دیکھتی ہیں خواب آنکھیں مانگتا تعبیرِ دل

دوٹوک ….. قاسم سید

کانگریس کی سیاسی خشک سالی میں کامیابی کی تھوڑی سی اوس گری ہے تو جشن کاسا سماں ہے ۔ ہرطرف پٹاخے پھوڑے جارہے ہیں ایک سیٹ کی جیت نے سرشاری و شادمانی کے نشہ میں ڈبو دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پانی پت پلاسی کی جنگ جیت لی ہے ۔ یقیناً اس سیٹ کے بہت سے سیاسی معانی ہیں اور اگر کانگریس کے ارباب حل و عقد چاہیں گے تو اس غیریقینی جیت کو جدوجہد کے آغاز میں بدل سکتے ہیں ۔ بی جے پی کو اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہئے کہ اس بہانے کانگریس قیادت کو محلوں سے اٹھاکر گلی کوچوں میں جانے ،رات رات بھر جاگنے، دن بھر پسینہ بہانے اور ایک ایک ایم ایل اے کے ہاتھ پیر جوڑنے و خوشامد پر مجبور کردیا ،جو لوگ شہنشاہ بنے پھرتے تھے ، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ گھنٹوں ڈرائنگ روم میں انتظار کرانے میں لذت محسوس کرتے تھے ان کی دھڑکنیں بے ترتیب کردیں، سانسیں تھما دیں اور یہ سبق یاد دلایا کہ اقتدار یونہی نہیں مل جاتی اس کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ عام لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ ان کو اپنا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھلے ہی اس سیٹ کے بہانے پرانے حساب بے باق کرنے اور کانگریس کے قلعہ میں شب خوں مارنے کا منصوبہ بنا ہو جو حکمت عملی میں کسی کمی کی وجہ سے ناکام ہوگیا مگر اس واقعہ نے کانگریس کی جڑیں ہلادی ہیں، اس کے پائوں تلے سے زمین نکال دی۔ ظاہرہے جنہوں نے ملک کو کانگریس مکت بنانے کاعزم کیا ہے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ کوئی اور راستہ تلاش کریں گے جب شیر کی ماند میں ہاتھ ڈال دیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ کس حد تک نازک ہے اس قلعہ کا پھاٹک اندار کے سنتریوں سے کھلوایا گیا وہ صرف کھڑکیاں ہی کھول سکے تو کسی زنجیر بھی توڑ ی جاسکتی ہے ۔ اسے جولوگ سیکولر زم کی فرقہ پرستی پر جیت سمجھ رہے ہیں اور ہزار شکرانہ ادا کررہے ہیں ،اطمینان و خوشی کی چمک ان کے چہروں سے پھوٹتی روشن سے چھلکتی ہے۔ وہ اس جیت کو سیکولرزم مضبوط کرنے کی راہ سمجھتے ہیں اور سیکولر طاقتوں سے امن و امان اور سیکولرزم کی بقا کے لیے متحد ہونے کی اپیل کربیٹھتے ہیں۔ اس میں ان کی سادہ لوحی اور سیکولرزم کے تئیں اعتماد و پختہ یقین ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ چھوٹی کامیابی پر بھی خوش ہوجاتے ہیں اور خالص سیاسی لڑائی کو بھی سیکولرزم بنام فرقہ پرستی کی جنگ میں تبدیل کردیتے ہیں ۔یہ احمد پٹیل اور امت شاہ کے مابین سیاسی انتقام، دبدبہ اور بالادستی کی لڑائی تھی جس میں قسمت نے سونیا گاندھی کے مشیر کا ساتھ دیا ورنہ ان کی ہار تو ہوگئی تھی اگر آخر وقت میں کانگریس کے دو باغی ممبران کی تکنیکی غلطی سامنے نہ آتی تو ان کا کام تمام ہوگیا تھا۔
یہ نتیجہ ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کسی فوج کو لگاتار کامیابی ملتی ہیں تو اس کو جیت کا چسکا لگ جاتا ہے ۔ پھر وہ صحیح و غلط کا امتیاز بھول جاتی ہے وہ اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز قدم اٹھانے سے نہیں جھکتی ۔ اپنی قلمرو کی توسیع کا جنون انسانی بستیوں کو بھی ویران کردیتا ہے یہ ویرانی اس کی دیوانگی کو اور بڑھاتی ہے۔ اپنے حق میں ہزار خون معاف سمجھتی ہے۔ آج ملک کی 18ریاستیں اس کے بظاہر مفتوح ہونے کا اشارہ کررہی ہیں۔ اس کی خود اعتمادی کا یہ حال ہے کہ کانگریس کے قلعہ یعنی دس جن پتھ تک مارچ کرنے پہنچ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے حملہ میں اسے ناکامی ملی اسے خراش آگئی ہیں ان کی ٹیس زیادہ ہے اس رقص بسمل پر نقارے بجانے اور ڈھول پیٹنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مہلت کا وقفہ ہے اس سے فائدہ اٹھانے، شکست خوردہ فوج کے بھاگے ہوئے سپاہیوں کو جمع کرنے اور انہیں منظم کرنے کا مختصر سا موقع ہے کیونکہ چوٹ کھایا سانپ زیادہ خطرناک اور جارح ہوتا ہے، سارا زہر ایک ساتھ تھوک دیتا ہے ۔ بی جے پی اپنی غلطی اور حد سے زیادہ خود اعتمادی کے سبب ہاری ہےاور احمد پٹیل اپنی قسمت کی وجہ سے جیتے ہیں یہ بڑا عبرت انگیز ہے کہ جو دوسروں کا کھیل بنانے اور بگاڑنے کی طاقت رکھتا تھا اسے اپنا بچانے کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔
کانگریس اسی وقت ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزررہی ہے۔ ڈوبتے جہاز سے بڑے بڑے چوہے کود کر بھاگ رہے ہیں۔ سایہ بھی ساتھ چھوڑ نے لگا ہے کانگریس قیادت یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہے کہ بھارت بدل چکاہے جیسا کہ اس کے تھینک ٹینک جے رام رمیش کا خیال ہے کہ ہم سلطنت کھوچکے ہیں اور خود کو سلطان سمجھ رہے ہیں۔ پارٹی سنگین ترین بحران سے گزر رہی ہے۔ پرانے طور طریقہ بدلنا نہیں چاہتی اسے امت شاہ مودی کی جوڑی کا سامناہے۔ جس نے سیاست کی پرانی روایتیں بدل دی ہیں۔ ملک کئی قسم کی سیاست سے دوچار ہے۔ مودی نیا بھارت بنانے کی مہم میں لگے ہیں اور 2022 تک ٹارگیٹ مکمل کرنا چاہتے ہیں ان کا نیا بھارت کس طرز کا ہوگا ۔گزشتہ تین سال کے دورِ اقتدار میں اس کا ٹریلر آچکا ہے اس بارت میں مہارا ناپڑتاپ سنگھ اکبر دی گریٹ کو شکست دیتے ہوئے نظرآرہے ہیں ۔ شیوراج جی نے مغلوں کا ’سروناش‘ کردیا جو ویر ساورکر، گولوالکر اور دین دیال اپادھیائے کا بھارت ہوگا جہاں گاندھی چالاک بنیا اور نہرو ملک کو سنگین غلطیوں کے حوالے کرتے دکھائی دیں گے۔ جہاں بچے گائے ، گیتا اور گنگا کے بارے میں زیادہ واقف ہوں گے۔ وہ یوگ کے ساتھ سوریہ نمسکار کرنے کے پابند ہوں گے ۔ جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام نافذ ہوگا اور راشٹرواد پہلا و آخری دھرم ہوگا۔ ’دیش ہت‘ میں بولنے اور خاموش رہنے کے لئے پیمانے ایجاد ہورہے ہیں کونسی چیز کب دیش ہت کے دائرے میں ڈال دی جائے یہ حکمرانوں کی صوابدید پر ہوگا ۔ ذراخوف کا ماحول بڑی محنت اور لیاقت سے بنایا جارہا ہے ۔ مذہبی شخص کی علامتوں کو دھیرے دھیرے کھرچ کر ختم کردیا جائےگا۔ کانگریس کو مبارکباد دینی چاہئے کہ اس نے گزشتہ 60 سالوں میں ملک کو جہاں پہنچا دیا بی جے پی ایمانداری کے ساتھ اس کے باقی چھوڑ گئے۔ کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچادی ہے۔ کانگریس سیکولرزم کی کھال پہن کر شکار کئے وہیں بی جے پی کو اس تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی منافقانہ اور عیارانہ سیاست نے صرف اقلیتوں کو ہی بے وقوف نہیں بنایا اور انہیں سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دلتوں سے بھی بدتر مقام پر لاکر چھوڑ دیا بلکہک اس نے پورے ملک سے بد ۔۔۔۔ کی یہ سوال خود سے پوچھتے کہ جب ملک کی باگ ڈور چند سالوں کو چھوڑ کر سیکولر پارٹیوں خاص طور سے کانگریس کے ہاتھ میں رہی تو فرقہ پرست اور فسطانی قوتیں اپنی مضبوط وتوانا کیسے ہوگئیں کہ وہ بھرپور اکثریت کےساتھ ملک پر قابض ہوگئیں اور آدھی سے زائد ریاستیں ان کی مٹھی میںآگئیں کیایہ عوام یا رائے دہندگان کی غلطی ہے یا سیاسی سیکولر عناصر کی سازش۔ مسلمانوں نے اپنی رگوں میں موجود خون کاایک قطرہ اپنے جان نثار مخلص رہنماؤں کی ہدایت پر کانگریس کو چڑھا دیا۔ اب وہ خود جانکنی کے عالم میں ہیں۔ ڈر اور خوف کایہ عالم ہے کہ تھوڑی سی مصیبت یا آزمائش میں دعائے قنوت پڑھی جاتی تھی اب اس کی بھی ہمت نہیں کہ مساجد میں دعائے قنوت پڑھ لی جائے کہ حکومت کو رپورٹ ہوسکتی بعد اس کے نتیجہ میں بازپرس کی جاسکتی ہے۔ مسلم قیادت کے سواد اعظم کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی نسخہ نہیں ۔کانگریس اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے شکست سے دوچار ہے ہماری مجبوری یہ ہے کہ جیساکہ بتایا جاتا ہے کہ اور کوئی راہ کامیاب نہیںہے اگر پائپٹنک ڈوب رہا ہے تو بہتر یہ ہے کہ وفاداری کے عہد کے ساتھ ہم دل سے کرتے ہیں وہ قدم قدم پر بدعہدی کرتے ہیں اپنے مفادات کے مطابق پالیساں بدلتے ہیں جیسے ٹرین کو منزل تک جانے کے لئے ٹریک بدلنا پڑتاہے مثلاً تیش کمار نے مہاگٹھ بندھن توڑ کر پھر بی جے پی سے پرانا راستہ جوڑ لینا اب زہر فرقہ پرست میں یا سیکولر یہ تو ہمارے معزز قائدین عظام ہی بتائیں گے لیکن ہندوستانی سیاست کا مزاج یہی ہے کہ ضرورتوں کے مطابق گٹھ بندھن بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ کسی ایک کھونٹے سے بندھے رہنا ذہانت نہیں سیاسی حماقت ہے ۔ کانگریس کو ایک جیون دان ملا ہے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے گی یا راہل کی پارٹ ٹائم پالیٹکس جاری رہے گی۔ وہ کونسی پارٹیاں ہیں جو سیکولر کہی جاسکتی ہیں کیونکہ وہ کندھا بدلتی رہتی ہیں ان کی نشاندہی کی جائے براہ کرم لڑائی اور گھر کے بھیدی نے اس لڑائی کو مشکل بنادیا تھا بی جے پی نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ یہ نئے اورپرانے بھارت کی لڑائی ہے جس میں سب کچھ نیاہے پرانے اوزار بے اثر ہوگئے ہیں ۔ شہنشاہی مزاج کام نہیں آئے گا۔ صرف بیان بازی اور کانفرنسیں مداوا نہیں کریں گی۔ پرانے امراض کا علاج جدید طریقوں کو اپنا کر ہی ہوگا۔ ہماراکوئی مسئلہ نیا نہیں ہے ۔کانگریس کے پیدا کردہ ہیں ۔بی جے پی ان کی دھارتیز کررہی ہے اور جنہیں ہم اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہیں ان سے خیر کی امید نہیں رکھنی چاہئے جنہیں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے برا بھلا کہتے ہیں ان کو ہماری گردن مروانے کا بھرپور موقع ملاہے تو وہ اسے کوئی چھوڑ دیں گے۔ ہماری سیاسی قیادت ذہنی دیوالیہ پن کی شکار ہے، انجام تو بھگتنا ہوگا۔