بی جے پی کو نہیں مسلمانوں کو اپنا کنڈیشنڈ ذہن بدلنا چاہئے: بی جے پی کی رائے

لوجہاد سے متعلق قانون سازی پرمسلمانوں کے بعض تاثر سے ایسا لگتا ہے جیسے ان کے کسی کاروبار کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے۔

بی جے پی کے کل ہند اقلیتی مورچہ کے صدر جمال صدیقی کی بات چیت سے ایسا لگا جیسے بی جے پی کو نہیں بلکہ مسلمانوں کی غلطی ہے اور ان کو اپنا کنڈیشنڈ ذہن بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں لو جہاد کے تعلق سے بھی مسلمانوں کے تاثر پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ موجودہ حکومت کے خلاف کنڈیشنڈ ذہن سے کام لینے کے بجائے سرکاری ذمہ داروں سے اپنی جائز شکایات کا ازالہ کرائیں تاکہ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا خواب عملاً شرمندۂ تعبیر ہو۔
بی جے پی کے کل ہند اقلیتی مورچہ کے صدر جمال صدیقی نے کل اردو اخبار نویسوں سے اہم تبادلہ خیال کیا جس میں انہوں نے نامہ نگاروں کے کئی پریشان کن سوالوں کے جواب دیتے ہوئے یہ صلاح بھی دی کہ کچھ نمائندہ مسلمانوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے جس کی وہ وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کرائیں گے تاکہ وہ تشدد کے واقعات میں ہونے والی گرفتاریوں اور دوسری شکایات کے تعلق سے انہیں راست اپنے احساسات اور خیالات سے آگاہ کر سکیں۔
مسٹر صدیقی نے کہا کہ وہ چونکہ خود کو بی جے پی میں ہندستانی مسلمانوں کا نمائندہ سمجھتے ہیں اس لئے وہ ایسے رابطوں کو ضروری سمجھتے ہیں جن سے شک اور شبہے کا ماحول ختم کرنے میں مدد ملے۔
ان سے جب ملک میں ایک سے زیادہ ایسے واقعات پر اظہار خیال کرنے کو کہا گیا جن کے نتیجے میں مسلمان اپنی سلامتی کے تعلق سے فکرمند بتائے جاتے ہیں تو بی جے پی کے اقلیتی مورچے کے صدر نے کہا کہ بعض اوقات کسی کے ردعمل سے بھی غلط پیغام عام ہوتا ہے مثلاً لوجہاد سے متعلق قانون سازی پرمسلمانوں کے بعض تاثر سے ایسا لگتا ہے جیسے ان کے کسی کاروبار کے خلاف قانون سازی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں اور بین فرقہ محبت کی شادی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ جب ان کی توجہ بعض زیادتیوں کی طرف مبذول کرائی گئی تو انہوں نے کہا کہ اکا دکا واقعات سے دونوں فرقوں کو شکایت ہو جاتی ہے لیکن صرف خبروں پر منحصر ردعمل سے بات نہیں بنتی۔
انہوں نے مسلمانوں بی جے پی کے تعلق سے کنڈیشنڈ ذہن سے کام نہ لینے مشور دیتے ہوئے کہا جن بلدیاتی حلقوں میں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے وہاں انہیں اپنی نمائندگی حاصل کرنے کیلئے جمہوری راستہ اختیار کرنا چاہئے اور یہ کام سیاسی وابستگی سے ہی ممکن ہے۔