سپریم کورٹ کا فیصلہ کسانوں کے لیے اچھا بھی ہے اور برا بھی، جانیے پوری تفصیل

سپریم کورٹ نے آج ہوئی سماعت کے دوران جو فیصلے سنائے، اس میں صرف کسانوں کے لیے ہی اچھی بات نہیں ہے، بلکہ مرکز کی مودی حکومت کو بھی کئی راحتیں نصیب ہوئی ہیں۔

نئی دہلی: (تنویر) متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کو آج اس وقت ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی جب سپریم کورٹ نے تینوں نئے زرعی قوانین کے عمل پر روک لگاتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی تاکہ مسئلہ کا حل نکالا جا سکے۔ لیکن سپریم کورٹ نے آج ہوئی سماعت کے دوران جو فیصلے سنائے، اس میں صرف کسانوں کے لیے ہی اچھی بات نہیں ہے، بلکہ مرکز کی مودی حکومت کو بھی کئی راحتیں نصیب ہوئی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں مودی حکومت کے لیے کیا کیا فائدے اور نقصانات ہیں، اور کسانوں کے لیے کیا کیا اچھی اور بری خبر ہے۔
کسانوں کے لیے یہ ہے اچھی خبر:
سپریم کورٹ نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اس نے کمیٹی کی تشکیل کسی ثالثی کے مقصد سے نہیں کی ہے بلکہ مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے کمیٹی بنائی ہے۔ گویا کہ کمیٹی قانون کی حمایت اور مخالفت کر رہے فریق سے بات کرے گی، دونوں فریقین کو سنا جائے گا اور تب تک کے لیے زرعی قوانین کے عمل پر روک رہے گی۔
زرعی قوانین پر غور و خوض کے لیے جس کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے وہ بنیادی طور پر کسان تنظیموں سے بات کرے گی۔ حکومت اور کسان دونوں فریق سے باتیں کی جائیں گی اور اہم طور پر کسانوں کی ان باتوں پر غور کیا جائے گا جن میں کہا جا رہا ہے کہ قوانین کا اثر ان پر کس طرح برا پڑ رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی سماعت کے دوران کہا تھا کہ اب تک قوانین کی حمایت میں ان کے سامنے کوئی عرضی نہیں آئی ہے۔
کسان طویل مدت سے حکومت کے ساتھ بات کر رہے تھے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ ساتھ ہی کسان ایسا پیغام نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ حکومت کے سامنے جھک گئے ہیں۔ اب جب عدالت نے اس معاملے میں مداخلت کی ہے تو کمیٹی کی رپورٹ اور عدالت کے حکم کے مطابق مظاہرہ اختتام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں حکومت کے دباؤ میں آئے بغیر بھی کسان اپنی تحریک ختم کر سکتے ہیں۔
کسانوں کے لیے یہ ہے نقصان کا پہلو:
کسان تنظیمیں طویل مدت سے قانون واپسی کی اپیل کر رہی ہیں۔ کسان لیڈران حکومت کے ذریعہ قانون میں ترمیم اور کمیٹی بنانے کی تجویز کو مسترد کر چکے تھے۔ لیکن اب جب سپریم کورٹ نے سختی سے کمیٹی بنانے اور حل نکالنے کی بات کہی ہے تو کسان تنظیموں کو اپنی ضد چھوڑ کر کمیٹی کے سامنے جانا ہی ہوگا۔
کمیٹی کے سامنے کسان پیش ہوں گے یا نہیں، اس سلسلے میں کسان تنظیمیں اب بھی تذبذب کی شکار ہیں۔ ایسے میں اگر بڑے پیمانے پر کسان تنظیم کمیٹی کے ساتھ مذاکرہ کرنے میں عدم تعاون کرتی ہیں تو یہ حکومت کے حق میں جا سکتا ہے۔ کیونکہ اسے فیصلہ کو ٹالنے اور عدالت کا حکم نہ ماننے کے طور پر دیکھا جائے گا۔
مرکز اگر کمیٹی کے سامنے پارلیمنٹ سے ان قوانین کے منظور ہونے کی بات رکھے گی اور اس میں موجود خامیوں کو ترامیم کے ذریعہ دور کرنے کی دلیل پیش کرے گی، تو ممکن ہے کمیٹی اس کے لیے تیار ہو جائے۔ اور چونکہ کمیٹی اپنی رپورٹ ڈائریکٹ سپریم کورٹ کے حوالے کرے گی، تو فیصلہ حکومت کے حق میں بھی جا سکتا ہے۔
مرکزی حکومت کے لیے یہ ہے راحت کی خبر:
کسانوں اور حکومت کے درمیان کئی راؤنڈ کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ساتھ ہی کئی مواقع پر دونوں فریق میں سخت کلامی بھی دیکھی گئی۔ ایسے میں اب جب کہ سپریم کورٹ کی کمیٹی بنی ہے تو حکومت-کسان کے درمیان جاری رخنہ اندازی ختم ہوگی اور کسی فیصلہ کی طرف آگے بڑھنا ممکن ہو پائے گا۔
عدالت کے ذریعہ بنائی گئی کمیٹی سبھی فریق سے بات کرے گی، چاہے قانون حامی ہو یا مخالف۔ ایسے میں اگر کمیٹی کے ذریعہ دی گئی رپورٹ قانون کی حمایت میں آتی ہے تو حکومت کا دعویٰ مضبوط ہوگا۔
حکومت کو بڑا فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ انھیں فی الحال زرعی قوانین واپس نہیں لینا ہوگا کیونکہ کمیٹی اب نافذ کیے گئے قانون پر تفصیلی غور و خوض کرے گی اور ہر پوائنٹ پر اپنی رائے دے گی۔ ایسے میں حکومت جن وسائل کی بات کر رہی تھی، اس سے بھی کام چل سکتا ہے۔
مرکزی حکومت کے لیے یہ ہے نقصان کا پہلو:
زرعی قوانین کی مخالفت جب سے شروع ہوئی ہے، حکومت اس کا دفاع کرنے میں لگی رہی۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی مواقع پر سیدھے کسانوں کو مخاطب کیا اور ان قوانین کو زرعی شعبہ کا سب سے بڑا اصلاح بتایا۔ پی ایم مودی نے کسانوں کو اپوزیشن کی باتوں میں نہ آنے کو کہا، لیکن حکومت کی دلیل عدالت میں نہ چلی اور آخرکار قوانین پر عمل آوری فی الحال روک دی گئی۔
حکومت نے کسانوں کو منانے کی کئی کوششیں کیں، لیکن بات نہیں بن سکی۔ عدالت نے بھی مانا کہ حکومت اس ایشو کو سلجھانے میں ناکام رہی ہے۔ ایسے میں مودی حکومت اپنے دم پر کسان تحریک کو ختم نہیں کر سکی جو کہ ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔ اس ناکامی کی وجہ سے ہی سپریم کورٹ کو معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا پڑا۔
عدالت کے ذریعہ تشکیل کمیٹی ہر فریق سے بات کرنے کے بعد اپنی رائے رکھے گی۔ ایسے میں اگر زرعی قوانین میں خامیاں شمار کرائی جاتی ہیں تو مرکز پر انھیں واپس لینے کا دباؤ بن سکتا ہے۔
(قومی آواز)