میرٹھ: ’کسان مہاپنچایت‘ کے دوران صحافی کا ملازمت سے دسبرداری کا اعلان، کہا- ’سچائی دکھانے سے روکا گیا‘

رکشت سنگھ نے بڑے مجمع کی موجودگی میں کہا کہ ’مجھے ہدایت دی گئی تھی کہ صبح جلدی پہنچ کر خالی کرسیاں دکھانی ہیں، میرے ضمیر نے اس کی گواہی نہیں دی، میں کسانوں کے ساتھ ہوں۔‘
میرٹھ: (آس محمد کیف) یوپی کے ضلع میرٹھ کے موانہ علاقہ میں منعقدہ کسان مہاپنچایت کے دوران ایک قومی نیوز چینل کے صحافی نے ملازمت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ رکشت سنگھ نامی یہ صحافی کسان تحریک کو لگاتار کور کر رہا تھا اور آر ایل ڈی کے لیڈر جینت چودھری کے سامنے اس نے نوکری چھوڑنے کا اعلان کیا۔ رکشت سنگھ نے بڑے مجمع کی موجودگی میں کہا کہ ’مجھے ہدایت دی گئی تھی کہ صبح جلدی پہنچ کر خالی کرسیاں دکھانی ہیں، میرے ضمیر نے اس کی گواہی نہیں دی، میں کسانوں کے ساتھ ہوں۔‘
رکشت نے بتایا کہ انہوں نے 12 ہزار کی نوکری سے شروعات کی تھی اور اب تک انہوں نے بینکنگ، فنانس، انشورنس وغیر پر رپورٹنگ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتے آیے ہیں اور ان پر کوئی کسی طرح کا الزام نہیں لگا سکتا۔ رکشت اس وقت 12 لاکھ کے سالانہ پیکیج پر ملازمت کر رہے تھے، جسے انہوں نے چھوڑ دیا۔
ایک ہندی چینل کے سینیر صحافی رکشت سنگھ نے کسان مہاپنچایت میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں اپنی نوکری سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ 15 برسوں سے صحافت کر رہے ہیں، ان کا مقصد حقیقت دکھانا ہے لیکن انہیں اس سے روکا جا رہا ہے، اس لیے وہ نوکری چھوڑ رہے ہیں۔ کسان پنچایت کے دوران انہوں نے کہا، ’’میں اس دن کا انتظار نہیں کر سکتا جب میرا بیٹا مجھ سے سوال کرے گا کہ باپو جب مکل میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی تھی تو آپ کیا کر رہے تھے۔‘‘
رکشیت سنگھ نے کہا کہ “شاید اس فیصلے کے بعد میرے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے، ایف آئی آر درج کی جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ سڑک پر کسی ٹرک کا بریک فیل ہو جائے! لیکن جب میرا بچہ مجھ سے پوچھے گا کہ باپو جب ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی تھی تو آپ کہاں تھے، اس وقت میں سینہ ٹھوک کر کہوں گا کہ میں کسانوں کے ساتھ کھڑا تھا۔‘‘
تجربہ کار صحافی آر پی تومر نے اس پر یہ کہتے ہوئے رد عمل ظاہر کیا ’’زمین پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو ہر طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹی وی اینکر جو کچھ پیش کر رہے ہیں وہ لوگوں کے غم و غصے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں حمایت پسندی ہے اور صحافت دم توڑ رہی ہے۔‘‘
نوکری چھوڑنے کے بعد کے امکانات اور اندیشوں پر بات کرتے ہویے انہوں نے کہا، “مجھے صحافت کے علاوہ کچھ اور آتا بھی نہیں، تو میں دکان بھی نہیں کھول سکتا اور نہ ہی کوئی کاروبار کرسکتا لیکن اب میں اپنے ضمیر سے سودا بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ وہ گھر کے اکلوتے لڑکے ہیں اور والد کئی سال پہلے انتقال ہو چکا ہے، گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بوڑھی ماں کی بھی ذمہ داری ہے لیکن وہ جو فیصلہ لے رہے ہیں وہ اس سے بڑا ہے۔
ادھر، یکے بعد دیگرے کسان مہاپنچایتوں سے خطاب کر رہے آر ایل ڈی کے نائب صدر جینت چودھری نے موانہ کے بھینسا گاؤں میں کہا کہ کسان کو بیوقوف سمجھنے کی بھول نہیں کرنی چاہئے۔ چودھری چرن سنگھ نے انگریزی میں بھی کتابیں لکھی ہیں۔ آج وہ صورتحال نہیں ہے کہ بل سمجھ نہ آیے، کسان ہر چیز کو سمجھ رہا ہے۔ حکومت عقل سلیم کا استعمال کرے اور تینوں قوانین کو واپس لے۔
جس وقت جینت چودھری موانہ میں کسان مہاپنچایت سے خطاب کر رہے تھے اسی وقت ان کے والد اور سابق مرکزی وزیر چودھری اجیت سنگھ باغپت میں کسانوں کی مہا پنچایت میں موجود تھے۔ یہاں اجیت سنگھ نے کہا کہ حکومت کسانوں پر زبردستی قانون مسلط کر رہی ہے۔ وہ طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے، جبکہ حکومت کا ہر قدم کسانوں کے مفاد میں ہونا چاہیے۔