عالم اسلام کی قدیم ترین مسجد و دینی درسگاہ جامع ازہر میں مولانا واضح رشید حسنی الندوی کی غائبانہ نماز جنازہ اور ان کے لئے دعائے مغفرت

 قاہرہ : (ملت ٹائمز) گزشتہ کل بروز جمعہ مصر کی راجدھانی قاہرہ میں واقع ایک ہزار سال پرانی مسجد اور دنیا کی قدیم ترین دینی وعالمی درسگاہ جامع ازہر میں دارالعلوم ندوة العلماء کے معتمد تعلیم اور مایہ ناز ادیب و مفکر مرحوم حضرت مولانا واضح رشید حسنی ندوی کی غائبانہ نماز جنازہ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی، اس موقع پر شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب کے خصوصی مشیر اور جامعہ ازهر کے مؤقر استاذ و نگراں جامع ازہر پروفیسر ڈاکٹر محمد مھنا نے مرحوم کی وفات کو علمی وادبی دنیا کے لئے ایک ناقابل تلافی خسارہ قرار دیا، اور کہا کہ ان کی تحریریں بہت ہی اعلی فکر کی حامل ہوتی تھیں، اور مغرب کی اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں کو وہ بہت ہی دلکش اور اچھے انداز میں پیش کرتے اور وہ عالم اسلام کے ممتاز ادیبوں میں سے تھے۔

بعد نماز جمعہ جامع ازہر میں زیرِ تعلیم دارالعلوم ندوہ کے فارغین اور ہندوستانی طلبہ اکھٹا ہوئے اور قرآن پڑھکر ان کے لئے ایصالِ ثواب اور ان کے رفع درجات کے لئے دعا کی ۔

اپنے تعزیتی پیغام میں قاہرہ میں مقیم قدیم ترین ندوی اور جامعہ عین شمس کے پروفیسر ڈاکٹر عبد المجید ندوی ازہری نے مولانا کی وفات پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا بہت ہی بلند پایہ ادیب تھے، عالم اسلام کے چنندہ ادیبوں میں سے تھے، میرا ان سے بہت ہی گہرا تعلق تھا جب وہ مصر تشریف لاتے تو میرے غریب خانہ کو زینت بخشتے، اور قیام کے دوران ان کی سادگی اور انکساری قابل دید ہوتی، اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

اسی طرح جامعہ ازہر کے شعبہ اسلامک اسٹڈیزفیکلٹی آف لینگویجیز کے مؤقر استاذ ڈاکٹر عزیر احمد ندوی نے کہا کہ مولانا بہت ہی اعلی فکر کے حامل تھے، ان کی عربی تحریریں عالم عرب میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی، ان کی تحریریں ایمانی جذبے اور حمیت سے سرشار ہوتیں، اللہ ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

اس موقع پر ریسرچ اسکالر و معاون استاذ شعبہ اسلامک اسٹڈیز فیکلٹی آف لینگویجز جامعہ ازہر قاہرہ مصر مولانا فضل الرحمن ندوی ازہری نے مرحوم کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مرحوم جہاں عربی زبان و ادب کے کہنہ مشق شہسوار تھے وہیں ان کی شخصیت بہت ہی دلآویز تھی، وہ سادگی اور انکساری کی انوکھی مثال تھے، وہ حضرت مولانا علی میاں نور اللہ مرقدہ کے خاص تربیت یافتہ افراد میں سے تھے، وہ اپنی تحریروں میں اسلام کی بالادستی اور اس کی ہمہ گیریت و ابدیت اور دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود کے لئے صرف اسلام ہی کے کار آمد ہونے کو بہت ہی خوبصورتی اور دلکش انداز میں پیش کرتے ، ان جیسی علمی شخصیت مدتوں میں پیدا ہوتی ہے۔

جامع ازہر میں بعد نماز جمعہ منعقد تعزیتی مجلس میں شرکت کرنے والوں میں جنید ندوی ریسرچ اسکالر جامعہ ازہر، فراز کوثر ندوی ،سرفراز عالم ندوی، اشفاق عالم ندوی، مکرم علی قدوائی اور عبد الاحد رحمانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔