ملت اسلامیہ ہند کے عظیم ملی رہنما و قائد حضرت مولانا ولی رحمانی رحمہ اللہ کی رحلت سے مسلمانان ہند کو شدید دکھ پہنچا اور ناقابلِ تلافی نقصان ہوا، مسؤلہ ویمنس ونگ ڈاکٹر اسماء زہرہ کا تعزیتی بیان

حیدر آباد : حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کی ہمہ جہت بابصیرت حکمت و دانائی اور حوصلہ و ہمت و عزائم سے پر شخصیت تھی اسلامی علوم میں، ہر علوم، سیاست انتظامیہ حکومت قانون اور مسلمانوں کی تعلیمی معاشی سماجی صورتحال پر گہری نظر رکھتے تھے۔

اسلام دشمن طاقتوں اور شریعت کے مخالفین کو ہر وقت دندان شکن جواب دینے کی بھرپور صلاحیت تھی، مسلمانوں کا اتحاد برقرار رکھنے اور انہیں اجتماعی قوت میں ڈھالنے کے لیے مولانا نے بے پناہ جد و جہد کی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالنے کے چند ماہ میں ہی مسلم دشمن سیاسی پارٹی نے مسلمانوں سے شدید معاندانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے تین طلاق کا مسئلہ، بابری مسجد کی اراضی کو مندر کے حوالے کرنے کے علاوہ یونیفارم سول کوڈ جیسے مسائل میں مسلمانوں کو گھیرا اور حضرت کو ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا پڑا۔
ایسے وقت میں جبکہ الزام تراشیوں اور حکومت کے پیرو ہونے کا عام الزام ملی قائدین پر لگ رہا تھا، ایسے نازک وقت میں تمام مسالک مدارس مکتبۂ فکر اور جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے متحد رکھنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔
آپ کی روحانی علمی دینی ملی خدمات ملت کے تمام طبقات اور گروہوں کے لیے ہوا کرتی تھی۔ کسی گاؤں میں چلے جاتے تو مسلمانوں کے درمیان خوشی کی لہر اور جشن کا منظر ہوتا تھا۔ آپ نے اپنی خانقاہ مونگیری سے بھی اصلاح رشد و ہدایت کا کام کیا اور جامعہ رحمانی کے ذریعہ کئی طلبہ میں دینی شعور بلند کرتے ہوئے مکاتب کا معیار بلند کیا۔
اس کے علاوہ حضرت مولانا نے رحمانی 30 کے نام سے جو عصری تعلیم بالخصوص IIT ،  IAS  کے مسابقتی امتحان میں غریب اور متوسط خاندانوں کے طلبہ میں دلچسپی پیدا کرکے پورے ملک میں نام روشن کیا۔ ہند کے غیر مسلموں کے اعلی تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی آپ کے عصری تعلیم کے قائم کیے گئے رحمانی 30 کے نتائج کو دیکھیے وہ تعریف و تحسین سے گریز نہیں کرتے۔
حضرت مولانا مرحوم نے خواتین کے اندر اسلامی تحریک کی روح پھونکی اور اصلاح معاشرہ کے لیے ملک کے طول و عرض میں ایک منظم جد و جہد کا آغاز کیا، جتنے حضرات مولانا مرحوم کے وصال سے متاثر ہیں، ان سے کئی زیادہ خواتین میں رنج و ملال کا ماحول دیکھا جارہا ہے۔
مولانا محترم کی تحریکات میں دین بچاؤ دستور بچاؤ تحریک (save constitution, save deen)، دستخطی مہم (signature campaign)، جس میں 5 کروڑ دستخطیں وصول ہوئی مسلم پرسنل لاء کی تائید میں، تحفظ شریعت تحریک، خواتین کے مظاہرہ اور ریلیز اور بابری مسجد کیس میں عدالتی کاروائی جس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے بہترین پیروی کی گئی اور عدالت میں تمام دستاویز پیش کیے گئے۔ بابری مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آیا لیکن تمام وکلاء نے حضرت کی قیادت میں جو محنت کی وہ کسی سے چھپی نہیں۔
مولانا محترم نے مسلمانوں کو اس جمہوری ملک میں جینا سکھایا اور اپنے ایمان اور شناخت کے ساتھ دستوری حقوق حاصل کرنے کا سلیقہ اور طریقہ بتلایا۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کا نعم البدل اس ملت کو عطاء کرے اور یہ جگہ کسی مناسب بے لوث مخلص قابل قیادت سے پورا کرے، اور مولانا محترم کی ہر منزل آسان فرمائے اور جنت کے اعلی درجہ میں ان کا مقام فرمائے۔