کینسر کے بھی مریض تھے۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ کافی دنوں سے ڈپریشن میں تھے۔
کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں کورونا مریضوں کی خودکشی کی خبریں بھی لگاتار سامنے آ رہی ہیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق ایک کورونا پازیٹو صحافی نے دہلی واقع ایمس ٹراما سنٹر کی چوتھی منزل سے مبینہ طور پر چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ پہلے بتایا جا رہا تھا کہ ان کی حالت نازک ہے اور ایمس کے آئی سی یو میں ان کا علاج چل رہا ہے، لیکن خبر رساں ادارہ ’یو این آئی‘ کی اطلاع کے مطابق آئی سی یو میں انھیں داخل کیے جانے کے بعد ڈاکٹروں نے مردہ قرار دے دیا۔
ہندی نیوز پورٹل ‘اوپ انڈیا ڈاٹ کام’ پر حادثہ کے تعلق سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صحافی کا تعلق دینک بھاسکر سے ہے اور وہ کورونا پازیٹو ہونے کے ساتھ ساتھ کینسر کے مرض سے بھی جنگ لڑ رہے تھے۔ صحافی کا نام ترون سسودیا بتایا جاتا ہے اور شائع رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کچھ دنوں پہلے دینک بھاسکر انتظامیہ نے ان سے استعفیٰ لے لیا تھا، لیکن بعد میں وہ پھر ادارے سے منسلک ہو گئے تھے۔
ترون سسودیا کے ساتھی صحافیوں کے حوالے سے ‘آپ انڈیا ڈاٹ کام’ نے بتایا ہے کہ وہ (ترون) گزشتہ کچھ دنوں سے ذہنی طور پر کافی تناؤ میں تھے۔ ان کی فیملی دہلی کے بھجن پورہ میں رہتی ہے اور دو مہینے پہلے ان کا استعفیٰ دینک بھاسکر نے لے لیا تھا، لیکن بعد میں ان کی ملازمت بچ گئی تھی۔ ترون کے ساتھیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنی ذہنی پریشانی کے بارے میں اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے اور انھیں بچانے کی گزارش بھی کرتے تھے۔
واضح رہے کہ 35 سالہ ترون سسودیا کی شادی تقریباً 3 سال پہلے ہوئی تھی اور ان کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ کافی دنوں سے وہ گھر پر ہی رہ رہے تھے، لیکن کورونا پازیٹو ہونے کے بعد انھیں علاج کے لیے ایمس میں داخل کرایا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ ترون سسودیا گزشتہ کچھ دنوں میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کو لے کر ہی رپورٹنگ کر رہے تھے اور پھر وہ خود ہی اس انفیکشن کی زد میں آ گئے۔ اپنی ایک رپورٹ میں انھوں نے دہلی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس میں کہا تھا کہ دہلی حکومت کہہ رہی ہے کہ اب تک 982 موت کورونا سے ہوئی ہے جب کہ 1500 سے زیادہ لاشیں شمشان اور قبرستانوں میں پہنچ چکی ہیں۔