خاموش مزاجی کے سائڈ افیکٹ

دوٹوک …… قاسم سید
اگرکوئی دھیرے دھیرے ہماری پیٹھ کو دیوار سے لگانے کے لیے دھکے دیتاجائے اور ردعمل کے طورپر خاموشی اختیار کی جائے تو اس رویہ کو مختلف انداز سے تعبیر کیاجاسکتا ہے مثلاً شرافت کی وجہ سے مزاحمت کرنے سے گریز کیا جارہاہے۔ حکمت عملی کے تحت جواب نہیں دے رہے ہیں یا پھر بزدلی خوف ودہشت نے منھ پر تالے لگادیے ہیں۔ حسن ظن کہتا ہے کہ پہلے رویوں پر یقین کیا جائے قنوطیت کا مزاج اسے بزدلی کہنے پر آمادہ ہے۔ گئورکشکوں کے ذریعہ جہاں جی چاہا پٹائی کرنےپیٹ پیٹ کر مار ڈالنے پر بحیثیت مجموعی دفاعی پوزیشن اپنائی تاکہ ٹکرائو کی صورت نہ بن جائے ارباب فکر ونظر بھی یہی سمجھاتے رہے کہ خاموشی زیادہ بہتر ہے مقابلہ بہت سخت ہے ۔ سواد اعظم نے صدق دلی سے مشورہ کو قبول کیا شاید اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔ مبینہ گئو رکشکوں کو سرکاری سرپرستی نے اچھی طرح سمجھا دیا کہ تصادم سےمزاحمت کا نتیجہ کیاہوسکتا ہے کیونکہ ورغلانے ،سڑکوں پر اترنے کے لیے اکسانے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تلقین کرنے والے عین موقع پر غائب ہوجاتے ہیں غریبوں کے گھرجلتے ہیں ان پر سنگین مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔ گرفتار یاں ہوتی ہیں تو دور دور تک کوئی خیریت لینے والانظرنہیں آتا۔ ملت کا مزاج ویسے ہی آتشیں اور فوری ری ایکشن والابنادیاگیا ہے جو بہت جلد کسی کو بھی غدار ،منافق ،ملت دشمن ،اکابر مخالف کا فتویٰ جاری کردیتا ہے جس طرح حکومت نے یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے جو سرکار مخالف ہے وہ دیش دروہی ہے بعینہٖ ہمارا مزاج اسی سانچہ میں پہلے سے ڈھلاہواہے اختلافات رائے ناقابل برداشت اور نکتہ چینی کرنے والا اکابر دشمن اورناقابل معافی ۔

بہرحال اب بات کافی آگے بڑھ گئی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پاکستان بھیج دینے کی دھمکی یا پاکستان چلے جانے کاطنز،بھارت میں رہنے کے لیے شرائط میں ہر روز نئی شرط کی شمولیت اپنے آپ میں ایک آز مائش ہے اس پر کچھ عاقبت نااندیش جن کی معاملہ فہمی پر کبھی بھی شک ہوتا ہے غیر ضروری امور پر حلال وحرام کا فتویٰ دے کر آگ میں گھی ڈال کر ان لوگوں کے کاز کو نئی تقویت بخشتے ہیں مثلاً کوئی مفتی اعظم راشٹرگان گانے کو حرام قرار دے کر پوری ملت کو شک وشبہ کے کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں جبکہ خود ان کے بچے سینٹ مری میں زیرتعلیم ہیں اور لازمی طور پر جھنڈا سلامی کے ساتھ راشٹر گان بھی گاتے ہوں گے جبکہ ان کے میڈیا کو آرڈی نیٹر جو اس فتویٰ کو پریس کے حوالہ کرتے ہیں ان کے تمام بچے سینٹ بسنیٹ میںپڑھتے ہیں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل کے دہرے پیمانے کیونکر قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ اب یہ نہیںچلنے والا کہ بقول اقبال ’جب چاہے کرے تازہ شریعت ایجاد‘

71ویں یوم آزادی کی مناسبت سے اترپردیش سرکار نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں مدارس کے لیے راشٹر گان کااہتمام کرنے کے ساتھ جھنڈا سلامی کولازمی قرار دینے کے ساتھ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کارروائی کی تنبیہ کی گئی ۔ ساتھ ہی ویڈیو گرافی کرکے متعلقہ دفتر میں جمع کرنے کا حکم بھی صادر کیا ۔ظاہر ہے کہ اس پر ملک کے کم وبیش ہرطبقہ نے صدائے احتجاج بلند کی کہ یہ آئین کی روح کے منافی تو ہے ہی صرف مدارس کو پابند کرکے انہیں شک وشبہ کے دائرے میں قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اورمسلمانوں کے ساتھ مدارس کی حب الوطنی پرانگلی اٹھانے والاقدم ہے ۔ اس کے دوراستے ہیں پہلا تمام مدارس مل کر اس حکم کو اس لیے ماننے سے انکار کریںکہ راشٹر بھکتی کو جبراً تھوپا نہیں جاسکتا اورہمیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کی ضرورت نہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی کو راشٹرگان گانے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا ،اس کا تعلق دل سے ہے۔ احترام محبت عقیدت کا پہلا زینہ دل سے ہوکر گزرتا ہے پھرمختلف صورتوں سے اظہار ہوتا ہے ۔ مسلمان ہوں یا مدارس کوئی کتنی بھی خاک ڈالنے کی کوشش کرے جنگ آزادی اور اس کے بعد ملک کی تعمیر وترقی میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔

دوسری صورت یہ تھی کہ بےچوں چراتعمیل کرکے قانون پسندشہری ہونے اور سرکاری احکامات کی فرمانبرداری کرکے حوصلہ دکھا یا جاتا مگر امت اس معاملہ میں بھی متحدہ موقف پیش کرنے میں ناکام رہی اور بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آئیں۔ ملت کی مقتدر جماعتوں اور سرکردہ علما نے چپ رہنے میں عافیت سمجھی ۔ دیوبند کی تاریخ میں اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق پہلی بار جھنڈا لہرایاگیا اور سلامی دی گئی۔ کہیں جھنڈا سلامی کے ساتھ راشٹر گان بھی گایاگیا۔ اس کی ویڈیوگرافی کرکے سرکار کے حضور بھیجی گئی کہ جو سرکلر تھا اس کے مطابق عملدرآمد ہوا ہے یعنی حب الوطنی کاسرٹیفکیٹ داخل کردیاگیا۔ اس پورے قضیہ میں روشن پہلو یہ سامنے آیا کہ اب بڑے مدارس اور علما کو بھی فوٹو گرافی ،ویڈیو گرافی سے پرہیز نہیں اس پر لگائی پابندی کا عملاً کوئی جوازنہیں رہا۔ کوئی اس پر احتجاج کرے تو وہ محض لفاظی بھر رہ گیا ہے۔ یہی نہیںہمارے موقر اسکالر وعلماحضرات اپنے پروگراموں کا ٹی وی پرراست ٹیلی کاسٹ کا بھی اہتمام کرنے لگے ہیں ۔ ٹی وی دیکھنے کو حرام قرار دی جانے والی باتیں بھی متضاد رویہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔

بہر کیف محسوس یہ ہوتا ہے کہ سرکار کی ایک تنبیہ نے مسابقت کی دوڑ لگادی۔ سوشل میڈیا پر مدارس میں منعقد پروگرام کی تصاویر ورپورٹیں آئیں ۔ اس نے بتایاکہ ہم کتنے امن پسند وقانون کی پاسدار ی کرنے والے شہری ہیں توکیا ہم شدید دبائو کے دور سے گزرہے ہیں اور متحدہ موقف اپنانے کی صلاحیت سے عاری ہوتے جارہے ہیں سرکردہ مسلم جماعتوں اور موقر علما الاماشااللہ اب اس لیے ہیں اور ملت کو اس کے حال پرچھوڑ کر اپنی بنائی سلطنت کے تحفظ میں لگ گئی ہیں تو کیا واقعی ان کی سلطنت بچ سکے گی؟حکومت کی چڑھی تیوریاں کچھ اور اشارے کررہی ہیںجو بادل پانی سے لبریز برسنے کے انتظار میں ہیں اس کی کیا ضمانت ہے اس میں میرا یا آپ کا گھر محفوظ رہے گا۔ سیلاب بلاجز کچھ مکانوں اور کھیتوں کو چھوڑ دے گا باقی بستی کو بہالے جائے گا۔

یہ خبریقینا پریشانی کن ہے کہ جن مدارس نے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ اور نیشنل آنرایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ تقریباً 150مدارس نے سرکاری ہدایات کونظرانداز کرنے کی جسارت کی جس کی قیمت انہیں چکانی پڑے گی۔ وہاں پر قومی ترانہ نہیں گانے اور ثقافتی پروگراموں کی فوٹو گرافی کی ضرورت نہیں سمجھی ان پرچابک چلایاجائے گا۔ قومی سلامتی ایکٹ اور نیشنل آنرایکٹ میں بہت سنگین دفعات ہیں ان میں ضمانت بھی نہیں ہوتی ۔ اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں اگر ان مدارس پر بالفرض کارروائی کی جاتی ہے تو ہمارا رویہ کیاہوگا۔ انہیں سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیں گے کہ غلطی کی ہے تو انجام بھی بھگتیئے یا ان کا دفاع کیا جائے گا۔ راشٹر گان پر اجتماعی موقف کیا ہے۔ ابھی یوگی سرکار کے دور میں چار یوم آزادی آئیں گے ان کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اس معاملہ کو حل کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی یانہیں ۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں مدارس کے لیے کچھ اور سخت احکامات وہدایات جاری کی جائیں معاملہ صرف مدارس کانہیں ہے ۔ دیگراقلیتی اداروں کا بھی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف مرکز حلف نامہ داخل کرچکا ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر تلوار لٹکادی گئی ہے اور سرکار اس کے خلاف بھی حلف نامہ داخل کرنے کی تیار کررہی ہے ۔ تعلیمی نصاب سے مسلمانوں کے تاریخی رول کو حذف کرنے کے ساتھ فاتح اور مفتوح کو بھی بدلا جارہا ہے ۔ مثلاً مہارانہ پرتاپ کئی سو سال بعد اب اکبر کو ہرائے ہوئے پڑھائے جارہے ہیں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ سرکار بڑی ایمانداری کےساتھ اپنے طے شدہ اہداف کی جانب قدم بڑھارہی ہےاور اس نے کوئی بھی محاذ خالی نہیں چھوڑا ہے ۔ میڈیا کی تمام اقسام پر اس کی گہری نظر ہے صرف مین اسٹریم نہیں اردو میڈیا کی بھی باریکی سے چھان بین کی جارہی ہے۔ دن بہ دن مشکل آزمائش بھرے اور چیلنج کرنے والے حالات پیدا ہورہے ہیں ۔ جان ومال کا تحفظ مذہبی تشخص ،تعلیمی اداروں کی بقا کے ساتھ تہذیبی شناخت کی علامتیں مٹائی جانے کی سمت عملی اقدا مات سب پر آشکارہیں۔

یہ بات مان لیجئے کہ طوفان میں کسی کاگھر نہیں بچتا اورہم معجزوں کے لائق نہیں ،صرف دعائیں بلائوں کا رخ نہیں موڑ تیں عملاً بھی کرکے دکھانا ہوتا ہے اور اللہ ان کاہی ساتھ دیتا ہے ۔اگر صرف دوروں ،کانفرنسوں ،وعظوں، قرار دادوں سے کام چل سکتا ہے تو ان کی رفتار اور تعداد بڑھادی جائے ۔ امن مارچ آنے والی مصیبتیں ٹالنے میں معاون ہیں تو ان کو وقفہ وقفہ سے کرتے رہناچاہئے ۔ یہ سلسلہ تھمنے والانہیں ہے۔ احمدپٹیل کی جیت پر شادیانے اور ڈھول بجانے وسجدہ شکر بجالانے والوں کی معصومیت کب تک خود سے دھوکہ کھاتی رہے گی۔ کم از کم ارباب مدارس ہی سرجوڑ کر بیٹھیں تمام مسالک کے مدارس کے مالکان مہتمم صاحبان اور صائب الرائے حضرات مشترکہ موقف ہندوستان کے سامنے پیش کریں۔ روز بروز شدیدنفسیاتی دبائو میں اضافہ ہورہاہے جو خوف وبزدلی کی طرف لے جارہاہے اسے ڈھارس بندھا نے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دس گالیاں اور دے لیجئے مگر جگر کے داغوںکو مت چھپائیے۔ ایسا نہ ہوکہ نوجوانوں کی بے چینی کو نادان دوست اچک لیں ۔ نازک اورصبرآزما لمحے پہلے بھی آئے ہیں انتشار بھی رہا ہے مگر جوڑنے والے بھی موجود رہے ۔ خانقاہوں ،حجروں اور درگاہوں کو آباد کرنے والے جانتے ہیں کہ خاموشی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی ۔ مصلحت اتنی درازنہ ہوجائے کہ اس کی سرحد یں خودغرضی سے جاملیں۔

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں