مرتضی ساحل تسلیمی کا انتقال، ادب اطفال کا ایک روشن چراغ بجھ گیا

نئی دہلی: (سراج عظیم) ادب اطفال کی مایۂ ناز شخصیت مرتضی ساحل تسلیمی کا 21 اگست کی شب گیارہ بجے دہلی کے میٹرو اسپتال لاجپت نگر نئ دہلی میں انتقال ہوگیا مرتضی ساحل صاحب 17 اگست کو رامپور کے سائ اسپتال سے دہلی کے میٹرو اسپتال بہت تشویشناک حالت میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ان کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ پازیٹو آیا جس کے بعد ان کو انتہائ نگہداشت والے قرنطینہ وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔اس سے پہلے مرتضی ساحل پچھلے ایک سال سے سروائیکل کی تکلیف میں مبتلا تھے اور زیر علاج تھے لیکن بقرعید کے دوسرے دن سے ان کی حالت بگڑنے لگی تھی جسکی وجہ سے انھیں سائ اسپتال میں داخل کرنا پڑا وہاں بھی ان کو افاقہ نہیں ہوا جسکی وجہ سے انھیں دہلی کے میٹرواسپتال منتقل کیا گیا مگر کووڈ19 کے انفیکشن کی وجہ سے وہ جاں بر نہ ہوسکے آخر رات گیارہ بجے زندگی کی اخری سانس لی اور اپنے مالک سے ملنے راہ عدم ہوئے
کووڈ 19 کی وجہ سے اسپتال کے پروٹوکول کے تحت انکو رامپور لے جایا گیا جہاں فجر میں محلے کے املی والے قبرستان میں نماز جنازہ صرف قریبی رشتوں داروں نے ادا کی اور سواچھ بجے ان کو سپرد خاک کیا گیا مرتضی ساحل تسلیم کے انتقال سے اردو دنیا بالخصوص ادب اطفال سے وابستہ ادباء و شعرا مغموم ہیں
مرتضی ساحل کو مکتبہ الحسنات رامپور کے بانی عبدالحئ ملک صاحب نے عنفوان شباب سن 1978 میں رسالہ نور کا مدیر مقرر کیا اور ان کو بچوں کے لئے لکھنے کی ترغیب دی کچھ دنوں کے بعد مکتبہ الحسنات کے سارے رسالوں الحسنات، نور، بتول ، ھلال اور ہندی کا رسالہ ہادی کی ادارت بھی انکو مل گئ
مرتضی ساحل کی ادارت میں رسالہ نور ادب اطفال کا برصغیر ہندوستان پاکستان کا مقبول رسالہ بن گیا نور کا ریڈیو نورستان اور خطوط کا کالم ایک منفرد پہچان کی وجہ سے خاص وعام میں بہت دلچسپی سے مطالع کیا جاتا تھا
مرتضی ساحل تسلیمی کا تخلیقی سفر بہت کامیاب اور روشن رہا انھوں نے بچوں کے لئے کہانیاں نظمیں ڈرامے مضامین مزاحیہ نظمیں خواتین کے لئے اصلاحی افسانے نظمیں اسلامی مضامین اور بہترین ادارئے تحریر کئے مرتضی ساحل کی بچوں کے لئے پچاس سے اوپر کتابیں ہیں تقریباً پچیس کتابیں افسانے شاعری ناول اور اسلامی و اصلاحی مضامین پر مشتمل ہیں
مرتضی ساحل تسلیمی کی ادب اطفال پر سینکڑوں تخلیقات ہندوستان پاکستان و دیگر ممالک کے اخبار ورسائل میں بکھری پڑی ہیں ساحل صاحب ادب اطفال کے افق پر ایک روشن ستارہ تھے
ان کے انتقال کی خبر ان کے بیٹے فراز ساحل نے گھریلو تعلقات کے سبب سب سے پہلے سراج عظیم کو فورا گیارہ بجے رات میں دی سراج عظیم نے ساحل صاحب کی خبر اردو حلقوں میں پہنچائ سراج عظیم نے اپنے تعزیتی پیغام میں اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا مرتضی ساحل تسلیمی صاحب کا انتقال میرے لئےایک عظیم حادثہ ہے میں نے اپنا ایک ہمدرد انتہائی محبت کرنے والا ادیب وسرپرست اور ادب اطفال کی ایک قد آور شخصیت کو کھو دیا ہےاردو ادب کی تاریخ میں اور بالخصوص ادب اطفال کی تاریخ میں مرتضی ساحل تسلیمی کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا اور عزت سے یاد کیا جائے گا اللہ مرحوم ساحل صاحب کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرکے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔