مجلس وہاں نہیں جاتی جہاں پہلے سے ایسی کوئی پارٹی موجود ہوتی ہے؟

معاذ مدثر قاسمی
بھارت میں مسلمانوں کی سیاست کے تعلق سے یوں تو وقتاً فوقتاً آوز اٹھتی رہتی ہے کہ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے سیاست میں مسلمانوں کو جومقام ملنا چاہئے تھا وہ آزادی کے بعد سے اب تک مل نہیں سکا ، بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو مسلمان سیاسی اعتبار سے روز بروز کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمان سیکولر جماعت کہی جانےوالی سیاسی پارٹیوں کے سہارے جیتےآرےہیں، مگر نتیجہ بالکل عیاں ہے۔ اس آواز میں مزید تقویت اس وقت آجاتی ہے جب کوئی الیکشن قریب آتا ہے۔
یہ حقیت ہے کہ جب بھی کوئی الیکشن قریب آتاہے تو سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے، کبھی بی جے پی سے ڈرا کر تو کبھی پارٹی میں موجود مسلم لیڈر کے نام پر ووٹ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمیشہ مسلمانوں کی ترقی کی بات کی جاتی ہے مگر جب مسلمان کو حق دینے کی بات آتی ہے تو یہی سیکولر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے دستبرداری اختیار کرجاتی ہیں ۔ اگر کوئی مسلم قیادت سیاست میں آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اسے مختلف الزامات لگاکر سائڈ لگا نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب تک مسلمان سیکولر سیاسی پارٹیوں کے سہارے جیتے آرہے ہیں، مگر نتیجہ اس کا بالکل صفر ہے۔
ابھی بہار کا الیکشن قریب ہے۔ اس کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے۔ کئی پارٹیاں سیاسی باز ی گری دکھا نے کے لیے ہمیشہ کی طرح میدان میں اتر ہوچکی ہیں۔ بہار کے اس الیکشن میں دگر پرانی پارٹیوں کے ساتھ کئی اور نئی پارٹیاں بھی سرگرم عمل دکھائی دے رہی ہیں، جس میں ایم آئی ایم اور ایس ڈی پی ایس جیسی مسلم قیادت والی پارٹیاں بھی میدان میں پنچہ آزمائی کررہی ہیں۔ ایک طرف کانگریس اور آرجے ڈی کا اتحاد ہے ، تو دوسری طرف جے ڈیو اور بی جے پی کا الائنس ہے، وہیں ایک ایم آئی ایم ، ایس ڈی پی ایس اور جن ادھیکار کا تیسرا محاذ ہے ۔
ہمیشہ سے فریب کے شکار، ، سیاسی طور پر بیک فٹ پر ڈالے گئے مسلمان کنفیوزن کے شکار ہیں کی آخر کس کو ناخدا سمجھیں۔
انہیں مدعوں پر ملت ٹائمز نے سماجی اور سیاسی شخصیات کے ایک گروپ کے ساتھ ایک لائیو ڈبیٹ کیا، ان سے جاننا چاہا کہ آخر مسلمانوں کی سیاسی ترقی کیسے ممکن ہے؟ اس ڈبیٹ میں معروف تجزیہ نگار اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر مفتی اعجاز ارشد قاسمی، سوشل ڈیموکریٹک آف انڈیا کے قومی سیکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی، سوشل ایکٹویسٹ، کانگریس رہنما انجینئر محمد اسلم اور ایم آئی ایم کے لیڈر بلیغ نعمانی نے شرکت کی ۔
ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مولانا شمس تبریز قاسمی نے ایس ڈی پی ایس کے رہنما ڈاکٹر تسلیم رحمانی سے جاننا چاہا کہ
جب بہار میں تقریباً چھ سالوں سے ایم آئی ایم ہے تو پھر ایس ڈی پی ایس کو وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے تو اس پر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کا کہنا تھا کی ملک میں تقریباً 29 سو سیاسی پارٹیاں رجیسٹرڈ ہیں اور ہر ایک کو اپنی منشاء کے مطابق کسی بھی صوبے میں الیکشن لڑنے کا حق ہے۔ اورجب ہم بہار کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں دو ہی الائنس ہیں، کانگریس ،آرجے ڈی اور بی جے پی و جے ڈی یو، تیسرے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے اسپیس کو روکا جاتا ہے یہ سیاسی بلیک میلنگ ہے۔
اس سوال پر کہ مسلم لیڈر شپ کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ حالانکہ اب تک مسلمان سیکولر پارٹیوں کے ساتھ لڑتے آرہے تھے، اس پر مفتی اعجا ارشد قاسمی نے کہا کہ ہم جو مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ رہے ہیں، اس کے ذمہ دار یہی سیکولر سیاسی پارٹیاں بھی ہیں، اگر حالات اور تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات حقیقت بن کر سامنے آتی ہے مسلم قیادت کی سیاسی پارٹی ہو مگر وہ سیکولرزم کی بنیاد پر ہو، اس میں صرف مسلمانوں کی بات نہ ہو ، بلکہ ا سمیں ملک کے تمام لوگوں کے لیے یکساں حق ہو، ملک کا سیکولر تانا بانا اس سے متاثر نہ ہو، یعنی ایسی پارٹی ہو جو تمام طبقے کو ساتھ لیکر چلے۔ صرف مسلمانوں کی بات کرنا اور دگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ تصادم کی صورت ہو تو یہ ملک کے مزاج کے خلاف ہے۔
انجینیر محمد اسلم کا ماننا ہے کہ مسلمان کسی سیاسی پارٹی کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر خود اپنے اندر سیاسی شعور اور بصیرت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم پر تو جہ دیں ۔
بلیغ نعمانی نے مسلم قیادت والی سیاسی پارٹی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ
‘اگر ہم پورے ملک میں دیکھیں جہاں مسلم اکثریت آبادی ہے جیسے بہار کے سیمانچل کو لے لیں، وہاں نسبتا زیادہ بدحالی ہے۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ ان علاقوں کو قصداً نظر انداز کیا جاتا ہے۔ تو کب تک سیکولر پارٹی کے سہارے رہا جائے۔ اب ضرورت ہے مسلم قیادت پارٹی کی۔ ایم آئی ایم کے نام کے ساتھ گرچہ مسلم کا الحاق ہے، مگر یہاں صرف مسلمانوں کی بات نہیں ہوتی، بلکہ دستور کی بات ہوتی ہے، اسی کو لیکر چلتے ہیں’۔
ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ ایک طبقہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کے بجائے مسلمانوں کو کانگریس جیسی سیکولر سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دینا چاہیے ، جبکہ یہ مشاہدہ ہے کہ کانگریس کیرلا مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کرتی ہے اور آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کے ساتھ آتی ہے، حالانکہ کانگریس مولانا اجمل کی پارٹی کو بے جے پی کی بی ٹیم کہتی رہی ہے۔ جب بھی کوئی نئی پارٹی آتی ہے تو یہ سیکولر پارٹی بے جے پی کی ٹیم بتا کر سائڈ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔تو ایسی صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
اس پر ڈاکٹر تسلیم نے کہا کہ ہم گزشتہ چالیس سال سےدیکھتے آرہے ہیں کہ اسّی فیصد سیکولر پارٹیاں بی جے پی سے ڈراکر مسلمانوں سے ووٹ مانگتی ہیں اور الیکشن کے بعد بی جے پی سے ہاتھ ملالیتی ہیں۔ اس لیے اب نئے محاز کو موقع ملنا چاہیے، ہمارا اتحاد بہار میں کئی چھوٹی پارٹیوں سے ہوا جس میں پپو یادو کی پارٹی بھی شامل ہے اور مزید اتحاد کی طرف قدم بڑھارہے ہیں تاکہ بہار کی عوام کو ایک مضبوط متبادل دیا جاسکے۔
اس سوال پر کہ ایم آئی ایم پر الزام رہتا ہے کہ جہاں مسلمان زیادہ رہتے ہیں وہیں اپنے امیدوار کھڑا کرتے ہیں، جس سے مسلم ووٹ بٹ جاتا ہے، اس پر بلیغ نعمانی نے اویسی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں پہلے سے مسلم قیادت کی پارٹی کام کررہی وہاں ایم آئی ایم نہیں جاتی ہے، جیسے کیرلہ میں مسلم لیگ اور آسام میں یوڈی ایف، یہ پارٹیاں اپنے طور پر اچھا کام کر رہیں اس لیے ایم آئی ایم وہاں نہیں جاتی ہے۔