ماب لنچنگ: کوئی علاج ہے؟

قاسم سید 

” وہ لوگ جن کی پتر بھومی (فادر لینڈ) اور پنیہ بھومی (مقدس زمین) ایک نہیں ہے ان کو اکثریتی فرقہ کے رحم وکرم پر زندہ رہنے کا حق دیاجائے گا اور وہ لوگ یاتو قومی دھارے یا اکثریتی فرقہ کے تہذیبی ورثہ کو پوری طرح قبول کرلیں اور اس میں ضم ہوجائیں بصورت دیگر شہری حقوق سے محروم ہوکر اکثریت کی مرضی اور صوابدید پر منحصر رہیں ‘‘ ہزاروں سال سے رواداری ہندوستانی تہذیب کی شناخت ہے اس کا چہرہ ہے جس پر ثقافتی راشٹر واد کا مکھوٹا لگاکر اصل چہرہ بنانے کی کوشش آزادی کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی ۔ یہ الفاظ ضرور بابائے آرایس ایس گرو گولوالکر کے ہیں لیکن اس کی فکری جہات کا پرتو کانگریس سمیت ہر سیکولر پارٹی میں کہیں کم کہیں زیادہ ضرور رہا ہے۔ آنجہانی اندراگاندھی کی ایک ہزار سالہ غلامی سے آزادی والی تقریر ہو یا پھر راجیو گاندھی کے زمانہ میں بابری مسجد کا تالہ کھلا اور نرسمہاراؤ کے دور اقتدار میں پانچ سو سال پرانی مسجد کی مسماری‘ گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی ہو یا دلتوں اور قبائلیوں کے حقق کی پامالی کم وبیش ہر پارٹی منو شاستر کے برہمنی نظام میں جکڑی ہوئی ہے کمزور پسماندہ اقلیات و طبقات اس کا خاص نشانہ ہمیشہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات اوراب ماب لنچنگ کی حکمت عملی بدلتے حالات کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کو اکثریتی فرقہ کے تہذیبی ورثہ کو پوری طرح قبول کرلینے‘ اس میں ضم ہوجانے پرمجبور کرنا ہے ایک اور متبادل بھی کھلا رکھا ہے وہ یہ کہ شہری حقوق سے محروم ہوکر اکثریت کی مرضی اور صوابدید پر منحصر رہیں۔ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہئے کہ آزادی کے بعد قائم سرکاروں کی روش اور آر ایس ایس کی صبر آزما دورس حکمت عملی کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں بھول ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ حالات کے جبرنے ہمارے سامنے اور کوئی راستہ نہ چھوڑا ہو کہ نہاد نہاد سیکولر پارٹیوں کا تجربہ کرتے رہیں باوجود اس کے کہ کوئی گدے پر لٹاکر مارتا تو کوئی سنگلاخ پتھریلی زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر یا ٹرین میں معمولی کہا سنی کے بعد نوخیر لڑکے پر چھریوں سے پے درپے وار کرکے تڑپتا بلکتا چھوڑ دیتا ہو اور جدید ٹیکنالوجی کا بخوبی استعمال کرکے اس کا ویڈیو بناکر مزید خوف و دہشت پھیلانے کے لئے سوشل میڈیاپر وائرل کرنے کا سفاکانہ عمل ہو۔

فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ملک کی معاصر تاریخ کا سب سے گھنائونا چہرہ ماب لنچنگ ہے۔ اس میں روز بروز نئی تکنیک اور تجربے کئے جارہے ہیں۔ اس نے انسانی بربریت درندگی اور دہشت کا نیازون قائم کیا ہے۔ اس حکمت عملی کے پس منظر میں گروگولوالکر کے نئے طے کردہ عمرانی اصول ہیں اور موجودہ حالات 125 سال کی کڑی ذہن سازی اور فکری تربیت کا نتیجہ ہے کہ جو ہمارے ثقافتی ورثہ سے ہم آہنگ نہ ہووہ ہمارادشمن ہے اور اب تو صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ ملک وقوم کا دشمن وغدار ہے ۔ عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے سائنسداں‘ تجزیہ کار‘ صحافی سیاستد اں کو سیاسی فکر سے اختلاف پربھی ملک کا غدار اور پاکستانی ایجنٹ کہنے میں تکلف نہیں کیاجاتا اس فکری رجحان کی کمان خود محترم وزیراعظم نے سنبھال لی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ان کی جارحانہ تقاریر ہندومسلم خلیج کو حوصلہ دینے والی باتیں مخالفین کو پاکستان کا دوست اور آرمی کادشمن کہنے میں ڈھکے چھپے الفاظ کا سہارا لینے کا اہتمام بھی طاق پر رکھ دیاگیا ظاہر ہے یہ پیغام نچلی صفوں تک جاتا ہے اورجارہا ہے۔ مرکزی وزیر لنچنگ بازوںکا استقبال کرتے ہیں۔ انہیں ٹکٹ دینے کا مطالبہ ہوتا ہے وہ اسٹیج پر معززین بناکر بلائے جاتے ہیں۔ بھینس کا گوشت بیچنے والے ستر سالہ بزرگ کی آسام میں پٹائی کا جو سب سےخطرناک پہلو ہے وہ یہ کہ جنونی بھیڑنے انہیں زبردستی خنزیر کا گوشت کھلایا اور اس کے ٹکڑے نگلنے پر مجبور کیا۔ ورنہ جان سے مار دینے کی دھمکی دی ۔ یہ ٹرینڈر اگر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی شروع ہوگیا تو اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

لنچنگ اچانک انجام دیاجانے والا اضطراری اور ہیجان انگیز جذباتی قدم ہے یا سوچی سمجھی منظم منصوبہ بندی اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن سول سوسائٹی کے علاوہ سماج کے عام لوگوں کی خاموش اور سرکار کی نیم دلانہ کارروائی تشویش میں اضافہ کرنے والی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی حکمت عملی ا ب موثر نہیں دوسرے اس میں دونوں فریقوں کا کم یا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ دونو ںہی متاثر ہوتے ہیں مگر لنچنگ یکطرفہ عمل ہے جس میںایک شخص کو گھیر کر ہاتھ پیر توڑدیتے ہیں اور کبھی جان سے مار دیا جاتا ہے۔ اس کا نکتہ آغاز تھا پھر پونہ‘ راج سمند‘ چتورگڑھ‘ بلبھ گڑھ‘ ہاپوڑ‘ رام گڑھ‘ گریڈیہہ‘ کروکشیتر‘ جموں‘ دادری‘ ستنا‘ پلول‘ سے ہوتاہوا آسام تک پہنچ گیا جہاں گؤ کشی قانونا جائز ہے یعنی گائے صرف بہانہ ہے اخلاق‘پہلو خان‘محسن شیخ‘ افضل‘ مظلوم انصاری‘ عثمان انصاری‘ اشفاق‘ کامل رضوان‘ لقمان‘ سراج خاں وغیرہ کے ساتھ ستر سالہ بزرگ شوکت علی کا نام جڑ گیا ہے۔

مسلمان امن پسند ہے اسے ملک کے آئین اور قانون پر بھروسہ ہے۔ اس نے گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کا سکھوں کی طرح انتقام نہیں لیا۔ بابری مسجد کی مسماری پر تیس سال بعد بھی عدالتی کارروائی کے انجام تک پہنچنے کا منتظر ہے۔ ہاشم پورہ کا قتل عام ہو یا نیلی میں نسل کشی‘ گجرات کا خوفناک فساد ہو یا مظفرنگر کا سرکاری اسپانسرڈ فساد‘ اس نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا اس کے صبر اور بھروسہ کا بار بار امتحان کیوں لیا جاتا ہے۔ اکثریتی ثقافتی ورثہ میں ضم ہونے سے انکار کی بھیانک ترین سزائیں جھیلنے کے بعد بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ نوجوانوں کی رگوں میں لہو ابل رہا ہے لیکن ضبط کئے بیٹھا ہے۔ کیا اس کا کوئی علاج ہے یا نہیں صرف خاموش اور صبر ہی واحد راستہ ہے۔ اللہ کی مدد آنے ابابیلیں اترنے کا انتظار کیا جائے یا سیاسی غلطیوں کو سدھارا جائے۔

بظاہر اس کا صرف ایک علاج ہے صبر و استقلال کے ساتھ مظلومین مستضعفین کے ساتھ سیاسی یکجہتی۔ ہم نے ہمیشہ ظالموں کی ہاں میں ہاں ملائی ان کے ہاتھ مضبوط کئے مظلوم فرقوں کو اپنے قابل نہیں سمجھا۔ ان سے دوری بناکر رکھی جبکہ ان پر بھی ظلم کم نہیں ہوئے۔ یہ الیکشن ہمیں اس پہلو پر سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔ شوکت علی کی کرب بھری آنکھوں میں اپنی ملت اور زعما سے یہی سوال ڈول رہا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں