زبان اور ذہنیت کے بحران کے درمیان اردو اور ملت کا مستقبل!

عمر فراہی

کوئی دس بارہ سال پہلے کی بات ہے اردو ٹائمز کے چار ناتجربہ کار اردو صحافیوں نے ایک رسالہ صحیفہ والدین نکالنے کا فیصلہ کیا اور میگزین نکلنا شروع بھی ہو گئی ۔ان ناتجربہ کار صحافیوں میں ایک تو میں خود ہوں ۔دوسرے دانش ریاض جو آج معیشت ملٹی میڈیا کے ڈائریکٹر ہیں ۔تیسرے اردو ٹائمز کے اس وقت کے مدیر عالم نقوی اور چوتھے ممتاز میر صاحب ہیں ۔میں نے ان تمام لوگوں کو ناتجربہ کار اس لیے کہا کہ لکھنا ایک الگ چیز ہے کسی اخبار اور میگزین کو چلانا اور اس کی مارکیٹنگ کرنا الگ بات ہے ۔میگزین کا جو حشر ہونا تھا وہ طئے تھا اور ہوا بھی یہ بھی ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ میں نے انفرادی طور پر اپنے تعلقاتیوں میں بہت بے شرمی کے ساتھ رسالے کی ممبر شپ کیلئے تو کچھ لوگوں کو تیار کیا ایک بار پتہ نہیں کہاں سے دماغ میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ ممبئی کی بڑی مسجدوں کے دروازے پر جمعہ کے دن اسٹال لگا کر رسالے کی ممبر شپ حاصل کی جائے یا جو میگزین آخر میں بچ رہ جاتی تھی کم سے کم اسے فرخت ہی کر دیا جایے تو بہتر ہے ۔لوک دس روپئے کی میگزین کو صرف دیکھ کر چلے جاتے اور کہتے کہ اگر انگلش میں ہوتی تو بچوں کے کام آتی ۔ایک دن میں نے اسی مسجد کے باہر جو اسٹاک بچا تھا ٹیبل کے سامنے پمفلٹ پر یہ لکھ دیا کہ رسالہ مفت میں بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔یقین مانیں لوگ اس رسالے کو حاصل کرنے کیلئے ٹوٹ پڑے ۔سوچئے جو رسالہ پہلے دن میں دس روپئے میں فروخت کر رہا تھا اسے صرف دو اللہ کے بندوں نے خریدا دوسرے دن تین سو رسالے کیسے ہوا ہو گیے پتہ نہیں چلا ۔یعنی مفت اردو کا رسالہ پڑھا جاسکتا ہے اور پیسے دیکر انگلش کا ۔

کسی نے کہا ہے کہ جو قوم روز پچاس روپئے کی چائے تو پی جاتی ہے تین روپئے کا اخبار پڑوسی سے مانگ کر پڑھتی ہو وہ اپنی زبان کو کیسے بچا سکتی ہے ۔بد قسمتی سے کرونا کے بعد تو اب اخبارات کی فروخت بھی پچاس فیصد گھٹ چکی ہے اور میں نے بہت سے اخبار فروشوں کو دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنے اخبار کے اسٹال بند کر کے واچ مین کی نوکری پکڑ لی ہے ۔خیر اگر کوئی قوم اپنی زبان اور رسم الخط کو زندہ رکھنے کیلئے سنجیدہ ہے تو وہ یہ کام آن لائن بھی کر سکتی ہے ۔ویسے اب دنیا کا اسی فیصد کاروبار آن لائن ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں اخبارات اور کتابیں شاید پی ڈی ایف میں ہی پڑھی جائیں ۔جہاں تک اردو کی بات ہے ہندوستان میں اس زبان کو بیسویں صدی میں ہی عروج حاصل ہوا اور مولانا اشرف علی تھانوی شبلی مودودی حالی سر سید مولانا علی میاں ندوی وغیرہ وغیرہ کی بے شمار تصنیفات اسی صدی میں تخلیق میں آئیں اور پھر اسی صدی میں بہت سارے نامور ادیب افسانہ نگار اور شعراء حضرات کی ایک طویل فہرست بھی تیار ہوئی اور بے شک اردو کے ان مجاہدوں نے بہت کم وقت میں اردو ادب کو جس طرح دیگر زبانوں کے مد مقابل یا اس سے بھی آگے پہچایا ان کا یہ کارنامہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے ۔مگر برا ہو سرمایہ داریت کا کہ جس جاوید اختر اور کیفی اعظمی یا ندا فاضلی کو اسی اردو کی وجہ سے شہرت ملی اور وہ مالا مال بھی ہوئے ان ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت نے خود اپنی اولادوں کو اردو سے محروم رکھا ۔افسوس نہ صرف اسی فیصد اردو کے ادیبوں نے اپنے بچوں کو انگلش ذریعہ تعلیم کی طرف موڑ کر انہیں اپنی زبان سے محروم کر دیا مذہبی تنظیموں کے ارکان اور اردو ٹیچر اور اساتذہ کا حال بھی یہی ہے ۔کہنا پڑ رہا ہے کہ بھارت میں جب تک غریب مسلمان اور مدارس زندہ ہیں شاید اردو اور اردو کے قاری بھی باقی رہیں ورنہ ملک میں مسلمانون کی جو صورتحال ہے ترقی پسندی کے جنون میں عام مسلمانوں کے رہن سہن میں بھی تیزی کے ساتھ بدلاؤ واقع ہو رہا ہے ۔یہ بدلاؤ اگر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بھی ہوتا تو ہم کسی طرح اپنی مادری زبان کے ناپید ہوتے ہوئے قافلے کا غم بھلا سکتے ہیں مگر زبان سے جو ملت وجود میں آتی ہے اسی مادری زبان سے انحراف نے ملت کا جو شیرازہ بکھیرا ہے اور ایوان ملت میں جو بدلاؤں دکھائی دے رہا ہے وہ بالکل مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ خود مسلمانوں کے اندر متضاد تہذیبیں وجود میں آرہی ہیں اور ایک عجیب سا Clash of civilisation یعنی تہذیبوں کے تصادم کا ماحول خود مسلمانوں کے آپس کے اندر وقوع پزیر ہونے کو بے چین ہے ۔یعنی نہ صرف مختلف زبانوں کے مسلمانوں کا جمگھٹا پیدا ہو رہا ہے ذہنوں کا تضاد بھی کسی بحران سے کم نہیں ہے ۔