مولانا آزاد کی تہذیبی و سیاسی بصیرت: آج کے تناظر میں

پروفیسر اختر الواسع
مولانا آزاد (پیدائش مکہ مکرمہ ۱۱نومبر ۱۸۸۸:وفات دہلی ۲۲فروری ۱۹۵۸ء)کو تاریخ کے ایک ایسے لمحے میں پیدا ہوئے جب ساری دنیا ایک زبردست سماجی، اقتصادی، سیاسی اور تہذیبی کش مکش سے دو چار تھی۔ تاریخ و تہذیب کا ایک عہد ختم کر دوسرا دور شروع ہو رہا تھا۔ یہ اتھل پتھل سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یورپ میں ظاہر ہو رہی تھی جہاں ایک طرف سلطنت عثمانیہ کی صورت میں اسلامی تاریخ کا ایک خاص زمانہ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اور یورپ کی ساری طاقتیں اس زوال میں شریک تھیں اور اسے تیز تر کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ساری اسلامی دنیا میں مغرب مخالف جذبات کا ایک حشر برپا تھا جس کی گونج سب سے زیادہ ہندوستان میں سنائی پڑ رہی تھی۔ اسی کے ساتھ یورپ کی مختلف طاقتیں خود آپس میں بھی برسرِ پیکار تھیں جس کا سبب صنعتی انقلاب اور نو آبادیات کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی وہ مسابقت تھی جو سیاسی مفادات کے تصادم کی شکل میں ظاہر ہو رہی تھی۔ یہ تصادم اور کشمکش بہت جلد پہلی عالمی جنگ کی صورت میں سامنے آئی۔ تہذیبی سطح پر یہ انیسویں صدی کی بے قید عقلیت پرستی کے نشے کے اتار کا زمانہ تھا۔ جس کے نتیجے میں ساری مغربی تہذیب زبردست سماجی انتشار اور روحانی فساد میں مبتلا ہو گئی تھی۔
اس وقت ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف ایک زبردست محاذ آرائی کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ گاندھی جی جنوبی افریقہ سے وطن واپس آچکے تھے اور انہوں نے آزادی کے جذبات کو عوامی آرزوؤں کے ساتھ جوڑ کر انہیں ایک طوفان کی شکل دینی شروع کر دی تھی۔ کانگریس گاندھی جی کی قیادت میں تحریک آزادی کو ملک کے تمام لوگوں کی مشترکہ جد و جہد کی صورت میں آگے بڑھا رہی تھی جس کی نظریاتی بنیاد پُر امن اور عدم تشدد پر مبنی مزاحمت تھی۔ دوسری طرف کئی اور نظریاتی موقف بھی تھے جن میں سے کچھ انگریزوں کے خلاف مسلح جد و جہد پر یقین رکھتے تھے تو کچھ مذہبی احیاءپسندی کی بنیاد پر ہندوستانی قومیت کو صرف اکثریتی فرقے تک محدود رکھنا چاہتے تھے ۔ اسی کے ساتھ سوشلسٹوں کا ایک گروہ تھا جو تاریخ و تہذیب کی مارکسی فہم کی بنیاد پر ملک میں ایک اقتصادی انقلاب کے خواب دیکھ رہا تھا
مولانا آزاد انہی ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی مختلف اور متضاد آرزوؤں اور آوازوں کے زور کے درمیان اپنی دانش اور بصیرت کی خاموشی اور تنہائی میں اپنے لیے ایک ایسی فکری اور عملی جد و جہد کا خاکہ مرتب کر رہے تھے جو انہیں جدید ہندوستان کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش مقام دلانے والی تھی۔ یہ خاکہ ان کے اس وجودی اور روحانی وجدان کے قلم سے مرتب کیا جا رہا تھا جس کا خمیر ایک برتر اور صالح عقلیت اور گہری باطنی مذہبیت کی ایک متوازن ترکیب سے اٹھا تھا۔انہوں نے یہ کام ترجمان القرآن کے ذریعے انجام دیا جسے بلا شبہ ان کی علمی و فکری اور روحانی بصیرتوں کا نقطۂ عروج کہا جا سکتا ہے۔ ترجمان القرآن میں مولانا آزاد نے اسلام کے آفاقی انسانی وحدت اور پر امن بقائے باہم کے پیغام کو بنیاد بنا کر مذہب کو ایک زبردست حر کی قوت کی طرح پیش کیا جو انسان کی زندگی میں جاری ہو جائے تو وہ تمام تعصّبات اور امتیازات سے بالاتر ہو کر ایک عالمگیر انسانی برادری کا حصہ بن جاتا ہے۔ اپنی اس قرآنی تفسیر میں مولانا نے اسلام کی بخشی ہوئی آزادی کی اس آگ کو از سر نوروشن کیا جس نے انسان کو پہنائی گئی تمام زنجیروں کو پگھلا کر رکھ دیا تھا اور جس کے بعد انسان صرف اپنے رب کی غلامی کے سوا اور کسی کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔بقول مولانا آزاد :
” گورنمنٹ کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم مسلمان سچے مسلمان ہو جائیں تو جس قدر اپنے نفس کے لیے مفید ہوں اتنا ہی گورنمنٹ کے لیے نیز اسی قدر اپنے ہمسایوں کے لیے۔اس کو بھولنا نہیں چاہئے کہ اگر ہم سچے مسلمان ہوں تو ہمارے ہاتھ میں قرآن ہوگا اور جو ہاتھ قرآن سے رُکا ہوا ہو وہ بم کا گولہ یا ریوالور نہیں پکڑ سکتا۔ البتہ یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اسلام نے ہم کو آزادی بخشنے اور آزادی کو حاصل کرنے دونوں کی تعلیم دی ہے ہم جب حاکم تھے تو ہم نے آزادی دی تھی اور اب ہم محکوم ہیں تو وہی چیز طلب کرتے ہیں“۔
اس زمانے تک ملک کے سماجی اور سیاسی حالات اس مرحلے میںآپہنچے تھے جب یہ بات یقینی ہو گئی تھی کہ ہندوستان کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد اور مشترک جد و جہد ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری اسلامی بصیرت کی روشنی میں کہا کہ: ”ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ فرض شرعی ہے کہ وہ ہندوستان کے ہندوؤں سے کامل سچائی کے ساتھ عہد و محبت کا پیمان باندھ لیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک نیشن ہو جائیں …. میں مسلمان بھائیوں کو سنانا چاہتا ہوں کہ خدا کی آواز کے بعد سب سے بڑی آواز جو ہو سکتی ہے وہ محمد کی آواز تھی۔ اس وجود مقدس نے عہد نامہ لکھا۔ بجنسہ یہ اس کے الفاظ ہیں انھا امۃ واحدة ہم ان تما م قبیلوں سے جو مدینے کے اطراف میں بستے ہیں صلح کرتے ہیں اور ہم سب مل کر ایک امت واحدة بننا چاہتے ہیں امت کے معنی ہیں قوم اور نیشن اور واحد کے معنی ہیں ایک۔
مولانا آزاد کی یہ آواز کسی سیاسی جبر یا مصلحت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اسلام کے اصل پیغام اخوت اور قرن اولیٰ کی اسلامی تاریخ کی روشنی میں قائم کردہ مذہبی و سیاسی موقف کا مظہر تھی جس نے بیسویں صدی کی تاریخ ہند میں انہیں ایک نہایت ممتاز سیاسی مفکر اور مدبر کی حیثیت سے قائم کیا۔ مولانا آزاد نے ہندوبرادران وطن کے ساتھ ایک متحدہ اور مشترکہ جد و جہد کے سلسلے میں مسلمانوں کے ایک طبقے کے اندیشوں کو ہدف بناتے ہوئے الہلا ل کے یکم ستمبر ۱۹۲۱ء کے شمارے میں تحریر کیا۔ ” مسلمانوں کی بڑی غلطی یہی ہے کہ وہ تعداد کی قلت و کثرت کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ تعداد کو قوی کرنا چاہتے ہیں مگر دلوں کو قوی نہیں کرتے۔ …. ہندوؤں سے تو ڈرنے کی ضرورت نہیں …. البتہ خدا سے ڈرنا چاہئے …… تم کو ہندوستان میں رہنا ہے تو اپنے ہمسایوں سے معانقہ کر لو اور زندہ رہنا ہے تو ان سے الگ رہنے کا نتیجہ دیکھ چکے…. اگر ان کی طرف سے رکاوٹ ہے تو اس کی پرواہ مت کرو …. قومیں اگر تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتیں تو تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو“۔
متحدہ قومیت پر مولانا آزاد کا یہی ایقان تھا جس نے انہیں مسلم لیگ کی علاحدگی پسندانہ سیاست کا سب سے بڑا حریف بنا دیا۔ ان کے نزدیک پاکستان کا تصور ایک ایسی شکست خوردگی کی علامت تھا جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتی۔ انہوں نے اس سلسلے میں پوری جرا¿ت کے ساتھ اپنے موقف کا بار بار اعلان کیا۔ وہ کہتے ہیں:
” اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے تو پاکستان کی اصطلاح ہی متضاد معلوم ہو تی ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک ہیں اور دوسرے ناپاک۔ پاک اور ناپاکی کی یہ ارضی تقسیم نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہے بلکہ اسلام کی روح کے منافی بھی۔ اسلام کسی ایسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ خود پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ خدا نے پوری دنیا کو میرے لیے مسجد بنا دیا ہے“۔
مولانا آزاد نے اپنی قرآنی بصیرت، اپنے روحانی وجدان اور تاریخی آگہی کی روشنی میں جس فکری اور عملی راستے کا انتخاب کیا تھا اس پر اپنے آخری دم تک قائم رہے۔ انہیں اس سلسلے میں طرح طرح کے الزامات کے نشتر جھیلنے پڑے۔ اپنے ہم خیالوں اور رفیقوں کی بے اعتنائی اور سرد مہری کے زخم سہنے پڑے، یہاں تک کہ ملک کی تقسیم کے بعد جسے روکنے کی انہوں نے سب سے زیادہ اور سب سے آخر تک کوشش کی وہ ایک گہری تنہائی کے حصار میں آگئے لیکن ان کے جانے کے بعد آنے والا ہر دن ان کے خیالات و افکار اور فیصلوں کی تصدیق کرتا جا رہا ہے اور وہ کل کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ بامعنی ہو گئے ہیں۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)