ایمان و عمل کا امتزاج  ہی اندھیرے سے اجالے کا سفر   ہے

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے: ’’  کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی‘‘۔ یہ آیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے باغی اور طاغی بندوں کے ساتھ ساتھ ان  حاملین ایمان  سے بھی خطاب کرتی ہے کہ جو  عمل سے بے نیاز ہوکراپنے ایمانی  دعویٰ   زبان سے تک محدود کرلیتے ہیں ۔   اس  فتنے کا آغاز اگر  چند افراد سے ہوتب بھی  یہ کیفیت  پھیل  کر اجتماعی شعار بن  سکتی ہے۔  ان  حالات میں شریعت کی  پامالی  عام  ہوجاتی ہے اور عوام  کے تحت الشعور سے کسی قسم کی  کوتاہی یا غلطی کا احساس تک جاتا رہتا ہے  ۔ ایسے لوگوں کی بابت سورۂ طلاق میں آگے   فرمایا گیا ہے :’’ تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سزا دی‘‘۔ یہ گویا انسانوں  کو بیدار یا  خبردار کرنے کا ایک قدرتی انتظام  ہے۔
اس آیت میں  عذاب اور حساب کا الگ سے ذکر ہے ۔  مفسرین اس کے معنی دنیوی  عذاب اور اخروی حساب  لیتے ہیں ۔    اخروی حساب کی صفت شدید ہے جو  اردو میں بھی مستعمل ہے اور  اس کا ترجمہ  اکثر مترجمین  نے’ سخت‘ کیا ہے لیکن دنیوی عذاب کی  جو صفت بیان ہوئی ہے اس کے مختلف تراجم پڑھنے کو ملتے ہیں مثلاً بری طرح ، بدترین، انوکھی یا جو نہ دیکھی اور نہ سنی ۔ قرآن حکیم میں  مختلف انبیاء کی قوموں کو الگ الگ عذاب کا شکار کرکے  نیست و نابود کرنے ذکر ملتا ہے۔  ان کا انجام تو یکساں ہے لیکن انداز ایک دوسرے سے مختلف تھا۔کائناتِ ہستی  کے اندر قوموں کو ملنے والی  تنبیہات بھی مختلف قسم  کی ہوتی ہیں ۔  اسی طرح دنیا میں بپا ہونے والی وباؤں  کا  انجام کار تو  مماثل ہوتا ہے مگر  ان کے انداز کار میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے ۔ اس کی تازہ مثال کورونا ہے کہ ایسی مصیبت کے بارے میں نہ کسی نے سنا تھا اور نہ سوچا تھا۔  انسانی عقل جس چیز کا احاطہ کرنے سے قاصر تھی اس کا سبھی نے  بسرو چشم مشاہدہ کر لیا ۔ کس کے خواب و خیال میں یہ بات تھی کہ  دنیا اس طرح  ٹھہر جائے گی اور بہت کچھ اتنی جلدی اس طرح بدل جائے گا ۔
عام وباء تو سب کے لیے ہوتی ہے لیکن سبھی کی جانب سے  اس کا ردعمل یکساں نہیں ہوتا ۔ کوئی مایوس ہوکر ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور کوئی خودکشی کرلیتا ہے ۔ کئی  لوگ ساری مصیبت  قدرے  آرام سے برداشت کرلیتے ہیں اور وہ دوسروں   کے بھی کام آتے ہیں ۔  اس فرق کی وجہ ایمان  کی دولت  اور عقل کا استعمال ہے۔ ایمان سے خالی اور عقل سے بے بہرہ لوگوں کے لیے  ان نشانیوں میں عبرت کا کوئی سامان نہیں ہوتا لیکن  جو لوگ ایمان سے محروم  ہونے  کے  باوجود عقل کا استعمال کرتے ہیں وہ  بسا اوقات  انسانی  ہمدردی کی طرف  بھی مائل ہوتے ہیں اور کبھی خدا سے بغاوت کی جانب  بھی جھک جاتے  ہیں  ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں آگے فرمایا گیا ہے:’’انہوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور اُن کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے،اللہ نے اُن کے لئے (آخرت میں بھی) سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘۔ ویسے     ایمان سے بہرہ ور لوگ بھی  اگر عقل کا استعمال نہ کریں  تو مختلف سازشی نظریات کا شکار ہوکر اپنی اور دوسروں کی گمرہی کا سبب بن جاتے ہیں  جبکہ عقل و  شعورکے حامل اہل ایمان   دینی  تقاضوں کو پورا کرنے میں  کمربستہ ہوجاتے ہیں ۔
آگے رب کائنات عقلمند ایمان والوں  سے فرماتا ہے:’’پس اللہ سے ڈرو اے صاحب عقل لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘۔ یہاں پر ایمان کے ساتھ عقل کا استعمال کرنےوالوں کو تقویٰ کی تلقین کی گئی ہے اس لیے کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ انہیں آگاہ کیا گیا  ہے  کہ:’’اللہ نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کر دی ہے ۔ایک ایسا رسو ل جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے ‘‘۔ اس آیت اندھیرے سےنجات حاصل  کرکے   اجالے کی سعادت پانے والوں کو جنت کی خوشخبری دینے سے قبل  ایمان و عمل کی شرط لگائی  گئی ہے اور یہی  فلاح و کامرانی کی شاہِ کلید ہے۔