قبرستانوں کی کمی: ایک سنگین مسئلہ!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لئے زندگی کی راحت کے ساتھ ساتھ موت کی مشقت بھی رکھی ہے، بادشاہ ہو یا رعایا، حاکم ہو یا محکوم، مالدار ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل، مرد ہو یا عورت اور طاقتور ہو یا کمزور، کوئی نہیں جوموت کی آزمائش سے بچ جائے، اللہ کے نیک بندوں کو بھی اس سے چھٹکارا نہیں ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد بہت جلد انسان کا جسم سڑ گل جاتا ہے، اگر اسے ٹھکانے نہ لگایا جائے تو ناقابل برداشت تعفن پیدا ہو جائے گا؛ اسی لئے انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے مُردہ کے لئے آخری رسوم کا سلسلہ جاری ہے، کچھ قومیں لاش کو جلا دیتی ہیں، بعض قومیں گِدھوں یا درندوں کے حوالہ کر دیتی ہیں اور زیادہ تر قوموں کے یہاں مردہ کو دفن کرنے کی روایت رہی ہے، اور یہی طبی اعتبار سے بھی سب سے بہتر طریقہ ہے، آگ میں جلانے کی وجہ سے ماحول میں آلوگی پیدا ہوتی ہے، اور مردہ کی بے احترامی بھی ہوتی ہے، جانوروں اور درندوں کے لئے یوں ہی لاش چھوڑ دی جائے تو اس میں بھی دونوں خرابیاں موجود ہیں؛ اس لئے مٹی میں دفن کرنے کا طریقہ ظاہری اعتبار سے بھی ایک محفوظ طریقہ ہے اور یہ فطرت کے مطابق ہے۔
مٹی میں تدفین کا پہلا واقعہ خود حضرت آدم علیہ السلام کی حیات طیبہ میں پیش آیا، جب ان کے بیٹے قابیل نے ان کے نیک وصالح صاحبزاے ہابیل کا قتل کر دیا، قابیل نے قتل کرنے کو تو کر دیا؛ مگر اب یہ بات سمجھ میں نہ آتی تھی کہ اس کی لاش کو کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے اس کی رہنمائی کے لئے ایک کو ّا بھیجا، جس نے زمین کرید کر اس میں ایک مرے ہوئے کو ّے کو ڈال دیا، اور مٹی سے چھپا دیا، ہابیل نے مسئلہ کا حل سمجھ لیا اور شرمندہ بھی ہوا کہ کیا میں اس کو ّے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ جو بات اس نے سمجھ لی، وہ بھی میں سمجھ نہ سکا (مائدہ: ۳۱) تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی تدفین کعبۃ اللہ سے لگے ہوئے ’’ حطیم‘‘ کے حصہ میں ہوئی تھی (تاریخ الرسل والملوک للطبری: ۱؍۳۱۴) معلوم ہوا کہ یہ فطری طریقہ ہے، جو انسانِ اول سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے جاری ہے، اور قدیم ترین دور سے یہی معمول رہا ہے؛ چنانچہ یہودیوں کے یہاں بھی تدفین کا یہی رواج ہے، عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تین دنوں کے لئے سولی چڑھانے جانے کے بعد زمین میں دفن کئے گئے؛ اگرچہ آج کل یوروپ میں مُردوں کو جلانے کا رواج ہو گیا ہے؛ لیکن یہ ان کی مذہبی تعلیم کے مطابق نہیں ہے، ہندو بھائیوں کے یہاں بھی شنکر اچاریہ اور بعض اعلیٰ مذہبی رہنمائوں کو دفن کیا جاتا ہے، اسلام نے بھی تدفین کے طریقہ کی تعلیم دی ہے اور اس کی مصلحت ظاہر ہے کہ مٹی کے اندر آلودگی کو جذب کرنے اور گندگی کو تحلیل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے، زمین کے سینہ میں کتنے ہی مردار اور بے شمار گندگیاںدفن ہیں، اگر ان کو کسی اور جگہ جمع کر دیا جاتا تو تعفن وآلودگی کی وجہ سے شاید روئے ارض پر انسان کا رہنا مشکل ہو جاتا؛ لیکن مٹی کی اس غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے زمین کے اوپر اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ جیسے زندگی میں انسان کا احترام کرنا واجب ہے، اسی طرح موت کے بعد بھی اس کا احترام واجب ہے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میت کی ہڈی کو توڑنا ایسا ہی ہے، جیسے زندگی میں کسی انسان کی ہڈی توڑ دی جائے: کسر عظم المیت ککسر عظم الحی (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۶۱۶) اسی لئے غلو اور مبالغہ سے بچتے ہوئے قبر کے احترام کی خاص طور پر ہدایت فرمائی گئی ہے، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کی قبر پر چلنے کے مقابلہ مجھے یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ میں آگ کی چنگاری یا تلوار پر چلوں، اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کے درمیان قضائے حاجت کی جائے یا بیچ بازار میں، دونوں برابر ہیں (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۹۷۰) شاید کسی زمانہ میں اور کسی علاقہ میں جنازہ اٹھا کر لے جانے کو معمولی کام سمجھا جاتا رہا ہو، اس پس منظر میں بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ جنازہ کو اٹھا کر لے جانا کوئی نیچا کام نہیں ہے؛ بلکہ یہ نیکی، اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری اور مرنے والے مسلمان کا اعزاز واکرام ہے، اور صحابہ وتابعین اور بعد کے ارباب علم وفضل اس عمل کو انجام دیتے رہے ہیں: لیس فی حملھا دناءہٌ ……… الخ ((شرح المہذب: ۵؍۲۷۰)
فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جنازہ کو قبرستان تک لے جانا اور دفن کرنا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے: واعلم أن أصل الحمل والدفن فرض کفایۃ (حاشیہ الطحطاوی : ۶۰۳) علامہ ابن عربی مالکیؒ اس ذمہ داری کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مردہ کی تدفین کی اولین ذمہ داری رشتہ داروں پر ہے، پھر قریبی پڑوسیوں پر، اس کے بعد عمومی طور پر تمام مسلمانوں پر، یہاں تک کہ اگر کسی غیر مسلم کا انتقال ہو جائے تو یہ اس کا بھی حق ہے ……… وھو حق فی الکافر أیضا (احکام القرآن لابن عربی: ۲؍۸۶) گویا یہ اسلامی حق ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حق بھی ہے، جو بحیثیت انسان ایک شخص کا دوسرے پر واجب ہوتا ہے۔
اسی لئے مسلمانوں کے یہاں ہمیشہ سے قبرستان کے وقف کا رواج رہا ہے اور فقہاء نے جیسے مساجد کے وقف کے احکام بیان کئے ہیں، اسی طرح قبرستان کے وقف کے احکام بھی ذکر کئے ہیں، امام ابو حنیفہؒ کے دو ممتاز شاگرد — جن کی آراء کو فقہ حنفی میں بڑی اہمیت حاصل ہے، یعنی امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ — ان کے نزدیک تو کسی زمین کے متعلق صرف کہہ دیا جائے کہ یہ زمین ہم نے قبرستان کے لئے وقف کی تو اسی سے وہ زمین وقف ہو جائے گی؛ لیکن امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قبرستان کا وقف اس وقت مکمل ہوگا، جب وہ کسی کو قبرستان کا منتظم (متولی) بنا دے، یا قبرستان میں کسی مردہ کو دفن کر دیا جائے، اب یہ جگہ ہمشہ کے لئے وقف ہو جائے گی: والتسلیم فیھا بالتسلیم إلی المتولی أو بدفن الموتی (ہندیہ: ۶؍۳۷۴) ایک دفعہ جب یہ جگہ قبرستان بن جائے گی تو یہ ہمیشہ کے لئے قبرستان ہو جائے گی؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ قبرستان کے لئے وقف کا جو دستاویز بنایا جائے، اس میں جگہ اور اس کی حدود وضاحت سے لکھی جائیں اور لکھ دیا جائے کہ یہ مسلمانوں کا قبرستان ہے، وہ اس میں کسی بھی وقت اپنے مردہ کو دفن کر سکتے ہیں، نہ ان کو مردہ کی تدفین سے روکا جا سکتا ہے اور نہ اس میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جا سکتی ہے ……… یدفنون فیھا موتاھم وفی کل وقت وأوان أبدا لا یمنعون من ذلک ولا یحال بینھم وبینھا الخ (ہندیہ: ۶؍۳۷۴) اگر قدیم قبرستان ہو، جس میں قبر کے آثار بھی مٹ گئے ہوں، تب بھی اہل محلہ کے لئے اس جگہ سے تدفین کے علاوہ کوئی اور نفع اٹھانا جائز نہیں، زیادہ سے زیادہ اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر اس میں گھاس ہوئی ہو تو جانوروں کے چارہ کے طور پر اسے خرچ کیا جائے: مقبرۃ قدیمۃ بمحلۃ لم یبق فیھا آثار المقبرۃ الخ ( تاتارخانیہ: ۸؍۱۸۹-۱۹۰) چہ جائے کہ زیر استعمال قبرستان بھی دوسرے کاموں میں یہاں تک کہ ذاتی استعمال میں لیا جائے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آبادیاں بڑھ رہی ہیں، ایک زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ ۸۰؍ فیصد لوگ دیہاتوں میں بستے ہیں، اور ۲۰؍ فیصد شہروں میں؛ لیکن اب دیہی آبادی کا سیلاب شہروں کی طرف امڈا آرہا ہے؛ اس لئے کم سے کم پچاس فیصد آبادی تو شہر میں بستی ہے، یہ مختلف علاقوں اور خاندانوں کے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے باہمی ربط وتعاون کی بھی کمی پائی جاتی ہے، یہ اور مختلف اسباب کا نتیجہ ہے کہ شہروں میں مُردوں کی تدفین ایک دشوار مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جینا تو مشکل تھا ہی، اب مرنا بھی مشکل ہو گیا ہے، ابھی ماضی قریب میں ایسے واقعات پیش آچکے ہیں کہ قبرستانوں میں جگہ مہیا نہ ہونے کی وجہ سے ایک مسلمان لاش جلا دی گئی، ایک اور جگہ مسلمان کی لاش شمشان گھاٹ میںدفن کر دی گئی؛ اس لئے علماء، مشائخ اور مذہبی وسیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری اہمیت کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کریں اور اس کا حل تلاش کریں۔
غور کیا جائے تو قبرستانوں کی جگہ تنگ ہونے کے چند بنیادی اسباب ہیں:
۱۔ پہلا سبب یہ ہے کہ جیسے نئی آبادیوں میں لوگ مسجدوں اور مدرسوں کی فکر کرتے ہیں، یہاں تک کہ کالونی بنانے والے بھی ان مقاصد کے لئے زمین رکھ کر پلاٹنگ کرتے ہیں، اسی طرح کالونی بسانے والوں کو چاہئے کہ قبرستان کے لئے بھی زمین مخصوص کریں، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کالونی شہر کے اندر بسائی جاے اور شہر سے باہر اس کالونی کا قبرستان بنایا جائے، شہر سے باہر زمین سستی مل جاتی ہے، پلاٹنگ کرنے والے اس زمین کو خریدیں، اس کی احاطہ بندی کریں اور زمین فروخت کرتے ہوئے قیمت لگانے وقت اس کو ملحوظ رکھ کر پلاٹ کی قیمت لگائیں، عجب نہیں کہ گاہگوں پر یہ سہولت واضح کی جائے تو لوگ زیادہ رغبت سے پلاٹس خرید کریں۔
۲۔ دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ اِس وقت قبرستانوں پر جو ناجائز قبضے کر لئے گئے ہیں، اس کو ہٹایا جائے، مشکل یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ، جن کے دل میں ذرا بھی خدا کا خوف نہیں ہے؛ اس لئے وہ وقف کی زمینوں کو بچانے کے بجائے پیسے لے کر ناجائز قابضین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، یہاں تک کہ وقف کی حفاظت جس ادارہ کی ذمہ داری ہے، عدالت میں اس کے نمائندے قصداً اپنے مقدمہ کو کمزور کر لیتے ہیں، کاغذات غائب کر دیتے ہیں، ثبوت مہیا نہیں کرتے، اور جان بوجھ کر مقدمہ ہارتے ہیں؛ اس لئے ضروری ہے کہ خود عوام کے اندر قبرستان کے ناجائز قبضوں کے خلاف تحریک پیدا ہو، عوام خود اٹھ کھڑے ہوں اور ایسے لوگوں کا گریبان تھام لیں، پولیس سے اور محکمہ اوقاف سے اس بات کی توقع رکھنا بے فائدہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی اَملاک کو بچائیں گے، یہ کام خود مسلمانوں کو کرنا ہوگا۔
۳۔ وقف اسلام کی ایک اہم سنت ہے، مسلمانوں کے زمانۂ اقتدار میں اس کا عام مزاج تھا، لوگ خدمت خلق کے مختلف شعبوں کے لئے زمینیں اور مکانات وقف کیا کرتے تھے، کثرت سے مسافر خانے بنے ہوئے تھے، جس میں بلا امتیاز مذہب وملت سفر کرنے والے قیام کیا کرتے تھے، وقف کے طور پر پُل بھی بنائے جاتے تھے، اور اصحاب خیر اپنی طرف سے اس خدمت کو انجام دیتے تھے، فقہ کی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے، یہاں تک کہ پرندوں کی رہائش اور غذا کے لئے بھی اوقاف قائم تھے، اور مساجد وقبرستان کے لئے تو وقف کی بڑی بڑی جائدادیں ہوا کرتی تھیں، اگر ہ م اپنے ملک کی قدیم مسجدوں کو دیکھیں تو ہر مسجد کے تحت زمین کا وسیع رقبہ موجود تھا، جس سے خدام مسجد کی کفالت ہوتی تھی اور نماز پڑھنے والوں کو مختلف سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں، مگر افسوس کہ وقف کی املاک کو جتنا نقصان دوسروں سے پہنچا، اس سے زیادہ اپنوں سے پہنچا ہے اور آج ھی اس کا سلسلہ جاری ہے، حد تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے ویران مسجدوں کی بھی فروخت کر دیا، نہ انہیں اللہ کے بندوں سے شرم آئی اور نہ اللہ سے، زیادہ تر ناجائز قبضون ہی کے نتیجہ میں قبرستان کا دامن تنگ ہو گیا ہے۔
اس پس منظر میں قبرستان کے لئے نئے اوقاف کی ضرورت ہے، اصحاب خیر کو اس کی طرف توجہ دینی چاہئے، شہر کے اندر اگر قبرستان کے لئے زمینیں وقف کی جائیں تو یہ بہت اعلیٰ درجہ کی بات ہے؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اب بڑے شہروں میں افتادہ زمینیں نہیں ملتیں، اور قبرستان کے لئے وسیع قطعۂ زمین کی ضرورت پڑتی ہے؛ اس لئے اگر شہر سے باہر عام قبرستان کے لئے زمینیں وقف کی جائیں تو یہ بھی بہت بہتر صورت ہوگی؛ کیوں کہ شہر سے دور کشادہ زمین بھی مل جاتی ہے، اور قیمت بھی کم ہوتی ہے، نیز سواری کی سہولت کی وجہ سے جنازہ دور لے جانا بھی بہت دشوار نہیں ہوتا؛ بلکہ لوگ اب اس کے عادی ہو چکے ہیں، اس پر افراد کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تنظیموں کو بھی کہ وہ عام قبرستانوں کے لئے وسیع اراضی حاصل کر کے قبرستان کے لئے وقف کریں اور قبرستان پر بورڈ لگا دیا جائے کہ یہ عام قبرستان ہے، کسی خاص محلہ یا خاندان کا قبرستان نہیں ہے، اس میں کسی بھی مسلمان کی تدفین ہو سکتی ہے۔
۴۔ ہندوستان ایسا ملک ہے ، جس کے چپہ چپہ پر اولیاء اور صلحاء مدفون ہیں، لوگوں نے عقیدت ومحبت میں ان کی قبروں پر خوبصورت عمارتیں بنا دی ہیں، بادشاہوں اور جاگیر داروں کی طرف سے بھی ان مقابر کو ڈھیر ساری زمینیں دی گئی ہیں، ان مقبروں کے احاطہ میں ذاکرین یکسوئی کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے تھے، بازاروں اور آبادیوں کے ہنگاموں سے دور تسبیح وتلاوت کا اہتمام کیا جاتا تھا، اور تزکیہ واحسان کی خدمت انجام دی جاتی تھی؛ مگر جیسے ہر شعبہ میں زوال آیا، یہ شعبہ بھی اس سے بہت زیادہ متأثر ہوا؛ بلکہ اپنے اصل مقصد سے بہت دور ہوگیا، اس کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ درگاہوں میں قبر کی زمین فروخت کی جانے لگی اور لوگ بزرگوں کی خوابگاہ سے قرب حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی رقمیں ادا کرنے لگے، پھر یہ وباء آگے بڑھی اور ہر قبرستان کے متولی نے اپنے زیر تولیت قبرستان کو ذریعۂ معاش بنا لیا، یہ بہت ہی افسوس ناک صورت حال ہے اور کھلے طور پر خدا ناترسی کا مظہر ہے، یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی مسجد میں نماز پڑھنے کا معاوضہ وصول کرنے لگے، یہ یقیناً حرام و ناجائز طریقہ پر لوگوں سے پیسہ وصول کرنا ہے، متولی وقف کا منتظم ہوتا ہے، وہ اس کا مالک نہیں ہوتا، ہاں اگر وہ قبر کی کھدائی وغیرہ کا انتظام کراتا ہو تو اس کی مزدوری وصول کر سکتا ہے۔
۵۔ قبرستانوں کے تنگ پڑنے کا ایک بنیادی سبب پختہ قبریں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے، اس پر کچھ لکھنے، اس پر عمارت بنانے اور اس پر چلنے سے منع فرمایا ہے، ( ترمذی عن جابر، حدیث نمبر: ۱۰۵۲) حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے، (مسلم حدیث نمبر: ۹۷۰، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۰۲۸)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مختلف اہل بیت اور صحابہ جنت البقیع میں دفن کئے گئے، ان سب کی قبریں کچی تھیں؛ چنانچہ پہلے صحابی جو اس قبرستان میں دفن کئے گئے، وہ حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفن کرنے کے بعد قبر کے سرہانے میں صرف ایک پتھر رکھ دیا، (مستدرک حاکم عن ابی رافع: ۳؍۲۰۹، حدیث نمبر: ۴۸۶۷) یہ پتھر اس لئے رکھا گیا تھا کہ لوگوں کو اندازہ ہو جائے کہ یہاں قبر ہے اور لوگ یہاں چلنے سے اجتناب کریں۔
۶۔ قبر کو کچی رکھنے کی برکت ہے کہ امام مالکؒ کے بقول (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی) مدینہ میں تقریباََ دس ہزار صحابہ اور اہل بیت کی وفات ہوئی اور یہ سب جنت البقیع میں دفن کئے گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی نسبت وتعلق کی وجہ سے لوگوں کو خیال ہوا کہ ان کو کہاں دفن کیا جائے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عام قبرستان میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے قریب دفن کرنے کا حکم دیا (خلاصۃ الوفاء باخبار دارالمصطفی: ۲؍۳۶۳) اور آج تک جنت البقیع میں تدفین کا سلسلہ جاری ہے، خود ہندوستان میں جن شہروں میں اور جن قبرستانوں میں اس حدیث پر عمل کیا جاتا ہے کہ قبریں پختہ نہ ہوں، اور ان پر عمارتیں نہ بنائی جائیں، وہاں زمانہ دراز سے تدفین کا سلسلہ جاری ہے اور کبھی جگہ کی تنگی محسوس نہیں کی گئی؛ اس لئے جو نئے قبرستان بنائے جائیں، ان کے بارے میں بورڈ پر ہدایت لکھ دی جائے کہ یہاں قبر کو پختہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی، کچی قبر ہی کی اجازت ہوگی۔
۷۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ قبروں کا حکم وہ نہیں ہے، جو مسجدوں کا ہے، یعنی جس جگہ مسجد بنا دی گئی، وہ قیامت تک کے لئے مسجد ہے، چاہے وہ جگہ ویران ہو گئی ہو، قبریں جب پرانی اور بوسیدہ ہو جائیں تو ان قبروں کو اسی طرح باقی رکھنا ضروی نہیں، اگر ضرورت پڑے تو اسی جگہ دوسرے مردہ کو دفن کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں کہ پہلے سے جو قبربنی ہوئی ہو، دوسرے مردہ کو اس میں دفن نہیں کیا جائے گا؛ البتہ دو صورتوں میں کیا جا سکتا ہے، ایک یہ کہ پہلی قبر پرانی ہو گئی ہو، اور اب ہڈیاں بھی باقی نہ ہوں: ولا یحفر قبر لدفن آخر إلا أن بلی الأول فلم یبق لہ عظم، دوسری صورت یہ ہے کہ ہڈیاں تو ابھی باقی ہوں؛ لیکن نئی لاش کی تدفین کے لئے قبرستان میں کوئی جگہ نہیں مل رہی ہو، اس صورت میں پرانی قبر کی ہڈیوں کو جمع کر کے قبر کے ایک حصہ میں اس طرح رکھ دیا جائے کہ ان ہڈیوں اور نئی لاش کے درمیان کچھ مٹی رکھ دی جائے: إلا أن لا یوجد فتضم عظام الأول ویجعل بینھما حاجز من تراب (ردالمحتار: ۲؍۲۳۳) فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے وقف کی زمین میں قبر کھدوائی اور جگہ کی کمی کی وجہ سے دوسرا شخص اس میں اپنے مُردہ کو دفن کر دے تو ایسا کر سکتا ہے، (فتاویٰ تاتارخانیہ: ۸؍۱۹۰، کتاب الوقف) اس لئے جو قدیم قبرستان ہیں، ان میں پرانی قبروں کے اندر بھی تدفین ہو سکتی ہے۔
غرض کہ مُردوں کی تدفین کا مسئلہ نہایت اہم ہے، اور یہ تمام مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے، مختلف اسباب ہیں، جن کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے، جن میں چند اہم باتیں یہ ہیں کہ آبادیاں بسانے والے قبرستان کا انتظام نہیں کرتے، خود مسلمانوں نے قبرستانوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں، ان کو ختم ہونا چاہئے، قبرستان کے لئے نئے اوقاف قائم کرنا چاہئے، اصحاب خیر اور مذہبی تنظیموں کو اس میں آگے بڑھنا چاہئے، سنت کے مطابق کچی قبروں کو رواج دینا چاہئے، قبروں کی خریدوفروخت بہت ہی ناروا عمل ہے، اور مال حرام حاصل کرنے کی ایک نہایت قبیح اور بدترین صورت ہے، اس سے بچنا چاہئے، جب قبریں پرانی ہو جائیں تو ان ہی میں دوبارہ مُردوں کی تدفین کرنی چاہئے، اگر مسلمانوں نے اس جانب توجہ نہیں دی اور دشواریاں بڑھتی گئیں تو عجب نہیں کہ فرقہ پرست عناصر اس کو ایک نیا ایشو بنا دیں اور مسلمانوں سے یہ مطالبہ شروع ہو جائے کہ آپ بھی مُردوں کو جلانا قبول کر لیجئے؛ تاکہ قبرستان کی اس کمی کا علاج ہو سکے، اللہ نہ کرے کہ ایسا وقت آئے!

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں