شمس الرحمن فاروقی جیسا نقاد موجودہ ادبی منظر نامہ پر دوسرا نظر نہیں آتا : ڈاکٹر جمال اویسی

المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی کی رحلت پر تعزیتی نشست
دربھنگہ: (نمائندہ) المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، شوکت علی ہاﺅس، پرانی منصفی ، دربھنگہ کے زیر اہتمام اردو ادب کے دیدہ ور نقاد،ناول نگار و شاعر جناب شمس الرحمن فاروقی اور شعبہ ¿ اردو ، ایل این ایم یو، دربھنگہ کے ہردلعزیز استادپروفیسر فاراں شکوہ یزدانی صاحب کی رحلت پر تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کی صدارت عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے انجام دیئے۔ اس موقع پر پروفیسر احتشام الدین، ڈاکٹر جمال اویسی، ڈاکٹر عبدالحی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، سید محمود احمد کریمی، انور آفاقی ، ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر،محمد نثار احمد خاں اور ڈاکٹر احسان عالم موجود تھے۔صدر نشست پروفیسر طرزی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی سے میرے دیرینہ تعلقات رہے۔ جب وہ این سی پی یو ایل کے وائس چیئرمین تھے تب میں این سی پی یو ایل کا ممبر تھا۔ ایک ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ۔ ان کے انتقال سے میرا ذاتی نقصان ہوا ہے۔ فاراں شکوہ یزدانی میرے دیرینہ دوست تھے ۔ انہوں نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر پروفیسر احتشام الدین نے کہا کہ فاروقی صاحب اپنی بات اثبات سے شروع کرتے اور نفی سے چند سوالات پیدا کرتے ہیں اور مطالعے کے تجربے کی روشنی میں اس کا جواب مثالوں کے ذریعہ دیتے جاتے ہیں۔ فاراں شکوہ یزدانی صاحب کے سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی دوست صفت استاد تھے۔ دوستانہ ماحول میں ذہن کی آبیاری کی ۔ شاگردوں پر اعتبار کا ایسا ماحول بنایا کہ شاگردان کے اعتماد پر پورا اترنے کے لئے مطالعہ کرتے تھے۔ ڈاکٹر جمال اویسی نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی جیسا نقاد موجودہ ادبی منظر نامہ پر دوسرا نظر نہیں آتا ہے۔ اکیسویں صدی میں داستان پر ان کے تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے کام نے اور لغت نگاری نے ان کے ادبی مقام اور مرتبے میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ پھر ان کی افسانہ نگاری اور ناول نگاری نے بھی انہیں وقار بخشا اس لئے ان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوا۔ لیکن ان کو بحیثیت نقاد غیر جانبداری کے ساتھ پیش کیا جائے تو کھلی کھلی چند باتیں دکھائی دیتی ہیں ۔ان کی تنقید میں آمرانہ لہجہ کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحی نے کہا کہ گزشتہ پچاس برسوں کا عرصہ دیکھ لیں آپ پائیں گے کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے اردو کے تنقیدی دبستان پر حکومت کی ہے۔جہاں وہ جدیدیت کو مستحکم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں وہیں کلاسیکی ادب پر ان کا کام بے مثال ہے۔ صنف حالیہ کے موجد ڈاکٹر مبین صدیقی نے کہا کہ ہمارے مایہ ناز ادیب اور دانشور نقاد جناب شمس الرحمن فاروقی نے اردو ادب میں جو بڑے کارنامے انجام دیئے اور جن کے لئے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ ان کارناموںمیں ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جدید طرز و اسلوب کو ادب میں جدید رمزیتیں اور تہہ داری کو جدید ترین ادبی رویوں کو اختراعی ادب کے ہمہ جہت پہلوﺅں کی اہمیت ، عظمت، حرمت ، افادیت کو از سر نو قائم کیا۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے اپنی نظامت کے دوران شمس الرحمن فاروقی اور استاذ فاراں شکوہ یزدانی صاحب کے حوالے سے کئی معلوماتی باتیں پیش کیں ۔ڈاکٹر منصور خوشتر نے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے انتقال پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے اردو ادب کو ایک بڑا خسارہ ہوا اور اس خلا کو کبھی پر نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری جانب پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی کے انتقال کا غم دربھنگہ والوں کو مدتوں رہے گا۔ ڈاکٹر احسان عالم نے بہت مختصر انداز میں کہا کہ فاروقی صاحب کے کارنامے اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری جانب پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی صاحب طلباءو طالبات کے لئے کافی معاون شخصیت کے حامل تھے۔ وقت سے قبل ان کے انتقال پر ادبی حلقہ کافی سوگوار ہے۔ انور آفاقی صاحب نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی نے شب خون نکالا اور معیاری ادب کو فروغ دیا ۔ ان کی کمی تادیر رہے گی۔ پروفیسر طرزی صاحب نے دونوں مرحومین کے تئیں کچھ یوں اظہار تعزیت کیا :
پروفیسر فاراں شکوہ یزدانی
دنیا سے اب گیا ہے وہ فاراں شکوہ بھی
بے شبہ ایک ہستی جو باغ و بہار تھی
میرا رفیق کار ، مجھے تھا بہت عزیز
مدت بھی ساتھ گذری تھی اٹھارہ سال کی
شمس الرحمن فاروقی:
دارفانی سے ہیں گئے اب شمس الرحمن فاروقی
جن کا جہان دانش میں تو کئی ہے ثانی بھی
’شب خوں‘ والے پر ہی کیسا ڈالا اجل نے ہے شب خوں
جن سے اہل دانش پر ہیں طاری صدمے، حیرانی
برلا فاﺅنڈیشن سے ہی پایا تھا سمان بڑا
ایسی عزت افزائی بھی ”شعر شور انگیز“ نے دی
علم و دانش کی دنیا میں ایک سند کی جیسی ہیں
شمس الرحمن فاروقی کی ہیں بھی کتابیں کچھ ایسی
دیکھنے سے تو دبلے پتلے اک انساں وہ لگتے تھے
آپ کی بالا قامت علمی محکم ایک حقیقت تھی
درس سے یا تدریس سے رشتہ گرچہ نہیں تھا کچھ ان کا
فکر و فن یا علم و دانش کے وہ ادارہ تھے کوئی
این۔ سی۔ پی۔ یو۔ ایل۔ کے قائد تھے اگر تو میں ممبر
ساتھ جناب والا کے بھی طرزی کی تھی کچھ گذری
اس موقع پر ڈاکٹر انتخاب احمد ہاشمی ، حامد سبحانی ، حبیب اصغر، وسیم اختر کے علاوہ درجنوں لوگ شامل تھے۔آخر میں ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر کے اظہار تشکر کے ساتھ تعزیتی نشست کا اختتام ہوا۔