پروفیسر ظفر احمد صدیقی مشرقی شعریات پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے تھے

شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی رحلت پر تعزیتی جلسے کا انعقاد

نئی دہلی: پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اردو، فارسی اور عربی پر غیرمعمولی دسترس رکھتے تھے۔ اتنی کم عمری میں اتنے اہم کارنامے انجام دینے کی نظیر ہمارے یہاں بہت کم ملتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی رحلت پر منعقدہ تعزیتی جلسے میں ممتاز ادیب و دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے کیا۔ مشہور شاعر اور نثرنگار پروفیسر خالد محمود نے گہرے رنج و ملال کے ساتھ کہا کہ ظفر احمد صدیقی ایک دقیقہ سنج محقق، مشفق استاد اور منکسر المزاج انسان تھے۔ ان سے مل کر علمی انکشاف کے معنی منکشف ہوتے تھے۔ انھیں مشرقی شعریات کا گہرا شعور تھا۔ پروفیسر شہپر رسول نے تعزیتی کلمات میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی علمی دیانت، خوش خلقی اور بین العلومی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کیا۔ صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کو شبلی شناسی، اسلامی علوم، عربی و فارسی روایات اور کلاسیکی شاعری کے حوالے سے اتھارٹی قرار دیا۔ پروفیسر مرحوم کے نہایت ہی عزیز پروفیسر احمد محفوظ نے ان کے علمی تبحر، عمیق و بسیط عربی دانی اور تحقیقی بصیرتوں کو سلام عقیدت پیش کیا۔ تعزیتی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ ہم ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو سند مانتے تھے۔ کلاسیکی سرمائے پر ہمارے زمانے میں ان سے زیادہ گہری نظر شاید ہی کسی کی ہو، اس حوالے سے وہ ہمارے استاد معنوی بھی تھے۔ غم و اندوہ کی اس فضا میں ڈاکٹر سرور الہدیٰ نے نہایت خلوص و محبت کے ساتھ ان کے علمی و ادبی کارناموں اور زبان پر زبردست قدرت کے علاوہ ان کی علمی کشادہ نظری کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے ان کی خورد نوازی اور فیض رسانی کے حوالے سے ان کو یاد کرتے ہوئے گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا۔ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے عزیز شاگرد ڈاکٹر مشیر احمد نے جذباتی کیفیت میں کہا کہ ان جیسا مشفق مربی، اصول پسند اور مثالی استاد ملنا بہت مشکل ہے۔

تعزیتی جلسے میں پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی اور ڈاکٹر شاہنواز فیاض بھی موجود تھے۔