16 سال بعد پانچ مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام سے باعزت بری

خاطی افسران کو جب تک سزا نہیں مل جاتی یہ انصاف ادھورا ہے: مولانا سید ارشد مدنی
نئی دہلی ،26؍ مارچ۔ملت ٹائمز
ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی ) سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار ۵؍ مسلم نوجوانوں کو جبل پور کی خصوصی عدالت نے ۱۶؍ سالوں بعد نا کافی ثبوتوں کی بنیاد پر مقدمہ سے باعزت بری کئے جانے کے احکامات جاری کئے ، ان ملزمین پر پولیس نے نہایت ہی سنگین الزامات عائد کر تے ہوئے ان کے قبضے سے قابل اعتراض مواد و بشمول اسلامی لیٹریچر ضبط کر نے کا بھی دعوی کیا تھا ساتھ ہی ان کی سر گرمیوں پر بھی شکوک کا اظہار کیا تھا لیکن عدالت نے ثبوت و شواہد کی عدم موجودگی کے باعث بالآخر ان مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات سے باعزت بری کر دیا۔ان ملزمین کو جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی نے قانونی مدد فراہم کی تھی ۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ان مسلم نوجوانوں کی رہائی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر مظلوموں کو انصاف مل ہی گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے بھی عدلیہ کے تئیں میرے یقین واعتماد میں اضافہ ہواہے اور اس بات کو تقویت ملی ہے کہ حکومتیں بے گناہوں کے ساتھ بھلے ہی انصاف نہ کریں عدالتوں سے انہیں انصاف مل کر رہتاہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا مدنی نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ اس انصاف کی جدوجہد میں پورے 16برس لگ گئے جبکہ اس مدت میں ایک نسل جوان ہوجاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی مدت کسی بھی شخص کی زندگی تباہ کردینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اسی لیے میں اسے ایک ادھورا انصاف کہتاہوں ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اس کے لیے خاطی افسران کو سزا نہیں ملے گی یہ انصاف ادھورا رہے گا ۔ متاثرین کے لیے مناسب معاوضہ کا التزام بھی ہونا چاہئے کیونکہ اس پورے عرصہ میں یہ نوجوان جو کچھ کھوچکے ہیں اس کی تلافی کسی طور نہیں ہوسکتی۔
17؍ سال کے ایک طویل عرصہ کے بعد عدالت کے اس فیصلے پر ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے مسرت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ سیمی کے دیگر مقدمات پر بھی اثر انداز ہوگا کیونکہ زیادہ تر کیسوں میں ملزمین کو ممنوعہ تنظیم سیمی سے ہی پولیس نے وابستہ کرتے ہوئے ان پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا ۔ جمعیۃ علماء کے دفاعی وکلاء شری کنال دوبے، محمد پرویز اور محرم علی نے عدالت میں اپنی حتمی بحث کے دوران یہ دلیل دی کہ اسٹوڈٹنس اسلامک موومنٹ سے وابستگی کوئی جرم نہیں ہے نیز استغاثہ عدالت میں یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ ملزمین کسی بھی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے ۔ اس سلسلے میں عدالت کو دفاعی وکلاء نے مزید بتایا کہ ان نوجوانوں پر جو یو، اے، پی، اے قانون کی مختلف دفعات عائد کی گئی ہے وہ غیر قانونی طریقے سے لگائی گئی ہے جس کے لئے وزارت داخلہ سے کوئی بھی اجازت نامہ حاصل نہیں کیا گیا تھا ایسے میں یہ کیس ہی پوری طرح سے غیر قانونی ہے۔
دفاعی وکیل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے فاضل جج شیو مہرے سنگھ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ 5؍مسلم نوجوانوں کے خلاف عدالت کو کوئی بھی ثبوت نہیں ملے ہیں اور نہ ہی پولیس یہ ثابت کر پائی ہے کہ یہ کسی بھی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے ایسے میں ان پر لگائے گئے الزامات ثابت کر نے میں پولیس پوری طرح ناکام ہے جس کے سبب ملزمین کو باعزت بری کیا جاتا ہے ۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کے جبلپور شہرکی بینی سنگھ کی تلیا پولس اسٹیشن نے ۱؍ اکتوبر 2001ء کو ملزمین انیس احمد عبدالمجید، محمد علی محرم علی، محمد یونس خواجہ بخش،سلطان احمد وہاب الدین اور غیاث الدین عبدالغفار کو ممنوع تنظیم سیمی کے رکن ہونے اور نوجوانوں میں طالبان، بن لادن کی حمایت اور ہندوستان کے خلاف جہاد کرنے کے لئے ان کی ذہن سازی کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون(UAPA ) اور تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ سیمی کے نام پر مدھیہ پردیش پولس نے ان جیسے درجنوں نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کرکے رکھا ہے اور ان کے مقدمات نہایت سست رفتاری سے جاری ہیں اور انہیں امید ہے کہ اس مقدمہ کی طرح دیگر مقدمات کا فیصلہ بھی انشاء اللہ ملزمین کے حق میں ہی آئے گا ۔

SHARE