آل انڈیا ملی کونسل کے وفد کا ٹھوکری چک، بیگوسرائے میں شاندار استقبال مسلمانوں میں صد فیصد تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ان کی آبادیوں میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا جائے: مولانا انیس الرحمن قاسمی

بیگوسرائے: (پریس ریلیز) آل انڈیا ملی کونسل نے ملکی سطح پر سماج کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی غرض سے ہدف ”مشن تعلیم 2050ء“ مقرر کیا ہے، تاکہ جہل کی اندھیروں میں بھٹک رہی قوم کو علم کی روشنی عطا کی جائے،اس سلسلہ میں ملکی سطح پر متعدد چھوٹے بڑے سمیناروں اورپروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے،یہ تحریک 2021 سے 2050 تک جاری رہے گی۔اسی تناظر میں آل انڈیا ملی کونسل کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل،اتحاد امت،فروغ تعلیم اورآل انڈیا ملی کونسل کی دعوتِ اصلاح معاشرہ وتبلیغ دین،نیز مالی استحکام کے لیے ایک موقر وفدضلع بیگوسرائے کے دورہ پر ہے۔آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مفکرملت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی چیرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن نے ٹھوکری چک ضلع بیگوسرائے کے اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہتعلیم کی اہمیت تسلیم شدہ ہے؛مگرتعلیم کے سلسلے میں مختلف تعلیمی رپورٹوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ مسلم طلبہ اورعام بالغ مسلمانوں کی خواندگی کی شرح قومی شرح خواندگی سے کم ہے،یہ فرق دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں میں زیادہ ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 6سال سے 14سال کی درمیانی عمروالے تقریباً 20فیصدمسلم بچے یاتوکبھی اسکول جاتے ہی نہیں اور جاتے بھی ہیں تودرمیان میں ہی تعلیم ترک کردیتے ہیں،یہی حال اعلی تعلیم کاہے۔شہری علاقوں کے مردوں میں گریجویشن مکمل کرنے کاامکان ایس سی اورایس ٹی سے بھی کم ہوتاہے۔جہاں تک خواتین کی تعلیم کاتعلق ہے شہری علاقوں میں یہ فرق کافی نمایاں ہے، شیڈولڈکاسٹ اورشیڈولڈٹرائب کے مقابلے مسلم خواتین کی شرح خواندگی کافی کم ہے،اس کی ایک وجہ مسلم علاقوں میں لڑکیوں کے لیے اسکولوں خاص طور پر گرلس ہائی اسکولوں کی عدم موجودگی ہے۔ کالج تواوربھی کم ہیں؛اسی لیے ہمارے طلبہ وطالبات ہائرسکنڈری اورکالج کی سطح پرنسبتاًزیادہ نقصان میں ہیں۔یہی حال دینی تعلیم کا ہے،مدارس میں تقریباً4فیصد طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اورمکتب کا نظام ہر جگہ نہیں رہنے کی وجہ سے طلبہ وطالبات دینی تعلیم سے محروم ہوتے ہیں،ان مدارس میں تربیت یافتہ اساتذہ اورانفراسٹکچر کی بھی کمی ہے،جیسے کلاس روم،لائبریری،رہائشی لوازمات،بیت الخلاوغیرہ۔مولانا قاسمی نے کہاکہ اکثرمدارس اوراقلیتی آبادی کے اسکولوں میں ”معیاری تعلیم وتربیت“کا فقدان ہے،جس کی وجہ سے تعلیم پانے والے طلبہ ملازمت،روزگار اوردیگر مقاصدکے حصول اورترقی کی اونچائی تک پہونچنے سے قاصر رہتے ہیں،مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم طلبہ کا رزلٹ تین سے چار فیصد کے درمیان ہی رہتا ہے،یہی حال اونچی تعلیم کا ہے،اس کی ایک وجہ کم تعداد میں طلبہ وطالبات کا ان امتحانوں میں شریک ہوناہے اوردوسری وجہ ان کے اندر بنیادی صلاحیتوں کا فقدان ہے،لہذا ہمیں تعلیم وتربیت کے تمام ادارے،مکاتب،آگن باڑی،اسکول،مدارس اورکالج کے تعلیم وتربیت کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے،ہر پنچائت میں نمونہ کے مکتب،مدرسہ اوراسکول بنانے پر توجہ کی جائے،اساتذہ کو تربیت دی جائے اورجدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔مولانا قاسمی نے مزید کہاکہ ملک میں نئی تعلیم پالیسی نافذ ہوگئی ہے،ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سے تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلی آئے گی،اس کے بہتر مثبت اثرات بھی پڑیں گے اورتہذیبی طور پرکچھ نقصان ہونے کا بھی اندیشہ ہے؛ہمیں اندیشوں کا صحیح جائزہ لے کر سد باب بھی کرنا ہے اوراس کی مثبت ونتیجہ خیز تبدیلیوں کو قبول بھی کرنا ہے۔عصری علوم اورتقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا اورنقصانات سے بچاکر صحیح سمت میں آگے بڑھنا اورتعلیمی وسماجی اصلاح کی کوشش کرنا مسلسل آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔مولانا قاسمی نے کہاکہ مسلمانوں میں صد فیصد تعلیم ہو،اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی آبادیوں میں تعلیمی اداروں کا جال بچھادیا جائے اورانہیں خصوصی مراعات دے کر تعلیم کی طرف لایا جائے۔تعلیم گاہ،گھر اورسماج کے ماحول کو تعلیمی بنایا جائے اورتمام طلبہ وطالبات کو تین سال کی عمر میں تعلیم سے جوڑا جائے۔آل انڈیا ملی کونسل پٹنہ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹرمولانا سجاد ندوی نے کہاکہ تعلیم بغیر تربیت کے نامکمل ہو؛اس لیے تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے،مولانا ندوی نے کہاکہ آل انڈیا ملی کونسل مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے،اس سے جڑنے کی ضرورت ہے۔آل انڈیا ملی کونسل کے آرگنائزر مرزاذکی احمد بیگ نے کہاکہ آل انڈیا ملی کونسل حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی صاحبؒ کی سرپرستی میں مفکر ملت فقیہ وقت حضرت مولانا مجاہدالاسلام قاسمیؒنے نمائندہ علماء کرام کی موجودگی میں 1992میں قائم کیا۔ملی کونسل کے قیام کا مقصد کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اتحاد امت، تعلیمی، معاشی، سماجی، سیاسی، دینی و دعوتی شعو ر کو بیدارکرنا، سیاسی و اجتماعی حیثیت سے باوزن، باوقار بنانا،مختلف شعبہ ہائے حیات کے افراد کو مربوط ومنظم بنانا،ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کی کوشش کرنا،افراد ملت میں حوصلہ و ہمت، خود اعتمادی کو بحال کرنا،ان کی تعمیر وترقی، تعلیمی ومعاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ بندی، دینی تعلیم کے لیے مکاتب و مدارس، عصری تعلیم کے لیے اسکول و کالج،پروفیشنل تعلیم کے ادارے،طبی مراکز، صنعت و حرفت، دستکاری و تجارت کے شعبوں میں ان کو آگے بڑھانا، سیاسی و اجتماعی شعور بیدار کرکے ملت میں مقامی سطح پر فعال قیادت کو پروان چڑھانا،ملت کو ہر طرح کے خطرات سے آگاہ کرنا، شکست خودردگی اور بزدلی کے بجائے قوم کے جوانوں میں ہمت اور اقدامی اسپرٹ پیدا کرنا، باعزت و باحوصلہ رہ کر ملی تشخص اور دینی تحفظ کے لیے کوششیں کرنا، فسطائیت کا مقابلہ کرنا،ہندوستان کی تمام مذہبی اکائیوں اور فرقوں کے درمیان جذبہ خیر سگالی، آپسی بھائی چارہ نیز ملک میں امن و امان کو پروان چڑھانے کے لیے کوششیں کرناشامل ہے۔رکن آل انڈیاملی کونسل مولانا محمد رفعت عثمانی نے نظامت کے فرائض کوانجام دیااورمولانا نورعالم رحمانی نائب آرگنائزر ملی کونسل نے علماء کرام اورتمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔