مشرف عالم ذوقیؔ معین الدین خان لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے سرفراز

مشرف عالم ذوقی ہندوستان کے فکشن نگاروں میں اپنی منفرد تخلیقات کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک ان کے چودہ ناول اور افسانوں کےآٹھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔

نئی دہلی: (یو این آئی) سال 2020 کے لیے فکشن (ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری)، صحافت، خاکہ نگاری جیسی مختلف اردو نثری اصناف میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے لیے اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت مشرف عالم ذوقی کو ادارہ کسوٹی جدید (مدیران: انور شمیم، محمد افضل خان) کی جانب سے معین الدین خان لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دیئے جانے کا فیصلہ کیا گیا. یہ پروگرام دلّی میں 26 نومبر کو ہونا طے پایا تھا مگر کووڈ کی وجہ سے پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔
اس کے بعد مارچ میں پروگرام رکھا گیا تو کسوٹی جدید کے مدیر انور شمیم ایک حادثے کے شکار ہو گئے، انور شمیم، محمد افضل خان اور ایوارڈ کمیٹی نے طے کیا کہ پروگرام کے بجاے توصیفی سند، شیلڈ، 25000 نقد اور کسوٹی جدید کے مشرف عالم ذوقی پر خصوصی شمارے کی کاپیاں بذریعہ ڈاک انھیں بھیج دی جائیں۔ کسوٹی جدید ایک ادبی رسالہ ہے، جس کا تازہ شمارہ مشرف عالم ذوقی کے فکر و فن کا احاطہ کرتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی ہندوستان کے فکشن نگاروں میں اپنی منفرد تخلیقات کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک ان کے چودہ ناول اور افسانوں کےآٹھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ موجودہ ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول مرگ انبوہ، اور مردہ خانے میں عورت نے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ خاکہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا تو چاروں طرف دھوم مچا دی۔ انھوں نے دیگر اصناف میں بھی متعدد کتابیں لکھی ہیں اور ان کی مطبوعات کی کل تعداد 50 سے بھی زیادہ ہے۔
مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار میں پیدا ہوئے اور مگدھ یونیورسٹی، گیا سے انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ‘نیلام گھر’ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں میں ‘شہر چپ ہے’، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘آتشِ رفتہ کا سراغ’ پروفیسر ایس کی عجیب داستان ، ‘نالۂ شب گیر’ اور ‘مرگ انبوہ’ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
ذوقی کا فکشن متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ برصغیر کے اقلیتی طبقوں کے مسائل اور سماجی و انسانی سروکاروں کی انھوں نے اپنی تحریروں میں بھرپور ترجمانی کی ہے۔ وہ موجودہ عہد کی گھٹن، صارفیت کے خلاف احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کا فکشن اردو تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندی اور دوسری زبانوں کے رسائل و جرائد میں بھی ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ وہ اس عہد کے ان فن کاروں میں ہیں جن کا تخلیقی سفر ہنوز جاری ہے۔