ایک شخص ایک کائنات

ابو الحسن علی حسنی ندوی (علی میاں) رحمۃ اللہ علیہ دامت برکاتہم کے یومِ وفات پر خاص تحریر 

(24 نومبر 1914 (پیدائش) –31 دسمبر 1999 (وفات)

 خرم ملک

آج جس شخصیت پر میں قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں وہ صرف ایک انسان نہیں ایک پورا زمانہ ہے، ایک عہد ہے، شاید ایک صدی بھی کہہ سکتے ہیں، میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں نے اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، واللہ کیا نور تھا چہرے پر ۔

جب میں عالمیت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں اکثر و بیشتر تعریفیں سنا کرتا تھا، جس سے مجھے انہیں دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا، اور اللّٰہ کا کرنا تھا سو مجھے انہیں لکھنؤ کی مشہور و معروف اسلامی ادبی درسگاہ ندوۃ العلماء میں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ۔

یہ تب کی بات ہے جب میں عالمیت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، چوں کہ جامعہ سید احمد شہید (کٹولی) لکھنؤ سے کچھ پچیس سے تیس کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے تو اکثر ندوہ جانا ہوتا رہتا تھا، اور جب ایک مرتبہ میں ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مسجد میں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھا تھا کہ ٹھیک سامنے ایک بزرگ، پُرنور چہرہ والی شخصیت بیٹھی تھی، تب میں نے شاید کسی بندے سے دریافت کیا کہ یہ حضرت کون ہیں، اس نے کہا کہ نہیں جانتے، یہ علی میاں صاحب ہیں، اور تب مانو میری برسوں کی مراد پوری ہوگئی، میں حیرت و استعجاب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بس حضرت کو تکے جا رہا تھا، اور دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا کوئی انسان اتنا پُرنور بھی ہو سکتا ہے، مجھے یاد نہیں کہ میں کتنی دیر تک اُن کو دیکھتا رہا، دل تھا کہ ماننے کو تیار نہیں، نظریں ہٹنے کو راضی نہیں، دل کسی صورت قابو میں نہیں، آئے ہائے، اب کہاں ایسے لوگ ملتے ہیں، اب کہاں ایسے گونا گوں شخصیت کے مالک کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، وہ دِن ہے اور آج کا دن، اس پر وقار چہرے کو کبھی بھول نہیں پایا، آنکھوں میں جیسے چھپ سی گئیں ہیں وہ ساعتیں ۔

مجھے یہ بھی شرف حاصل ہے کہ میں نے حضرت کی تحریر کردہ کتابیں القرات الراشدہ، قصص النبیین پڑھی ہیں، جسے انہوں نے محض 16سال کی عمر میں لکھ دیا تھا، مجھے یہ بھی شرف حاصل ہے کہ میں اس ادارے کا طالب علم رہا جس کی سرپرستی حضرت مولانا سید سلمان حسنی ندوی صاحب کے ذمّے ہے، جو حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ علیہ کے نواسے ہیں، جسے دنیا جامعہ سید احمد شہید رح کے نام سے جانتی ہے، آج بھی عالم اسلام مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاء کو پر نہیں کر پایا ہے، خانہ کعبہ کی کنجی ملنا آپ کی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے، آپ کی زبان کی سلاست کا یہ عالم تھا کہ جامعہ ازہر کے اپنے وقت کے دقاق عالم دین بھی آپکی عربی زبان پر گرفت کے قائل تھے،

اور آل سعود آپ کو بڑی عزت احترام کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، بیسویں صدی حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ تھا،

5 دسمبر 1913 کو ابو الحسن علی ندوی کی ایک علمی خاندان میں پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔ اس کے بعد عربی، فارسی اور اردو میں تعلیم کا آغاز کیا۔

علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤمیں واقع اسلامی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔ اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی۔

آج بھی آپکی لکھی کتابیں دنیا کے مختلف ممالک کے اسلامک یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

علی میاں ندوی کی تصانیف 

 ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين

 انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر

قصص النبیین

القرات الراشدہ

تاریخ دعوت و عزیمت

سید احمد شہید رح

کاروانِ زندگی

اپنے گھر سے بیت اللہ تک

پاجا سراغِ زندگی

ارمغانِ فرنگ

دستورِ حیات

سیرتہ خاتم النبیین

اعزاز

1962: مکہ میں واقع رابطہ عالم اسلامی کے قیام کے موقع پر افتتاحی نشست کے سیکریٹری۔1980: شاہ فیصل ایوارڈ 1980: آکسفرڈ سینٹر برائے اسلامک اسٹڈیز کے صدر۔1984: رابطہ ادب اسلامی کے صدر۔ 1999: متحدہ عرب اماراتکے محمد بن راشد آل مکتوم کی جانب سے قائم کردہ ایوارڈ اسلامی شخصیت ایوارڈ دیا گیا ۔

کعبہ تک رسائی

1951 میں دوسرے حج کے دوران میں کلید بردار کعبہ نے دو دن کعبہ کا دروازہ کھولا اور علی میاں کو اپنے رفقاء کے ساتھ اندر جانے کی اجازت دی۔

موجود وقت میں مولانا کے بھانجے محترم سید سلمان حسنی ندوی صاحب دامت برکاتہم انکی وراثت کو بڑی ہی دلجمعی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں ۔

مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے،

آپ کا وصال بھی بڑے ہی خوبصورت انداز میں ہوا، جہاں تک مجھے یاد ہے کہ جمعہ کا مبارک دن تھا اور آپ قرآن مجید کی سورۃ یسین کی تلاوت کر رہے تھے، اور اللّٰہ کا کلام پڑھتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اب کوئی دوسرا علی میاں پیدا ہوگا؟

 ویسے کوششیں کامیاب ہوتی ہیں ۔۔۔

تو علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے کو جاری و ساری رکھنے پوری کوشش کریں۔۔۔

باقی اللّٰہ مالک ۔۔۔۔

شاید علامہ اقبال نے ایسی ہی ہستیوں کے لیے کہا ہے کہ ؎

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

رابطہ: 9304260090

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں