منشی سجاد حسین: حاجی بغلول کا ہندوستان ، ۲۰۲۰ کا ملک زعفران

مشرف عالم ذوقی
’میں اپنی قوم کو آسمان کی مانند کرنا چاہتاہوں جو رات کے وقت ہم کو دکھائی دیتا ہے۔ جب میں رات کو آسمان دیکھتا ہوں تو میں اس کے اس حصہ کو جو نیلا نیلا سیاہ ڈر اونا دکھائی دیتا ہے کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا مگر ان ستاروں کو دیکھنا چاہتا ہوں جو اس میں چمک رہے ہیں اور معشوقانہ انداز کی چمک سے ہم کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اورجن کے سبب سے اس تمام سیاہ اور آسمان کو بھی عجیب قسم کی خوبصورتی حاصل ہوتی ہے ۔… اے صاحبو! کیا تم اپنی قوم میں اس قسم کے لوگ پیدا کیے بغیر، جو تمہاری قو م میں ایسے چمکتے ہوںجیسے آسمان پر تارے، اپنی قوم کو معزز اور دوسری قوموں کی آنکھ میں باعزت بناسکتے ہو۔‘‘
— سر سید احمد خان
حاجی بغلول : کیا سب بک چکے ؟
مسافر : ہاں
حاجی بغلول : اور دانشور ؟
مسافر ..: کہاں کے دانشور ..؟
حاجی بغلول : احتجاج کے لئے مرغے کی ٹانگ پکڑنے کی ضرورت نہیں . ایک راستہ ظرافت بھی تو ہے .میں نے اودھ پنچ نکالا اور انگریزوں کے دانت کھٹے کر دیے
مسافر : اہ .. میں سب بتاتا ہوں آپ کو یہ ۲۰۲۰ ہے دنیا تبدیل ہو چکی .. کچھ منظر دکھاتا ہوں آپ کو .
حاجی بغلول : ضرور
مسافر :اب ہندستان سے بین الاقوامی اور مغربی معاشرے تک سچ نہیں جھوٹ بکتا ہے۔ اچھی باتیں نیوز نہیں بنتیں، خوفناک اور ڈراؤنی خبریں خبر بن جاتی ہیں۔ میڈیا جانتا ہے، کیا فروخت کرتا ہے اور کیا فروخت ۵ کرنے سے ٹی آر پی بڑھتی ہے اور میڈیا کبھی جنس کا کاروبار کرتا ہے، کبھی دہشت اور وحشت اور باباؤں تک کے افسانے دن رات چلتے رہتے ہیں میڈیا نے گھر بیٹھے آپ کے اندر کی خوفناک بھوک کو جگا دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بھوک پہلے نہیں تھی۔ یہ بھوک ہمیشہ سے تھی، یہ بھوک جرم کی تھی۔ غلط راستوں کی طرف لے جاتی تھی۔ لیکن اس بھوک میں تشدد کی حد تک وہ وائرس نہیں آیا تھا، جس نے معصوم اور سبق آموز کہانیوں کی جگہ ۲۱ سے ۳۱ برس کے بچوں میں بھی سیکس کے انجکشن لگا دیئے اور گھر کے عام آدمی کو بھی اسی راستے پر ڈال دیا۔ ارتقا اور سائنسی ایجادات کی ریس میں ہم ایک طرف ماحولیات کی دوجن ویلی کی عصمت کی لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف ہماری تھذیب ہڑپا، موہن جداڑو، قدیم مصر، بے بی لون، بوتان اور روم کی طرف زوال آمادہ ہے۔ میڈیا نے ہمیں اس نظام یا معاشرے کا حصہ بنادیا ہے جہاں Disorder ہیں۔ مینٹل ڈس آرڈر۔ ہم ایک آئیڈینٹیٹی ڈس آرڈر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس مہذیب ترین دنیا میں جہاں بم پھٹ رہے ہیں۔ جنگیں ہورہی ہیں۔ آدھے ادھورے بچوں کی پیدائش ہورہی ہے۔ جہاں راکٹ لانچرس، میزائلس اور اٹیک نے انسانوں سے تحفظ چھین لیا ہے۔
حاجی بغلول غائب تھے . احمق الذی غائب تھا .شیخ چلی غایب تھا . کون تھے یہ لوگ ؟ منشی سجاد حسین ، کتنا جانتے ہیں آپ منشی سجاد حسین کو ؟
جب ملک بارود کے دہانے پر تھا ، ۱۸۵۷ کے شعلوں نے زمین سے اٹھ کر آسمان کا رخ کیا تھا .جب دھرتی بانجھ اور سورج سوا نیزے پر تھا ، جب خوف کی آندھیوں میں ہندوستان کا نقشہ دھند میں لپٹا تھا ، جب گنگا کی لہروں پر فرنگی گھوڑوں کا قبضہ تھا . وہ آیا ، اس نے دیکھا ، اس نے خنجر سے مسافر کی زبان تراشی اور قلم کو ظرافت کا آئینہ بنا لیا .وہ اٹھا ، تو سمندر کی موجیں آسمان کا رخ کرتی تھیں . اس کی ظرافت آتش فشاں کی مانند ، کہ اودھ پنچ کے شمارے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی آگ بن جاتے تھے ..
اودھ پنچ نے تاریخ ساز کردار ادا کیا .غلامی کے عہد کی تاریخ دو سو سال سے بھی زیادہ کی رہی ہے۔ انگریز حالانکہ بھارت میں تجارت کرنے کے لیے آئے تھے مگر ان کا ارادہ تھا — سونے کی چڑیا کہلانے والے اس ملک پر قبضہ جمانا۔ وہ کمزور ہوتی ہوئی مغلیہ سلطنت کا باریکی سے جائزہ لے رہے تھے۔ وجہ صاف تھی۔ یہاں کے باشندوں میں وہی تقسیم کرنے والی تہذیب کے جراثیم موجود تھے۔ آپسی رنجش، بھید بھاؤ اور تفریق۔ انگریز اسی کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستانی انگریزوں کی نیت سے واقف نہیں تھے بلکہ ان کے پاس اس کا کوئی کارگر مداوا بھی نہیں تھا۔ اس وقت بنگال کے نواب علی وردی خاں نے اپنے ولی عہد سراج الدولہ سے کہا تھا۔
”یہ انگریز بڑے چالاک ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنا۔ ایک دن آئے گا جب یہ یہاں راج کریں گے۔“
یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی — 1757 میں پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ کو ہرا کر انگریزوں نے بنگال میں اپنے پاوں پھیلا لیے۔ آہستہ آہستہ وہ سارے بھارت میں پھیلتے چلے گئے۔ ۲۰۰ برسوں کی ذہنی اور جسمانی غلامی کے بعد آزادی کا سورج نکلا بھی تو کیسا؟ ظلم کے اندھیروں سے راحت بھی ملی بھی تو کیسی ان ہی غیر ملکی کمپنیوں میں برطانیہ سے آنے والی ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ بھی ہے جسے مغل حکمراں جہانگیر کے عہد میں تجارت کی منظوری دی گئی، 1857کے غدر بعد حکومت برطانیہ نے ہندستانی حکومت کی باگ ڈور ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنے ہاتھ میں لے لی .صحافت پر خطرہ منڈرایا تو منشی جی نے مزاحمت کے لئے نیا طریقہ اختیار کیا ۔
اودھ پنچ 16 جنوری 1877 کو جاری ہوا اور 1934 میں بند ہو گیا، یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔
شیخ چلی ، احمق الذی ، حاجی بغلول ہزاروں کردار اور ہر کردار انگریزوں کی حکومت پر طمانچہ بن کر برستا تھا . مجھے اب بھی لگتا ہے ، سر سید نے جو کچھ کہا ، اس کے مستحقین میں سے ایک منشی صاحب بھی ہیں .سر وانٹس کا مشہور ناول ڈان کوئیکسوٹ مجھے یاد آ رہا ہے . یہ کمال کا ناول ہے اور اس کا مزاحیہ کردار آج بھی ظالموں سے پریشان عوام کی خوبصورت ترجمانی کرتا ہے .. حاجی بغلول کی طرح وانٹس کا کردار مجھے آج بھی یاد ہے . اسپین کے لا مانچہ کے ایک گاؤں . ملک کا ایک شریف آدمی .وہ کتابیں پڑھتا ہے . اور نائٹ ارینٹ بننے کا فیصلہ کرتا ہے . یہ ڈان کوئیکسوٹ ہے۔ اسے بکتر بند ، قدیم سوٹ ملتا ہے . وہ خاص طرح کے لبادے کو پسند کرتا ہے ۔ وہ جنگ کے لئے نکلتا ہے . ڈان کوئیکسوٹ کے مطابق اس کو پیار کرنے کے لئے ایک خاتون کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، اور وہ قریبی شہر کی ایک کسان لڑکی کا انتخاب کرتا ہے وہ بہادری کے کارنامے انجام دیتا ہے اور یہ کارنامے انتہایی مضحکہ خیز ہوتے ہیں . وہ ایک سرائے میں پہنچ گیا ،اسے یقین ہے کہ یہ ایک محل ہے ، اور اصرار کرتا ہے کہ اسے سیلوٹ کیا جائے . وہ ایک بادشاہ ہے اور ایک دن وہ اس جزیرے پر حکومت کرے گا۔
ایک زمانہ تھا جب حاجی بغلول کا نام ہر زبان پر تھا . بلکہ آج بھی کسی مضحکہ خیز شخصیت کو دیکھ کر لوگ پوچھ دیتے ہیں .. حاجی بغلول ہو کیا ؟ یہ کردار منشی جی کا شہرہ آفاق کردار ہے . ناول جب شایع ہوا حاجی بغلول کی دھوم مچ گئی . منشی سجاد حسین اردو زبان کے مشہور معروف ناول نگار اور لکھنؤ سے نکلنے اردو کے مشہور ہفت روزہ اودھ پنچ کے مدیر تھے . 1856ء کوکاکوری اتر پردیش، میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی منصور علی ڈپٹی کلکٹر تھے . 1877 میں منشی صاحب نے اردو کا مزاحیہ اخبار اودھ پنچ نکالا۔ مگر اصل میں وہ حاجی بغلول تھے .لکھنو کی تھذیبی زبان اور منشی صاحب کے تیرو نشتر . اودھ پنچ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ، وہ بھی تاریخ کا ایک حصّہ ہے .وہ ناول نگار تھے ، صحافی تھے . غلام ہندوستان میں جہاں بولنے لکھنے پر پابندی تھا ، وہاں ظریفانہ نثر اور کلام سے کام لینا آسان تھا . . ہندوستان اب ملک زعفران . کٹا پٹا ، ٹوٹا بکھرا ، اپاہج ، لنگڑا لولھا ہندوستان سامنے ہے . پیوند لگا ہندوستان . ایک زمانہ تھا جب منشی سجاد حسین جیسے با کمال تخلیق کار ، صحافی لفظوں سے تیرو نشتر کا کام لے رہے تھے . اور انگریزوں پر برق بن کر ٹوٹ رہے تھے .
پرانے قصوں اور داستانوں میں اکثر اس وزیر کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو دربار میں حاضر ہوکر شہنشاہ سے محو کلام ہوتا کہ اے شہنشاہ ، آپ کے لیے دو خبریں ہیں۔ ایک خبر اچھی ہے اور دوسری بری۔ اور یہ آپ بتائیں گے کہ پہلے کون سی خبر سنائی جائے— آج کی صحافت کے بارے میں غور کرتا ہوں تو یہی دو خبریں میرا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ اچھی خبر کا تعلق اس شیریں زبان سے ہے جس نے آغاز سے ہی جمہوری نظام میں مختلف تہذیبوں اور فرقوں کے اختلاط سے نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ قومی یکجہتی کو بھی فروغ دیا۔ جس کی نزاکت اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک عالم اس پر فدا تھا، اورغلامی کے پس منظر میں یہی زبان تھی جو ہندستانیوں کے حق کی جنگ میں سامنے تھی، اور حقیقتاً ملک کی تعمیر میں جو رول اردو کا رہا وہ کسی اور زبان کا نہیں رہا — قومی یکجہتی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ مولوی باقر نے اردو صحافت کے لیے جام شہادت نوش کیا . منشی سجاد حسین نے اوڑھ پنچ کے ذریعہ ذمہ دار صحافی کا حق ادا کیا .تاریخ گواہ ہے کہ 1857سے تقسیم ہند تک یہ اردو اخبارات ہی تھے جسکا ہر لفظ انگریزوں کے لیے بغاوت تھااور پھر تاریخ کی کتابوں میں وہ دن روشن ہوا، جو آزادی سے منسوب ہے اور غور کیجئے تو اس کے پیچھے اردو صحافت کے ناقابل فراموش رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت کے زیادہ تر انگریزی اخبارات انگریزوں سے وفاداری کا دم بھر رہے تھے اور علاقائی زبانوں سے نکلنے والے اخبارات کا دائرہ بہت حد تک محدود تھا — اور یہ قومی یکجہتی ہی تھی کہ منشی پریم چند اور منشی نولکشور، منشی سجاد حسین جیسے لوگوں نے آگے بڑھ کر حکومت برطانیہ کے خلاف جہاد چھیڑ دیا — منشی جی کے اخبارکے ایک مضمون میں انگریزی اخباروں کو ہندستان کی آستین میں سانپ تک کہا گیا۔ مکند لال، ایودھیا پرشاد، پنڈت کشن چند موہن، منشی گوپی ناتھ امن، صوفی انبا پرساد جیسے لوگ تھے جو مسلسل اخبارات کے ذریعہ انگریزوں سے لڑتے رہے تھے اور دوسری طرف عبد الرزاق ملیح آبادی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، مولوی احمد حسن شوکت، منشی محبوب علی، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمد اسمعیل علی گڑھی، مولوی جمیل الدین جیسی شخصیات بھی تھیں، جنہیں آزادی کی حمایت کے لیے انگریزی سرکار کا ظلم سہنا پڑ رہا تھا۔ قومی یکجہتی کی ایک زبان کو لے کر اس سے بڑی مثالیں اور کیا ہوسکتی ہیں۔ اور اس ملک کے لیے جہاں صوفی سنتوں کی صداؤں نے وحدت کے گیت گائے ہوں، جس سرزمین کو خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء، قطب الدین بختیار کاکی، حضرت امیر خسرو نے اپنے لہو سے سینچا ہو، جہاں ایک زبان نے دلوں میں گونجنے والی شاعری سے بلا تفریق مذہب وملت محبت کا درس دیا ہو، اور اس سے دو قدم آگے، یہ زبان تو محبت اور اتحاد سے پیدا ہوئی اور ہندستانی تہذیب وتمدن کے آنگن میں پروان چڑھی— اسی زبان نے ۱۸۵۷ میں انگریزوں کا لوہا لیا ۔ مسلسل انگریزوں کے خلاف بغاوت کا سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک انگریزوں کے قدم نہ اکھڑ گئے. اودھ پنچ میں مزاحیہ اور طنزیہ مضامین کے علاوہ نظمیں اور غزلیں بھی شائع ہوتی تھیں۔ان مشہور تصانیف میں حیات شیح چلی ،حاجی بغلول، طرح دار لونڈی، پیاری دنیا، احمق الذین، میٹھی چھری، کایا پلٹ اور حیات شیح چلی شامل ہیں ۔۔ حاجی بغلول منشی سجاد حسین کا ایسا کردار ہے جو سر وانٹس کے ڈانکویکسوٹ کی یاد دلاتا ہے . کھوجی بھی اردو کے اہم کومک کرداروں میں سے ایک ہے
ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا –اس دور میں معاشرے کی پرسکون سطح کے نیچے سیاسی اور سماجی بیداری کا جو کوہِ آتشیں سلگ رہا تھا وہ اس صدی کے نصف آخر میں دو بڑے ہنگاموں کی صورت میں نمودار ہوا۔ ان میں سے ایک ہنگامہ تو ۱۸۵۷ء کے غدر کے نام سے مشہور ہوا اور یہ ایک مٹتی ہوئی سلطنت کی آخری کروٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرا ہنگامہ آزادی کی وہ پُر امن جدوجہد ہے جو ایک نمایاں سیاسی اور سماجی بیداری کی پیداوار تھی اور جس کا سب سے بڑا مظہر وہ اخبار تھا جس نے ’’اودھ پنچ‘‘ کے نام سے نہ صرف اجنبی حکومت اور اجنبی تہذیب کو ہدفِ طنز بنانے کی سعی کا آغاز کیا بلکہ جس نے عام سوشل اور ملکی معاملات کے بارے میں بڑے بے باکانہ انداز میں الفاظ کا جامہ پہنایا۔اودھ پنچ کے لکھنے والے سر سید کی تحریک سے خوش نہیں تھے . مگر یہاں میں اس معاملے کو اٹھانا نہیں چاہتا .. اس کے قلم کی دھار کیا تھی ، اس کا ایک نمونہ دیکھئے . احمق الذین کا انتساب دیکھئے ..
یہ افسانہ
بکمال ظرافت و خندہ پیشانی
انسان کی حماقت کے نام نامی پر
جس کے قدموں کی برکت سے زندگی جینے کے لائق
اور دنیا رہنے کے قابل ہے
ہنسی خوشی معنون کیا جاتا ہے ..
اب اسی ناول کا آغاز دیکھئے .نثر دیکھئے . خوبی نثر پر دعا دیجئے ..
—- رات کا جوڑا دیر سے کھل چکا .لمبے لمبے گیسوؤں کی بالچھڑ شبنم کے عرق میں خوب بھیگ چکی
کالے ناگوں نے جھک کر اوس چاٹ لی .چودہویں کا چاند پچھم کی طرف جھک کے عرق کافور کی طرح ہوا ہوا چاہتا ہے ….
ناول میں ہر سو یہی موسیقی حاوی . سیاست، اودھ پنچ کا سب سے اہم نشانہ اور منشی جی ٹریگر ایسا دباتے تھے کہ گولی ادھر ادھر نہیں جا کر سیدھے نشانے پر لگتی تھی .۔ اودھ پنچ نے آزادی کے لئے قوم کو بیدار کیا . ۔ سیاست دانوں کی ذہنیت کا پردہ چاک کیا .. ایک آندھی تھی .. لیکن اب ایسی آندھیاں کہاں ہیں ؟ اس نے طنز و ظرافت سے شعلے اٹھائے اور ایوان سیاست کو جلا ڈالا .اور اب ..ملک زعفران .. کٹا پٹا ہندوستان .. لولھا لنگڑا ہندوستان .. گنگا کہاں ہے ؟ ہمالیہ کی عظمت کیا ہوئی ؟ زمین کم کیسے ہو گیی ؟ ووٹ کا سودا کیوں ہونے لگا ؟ ایجنسیاں فروخت کیوں ہو گئیں ؟ ریلوے ، ائیرپورٹ بک کیوں گئے ؟ ملک گم ہو گیا .. زمین گم ہو گیی ..
میں آواز دیتا ہوں ..منشی جی.. حاجی بغلول ، شیخ چلی ، جاہل الذین .. میرا ملک گم ہو رہا ہے .. اود ھ پنچ کہاں ہے ؟
سناٹا ..خاموشی ..ویرانی .. اب یہاں کویی نہیں ، کویی نہیں آئے گا …