دینی مدرسوں کو ختم کرنے کا قانون

معصوم مرادآبادی

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دینی مدارس ہندوستان میں اسلام کی بقاء اور تسلسل کا واحد ذریعہ ہیں۔ان مدرسوں سے دینی تعلیم کی جو شمعیں جلی ہیں، انھوں نے پورے برصغیر کو روشن کیا ہے۔ ملک کے چپے چپے پر موجود ان مدرسوں سے فارغ ہونے والے علمائے کرام اور مفتیان عظام نہ صرف دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں بلکہ اسلام کے پرچم کو بلند رکھنے میں بھی مدد گارہوتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ اس ملک میں اسلام کے فروغ میں ان مدرسوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی توسیع واشاعت سے خوفزدہ فرقہ پرست اور فسطائی عناصر ایک زمانے سے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور انھیں مٹانے کے درپہ ہیں۔ جب سے بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے تب سے اس قسم کی کوششوں نے رفتار پکڑ لی ہے اور وہ اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی جان توڑ کوششیں کررہے ہیں۔ نجی خرچہ اور چندے پر چلنے والے مدرسوں پر تو حکومت کا زور نہیں چل رہا ہے مگر اب حاکمان وقت نے ان مدرسوں اور مکتبوں کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کردی ہے جو سرکاری امداد سے چلتے ہیں۔ اس سلسلہ کا پہلا قدم سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست آسام میں اٹھایا گیا ہے ۔گزشتہ ہفتہ آسام اسمبلی میں ایک ایسا بل پاس کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کو ایک جھٹکے میں ختم کردیا گیا ہے اور انھیں اسکولوں میں تبدیل کرنے کے احکامات دے دئیے گئے ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم ہمانتا بسوا شرما نے اس بل کو اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ان کے ایجنڈے اور ذہنیت کو پوری طرح واضح کرتا ہے۔ انھوں نے سرکاری مدرسوں کو عام اسکولوں میں تبدیل کرنے کا بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سبھی مدرسے ہائی اسکولوں اور مڈل اسکولوں میں تبدیل ہوں گے ۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’ ہمیں ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم منہ بھرائی نہیں کرتے۔ اس فرقہ سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ ہم سیاست سے اوپر اٹھ کر اس فرقہ کو ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں۔ جب بچے ان اسکولوں سے ڈاکٹر اور انجینئر بن کر نکلیں گے تب آپ کو اندازہ ہوگا۔‘‘
آسام کے وزیرتعلیم ہمانتا بسوا شرما کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ انتہائی فرقہ پرست ذہنیت کے حامل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں جب شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کا معاملہ چل رہا تھا تو آسام میں نام نہاد گھس پیٹھیوں کو ملک بدر کرنے یا انھیں ڈٹینشن سینٹروں میں بھیجنے سے متعلق سب سے زیادہ اشتعال انگیز بیان وہی دیا کرتے تھے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر آپ مسلمانوں کو ڈاکٹر اورانجینئر بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے مسلم بستیوں میں نئے اسکول اور کالج کیوں نہیں کھولتے ؟ ان مدرسوں کو فنا کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں ، جو مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کو پورا کررہے ہیں۔ جس وقت یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس پر کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف نے اسمبلی سے واک آؤٹ کیا ۔ انھوں نے اس بل کو سلیکشن کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا ،جسے مسترد کردیا گیا ۔ اسپیکر نے اس بل کو صوتی ووٹ سے پاس کرانے کا فیصلہ کیا۔ زبردست ہنگامے کے درمیان بل کو اکثریت سے پاس کردیا گیا ۔ بی جے پی کی حلیف پارٹیوں آسام گن پریشد اور بوڈو لینڈ پیوپلز فرنٹ نے سرکار کے اس قدم کا ساتھ دیا۔ وزیرتعلیم ہمانتا بسوا شرما نے مزید کہا کہ’’ وہ کسی فرقہ کے مخالف نہیں ہیں۔ بنیاد پرستی کی مخالفت کرنا اسلام کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ مسلم بچوں کو ڈاکٹر اورانجینئر بنانا کبھی اسلام دشمنی نہیں ہوسکتا ۔ انھوں نے اس موقع پر آئین ہند کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کا بھی حوالہ دیاکہ نصاب میں مذہبی ہدایات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونا چاہئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے خرچہ پر قرآن کی تعلیم نہیں دی جا سکتی ۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ بل کسی فرقہ سے دشمنی کی بنیاد پر نہیں لایا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد معاشرے کے ایک پسماندہ اور استحصال زدہ طبقہ کو اوپر اٹھانا اور ان کی پسماندگی کو دور کرنا ہے۔‘‘
بظاہر مسلم طلبا کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کی بات اتنی دلکش اور دلنشین ہے کہ کوئی بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا، لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کی دینی تعلیم کا نظام ختم کرکے ہی انھیں ڈاکٹر اور انجینئر کیوں بنانا چاہتی ہے۔ اس کام کے لئے پسماندہ مسلم بستیوں میں جدید تعلیم کے اسکول کھول کر اس ضرورت کو پورا کیا جاسکتا۔ درحقیقت ماڈرن تعلیم کی آڑ میں ان مدرسوں کو ختم کرنے کا مقصد ملک میں دینی تعلیم کے نظام کو تہس نہس کرنا اور مسلمانوں کو اپنے مذہب سے بیگانہ بنانا ہے جس کی شروعات سرکاری مدرسوں سے کی گئی ہے ۔ اس کے بعد پورا اندیشہ ہے کہ اب ان مدرسوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا جو سرکاری گرانٹ حاصل کرتے ہیں۔ ایسے مدرسوں کی تعداد بھی ملک میں کچھ کم نہیں ہے۔ ہر صوبے میں ایسے مدرسے موجود ہیں ، جو مدرسین کی تنخواہیں حکومت سے لیتے ہیں اور یہ تنخواہیں اس لئے دی جاتی ہیں کہ یہ دینی مدرسے محدود وسائل کے اندر ناخواندگی دور کرنے کے سرکاری مشن کو پورا کررہے ہیں۔ ہندوستان میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے اور اگر کہیں بھی کوئی اسے دور کرنے کی کوشش کررہا ہے تو وہ سرکاری امداد پانے کا مستحق ہے۔ اس معاملے میں مدرسوں کا کردار بڑا مثبت اور تعمیری ہے۔کسی سرکاری انفرا اسٹرکچر کے بغیر بنیادی تعلیم کو عام کرنا ایک بہت بڑا کام ہے جو پورے ملک میں دینی مدرسے انجام دے رہے ہیں۔ ملک میں کسی دوسرے فرقہ کے پاس اس قسم کی تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کئی سرکاری رپورٹیں مدرسوں کی اس بیش بہاخدمت کو خراج تحسین پیش کرچکی ہیں۔
آسام کا نیا قانون دو موجودہ قوانین کو منسو خ کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ ان میں 1995 کا آسام مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ اور 2018 کا مدرسہ ملازمت سے متعلق ایکٹ شامل ہے۔ آسام میں فی الحال سرکاری سطح پردو قسم کے مدرسے چل رہے ہیں۔ ان میں بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے ماتحت چلنے والے 189 مدرسہ ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔ ان کے علاوہ 542 مدرسے اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ماتحت ہیں ، جو پری سینئر،سینئر اور عربک کالج کہلاتے ہیں۔ صوبائی حکومت نئے قانون کے تحت اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو تحلیل کرنے جارہی ہے۔ ان مدرسوں میں جو اساتذہ مذہبی تعلیم دے رہے تھے ، انھیں دوسرے مضامین پڑھانے کی تربیت دی جائے گی اور اب وہ قرآن و حدیث پڑھانے سے باز رہیں گے۔ اس معاملے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے حکومت نے اتنا ضرور کیا ہے کہ صوبے میں چل رہی سنسکرت پاٹھ شالاؤں کو اب اسٹڈی سینٹر، ریسرچ سینٹر کہا جائے گا۔ البتہ ان کا نصاب اور مقصد برقرار رہے گا۔
مدرسوں کے بارے میں حکمراں بی جے پی کی سوچ ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حکمراں جماعت کے لوگ ان مدرسوں کو دہشت پھیلانے کے اڈے اور مسلمانوں کو بنیاد پرست بنانے کی آماج گاہیں قرار دیتے رہے ہیں۔ اس بے ہودہ پروپیگنڈے کا واحد مقصد مدرسوں کو بدنام کرکے ان کے وجود کو مٹانا ہے ۔اس کے پیچھے جو خطرناک سازش کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ کسی طرح اس ملک سے اسلام کا نام و نشان مٹایا جائے۔ مدرسوں کو چونکہ اسلام کے قلعے کہا جاتا ہے اس لئے انھیں مسمار کرکے جدید تعلیم کے اسکولوں میں بدلنے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ آرایس ایس کی ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ میں مدرسوں کی نگرانی کرنے والی ایک شاخ موجود ہے، جسے مدرسہ شکشا بورڈ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ شاخ ان مدرسوں پر گہری نگاہ رکھتی ہے جو کسی بھی شکل میں سرکاری امداد حاصل کرتے ہیں۔ راشٹریہ مسلم منچ کے پاس ملک بھر کے مدرسوں کی فہرست موجود ہے اور یہ تنظیم نہایت باریک بینی کے ساتھ اپنے مشن پر کام کررہی ہے۔ آسام میں سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کو ختم کرنے کا کام اسی تنظیم کے ایماء پر کیا گیا ہے۔ یہ اہل مدارس کے لئے بیدار ہونے کا سب سے صحیح وقت ہے کیونکہ دینی مدرسوں کو موجودہ نصاب کے ساتھ قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں