حقانی القاسمی کی ادبی خدمات پر تحقیق و تنقید کی ضرورت ہے: پروفیسر خالد محمود

فورم برائے انٹلکچوئل ڈس کورس اور دی وِنگس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام حقانی القاسمی کے کتابی سلسلہ انداز بیان پر مذاکرہ کا انعقاد

نئی دہلی: (پریس ریلیز)  حقانی القاسمی ہمارے عہد کے بہت ہی قابل قدر ادیب و نقاد ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کا دائرہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس پر تحقیقی و تنقیدی مقالہ بھی لکھا جاسکتا ہے اور سیمینار منعقد ہوسکتا ہے۔ ان کا ادبی قد و قامت اردو کے بیشتر پرفیسروں سے بہت بلند ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر خالد محمود نے فورم برائے انٹلکچوئل ڈس کورس اور دی وِنگس فاو ¿نڈیشن کے زیر اہتمام حقانی القاسمی کی انداز بیان کتابی سیریز ۳ ” میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات“ کے حوالے سے منعقد مذاکرے کے صدارتی کلمات میں کیا۔ مہمان خصوصی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر زرّیں حلیم نے میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات پر مبنی حقانی القاسمی کے اس رسالے کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک معالج کے تخلیقی چہرے کو سامنے لانا ایک قابل تحسین عمل ہے۔ محمد خلیل سائنس داں نے حقانی القاسمی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے انھیں ایک بین العلومی شخصیت قرار دیا۔ حقانی القاسمی نے بتایا کہ یک موضوعی مجلّے کی اشاعت میرا ایک خواب تھا۔ اس حوالے سے میں نے کوشش یہ کی ہے کہ دنیا کے سامنے ایسے پیشوں سے وابستہ افراد کا تخلیقی چہرہ سامنے لایا جائے جن کی روزی روٹی کا تعلق اردو زبان سے نہیں رہا ہے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے پیشے سے وابستہ اصطلاحات، تجربات اور نفسیات سے ادبی دنیا کو آشنا کیاہے۔ مذاکرہ کے کنوینر ڈاکٹر خالد مبشر نے اس بات پر زور دیا کہ اردو زبان و ادب کا مختلف علوم و فنون سے بہت مضبوط رشتہ رہا ہے۔ مذاکرہ میں منظر امام، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر یوسف رامپوری، نایاب حسن، شارب ضیا رحمانی اور عبدالباری نے مفصل تنقیدی و تجزیاتی مقالے پیش کیے۔ مقالہ نگاروں نے کہا کہ حقانی القاسمی کا ذہن حددرجہ اختراعی ہے، ان کی زبان و اسلوب نہایت سحرانگیز ہے اور انھوں نے یک موضوعی رسالہ انداز بیان جاری کرکے خواتین کی خود نوشت، پولیس کا تخلیقی چہرہ اور میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات پر نہایت موقر و معتبر دستاویزات فراہم کیے ہیں۔ مذاکرہ کا اختتام دی ونگس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوار الحق کے اظہارِ تشکر پر ہوا۔
اس موقع پر ڈاکٹر محمد اجمل، شکیل جمالی، عابد انور، ڈاکٹر فیضان شاہد، ڈاکٹر شاداب تبسم اور ڈاکٹر سلمان فیصل کے علاوہ بڑی تعداد میں سامعین موجود تھے۔