کون ہے شرجیل امام؟

خرّم ملک
ہندوستان کے صوبہ بہار کی ایک مردم خیز بستی کاکو میں پیدا ہوئے، آئی آئی ٹی ممبئی سے کمپیوٹر سائنس میں بیچلر اور ماسٹرز ڈگری لی، اس کے بعد جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے جدید تاریخ میں ایم فل، پی ایچ ڈی کی،
آج شرجیل امام کو جیل گئے پورے 365 دِن یعنی ایک سال ہو گئے ۔
جی ہاں، آپ نے صحیح پڑھا پورا ایک سال گزر گیا اور وہ آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، اِن ایک سالوں میں وہ ہر پل زندگی سے جنگ کر رہا ہے، ایک جدوجہد خود کو بے قصور منوانے کی، ایک کوشش خود کو وطن پرست ثابت کرنے کی،
ایک اُمید با عزت بری ہونے کی،
لیکِن فی الحال
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

شاید ان اشعار سے ہم اُن کی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں، لیکن پھر بھی اس ملک کے قانون سے ہمیں امید ہے اور سب سے بڑھ کر ہمیں اس ربّ العالمین کی ذات سے پوری اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ یہ مرد مجاہد سرخرو ہو کر نکلے گا، کیوں کہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا، اور صحیح کے ساتھ اللہ کبھی غلط نہیں کرتا، اس انسان کی غلطی کیا تھی، اور جیل جانے کی بنیاد کیا تھی اس سے ہم سبھی اچھی طرح سے واقف ہیں، ایک 45 منٹ کا ویڈیو، جسے ایڈٹ کر کے دو یا تین منٹ کا بنایا گیا اور اسے بنیاد بنا کر موجودہ حکومت نے انہیں اینٹی نیشننل، غدار ملک، ملک توڑنے والا اور نہ جانے کن کن القاب سے نوازا تھا، ملک کے سبھی میڈیا چینلوں پر بریکنگ صرف اور صرف شرجیل امام ہی کی ذات تھی ۔
اُن کا آبائی وطن کاکو چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا تھا،
اسے سسٹم سے شکایت تھی، اُسے اپنی قوم کی بدحالی پر رونا آتا تھا، وہ پچھلے 72 سالوں کی حکومت سے ناراض تھا جس نے اس کی قوم کو صرف ٹھگا، استعمال کیا، وہ اُن فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا جس میں مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت مار دیا جاتا تھا، اُن کی ہنستی کھیلتی زندگی کو پل بھر میں غم اور ماتم میں بدل دیا جاتا تھا ۔
میں خود کو خوش قسمت مانتا ہوں کہ مجھے اس نوجوان سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہے، یہ 2019 کی بات ہے جب ہماری ٹیم نے SQY study circle کے بینر تلے پٹنہ میں پروفیسر عبدالباری صاحب پر یک روزہ پروگرام کیا تھا،اور انہیں ہم نے بحیثیت مقرر اور مہمان خصوصی کے طور پر بلایا تھا، یہ آئے اور جب انہوں نے بولنا شروع کیا لگا کہ کوئی بہت ہی بزرگ شخصیت ہو، جس نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے بلکہ ایک لمبی عمر کا تجربہ بھی بول رہا ہے، لیکِن یہ تو محض 30 سال کا نوجوان تھا، جوش و جذبے سے لبریز، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس پروگرام میں سی ایس ڈی ایس کے پروفیسر ہلال احمد صاحب بھی تھے، جس سے کچھ باتوں پر شرجیل بھائی سے اختلاف بھی ہو گیا تھا، چوں کہ پروگرام ہم نے ہے کیا تھا تو ہمیں ذرا پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا، کیوں کہ ہلال احمد ایک مشہور نام ہے، اور وہ کچھ باتوں پر شرجیل بھائی سے برا مان گئے جسے ہماری ٹیم نے کسی طرح مینیج کیا، یہ دو اعلیٰ علمی ہستیوں کے مابین کی بات تھی، جو ہونی بھی چاہیے، پروگرام کے اختتام کے بعد جب میں اُن سے ملا تو وہ مجھے اپنے گھر لے گئے،وہاں انہوں نے مجھے اپنی PhD کی تھیسیس دکھائی جس کا موضوع بہار میں فرقہ وارانہ فسادات تھا، اور وہ اسی پر کافی ریسرچ کر رہے تھے، اُن کا ایک موضوع حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا جنگ آزادی میں رول پر بھی تھا، پروگرام میں ہی ایک صاحب نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے اُنہیں بتایا تو وہ فوراً تیار ہو گئے، اس وقت وہ ایک عام سا لڑکا کرتا، ٹراوزر، اور ہوائی چپل میں تھے، میں نے ان سے کہا بھی کہ ارے بھائی کچھ ڈھنگ کا پہن لیجئے، تو کہنے لگے ارے میاں کپڑوں سے انسان کی پہچان نہیں ہوتی، اور ویسے ٹھیک ٹھاک تو پہنا ہوا ہے، ننگے تو نہیں ہیں نا، میں اُن کا یہ جملہ سن کر مبہوت سا ہو گیا، کہ اتنا قابل نوجوان اور اتنی انکساری، یہ نوازا گیا انسان ہے، یہ کوئی عام نہیں خاص انسان ہے،
اُن سے میری کئی بار مختلف موضوعات پر علمی گفتگو ہوتی رہی تھی، میں ہر بار اُن کی علمی لیاقت پر حیران ہو جایا کرتا تھا، اور خود کو تشنہ پاتا تھا، کیا کوئی انسان اتنا قابل اور ذہین بھی ہو سکتا ہے، دین و دنیا کے ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے تھے وہ، میں خود حافظ ہوں، عالمیت میں بھی تین سال تعلیم لی، با وجود اس کے میں حیرت و استعجاب کی حالت میں رہتا تھا، آنکھیں پھاڑے بس اُن کو سنتا رہتا تھا، قرآن کی آیات پر تفسیر و تشریح ہو یا احادیث کو کوٹ کر کے کسی بات کو سمجھانا ہو،آئے ہائے، ایسا لگتا تھا مانو کسی IIT Bombay اور جے این یو سے نکلا ہوا عام طالب علم نہیں بلکہ ندوہ یا دیوبند سے فارغ کوئی جید عالم دین ہو ، سی اے اے کے دوران انہوں نے بارہا اپنی تقریروں میں قرآن کی آیات کوٹ کی تھیں، جنہیں سب نے سنا ہوگا ۔
غرض کہ وہ نوازا ہوا انسان ہے، جِسے اللہ نے اپنے کس خاص کام کے لیے پیدا کیا اور وہ شاید وہ کام لے بھی رہا ہے، وہ اپنے سے چھوٹے کو کبھی بھی نام سے مخاطب نہیں کرتے، ہمیشہ کہتے” کیا میاں کیسے ہو جی” اُن کے لہجے میں ایک ایک بھائی،دوست، خیر خواہ کی جھلک ہوتی تھی۔
شاہین باغ کے لیے سب سے پہلے اگر کسی نے سوچا تو وہی انسان تھا، اور کافی بہتر طریقے سے وہ اس احتجاج کو آگے کی طرف بڑھا رہے تھے، پھر وہ منحوس دن بھی آیا جب پورے ملک کے ہر گھر کی ٹی وی اسکرین پر ایک ہی خبر گردش کر رہی تھی کہ شاہین باغ کا ماسٹر مائنڈ شرجیل امام بہار کے جہان اباد کے کاکو سے گرفتار، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اُنہوں نے خود کو پولیس کے حوالے کیا تھا، جس کا ذکر اُنہوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر بھی کر دیا تھا، تب شاہین باغ میں کئی لوگوں نے اُنہیں BJP کا ایجنٹ تک قرار دے دیا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک محترمہ اسٹیج سے اُن کو دلال کہ رہی تھیں، اور وہ دِن اور آج کا دن ، ہر روز اس کی ذہانت اس کال کوٹھری میں دم توڑ رہی ہے، لیکِن اس بندے کا ارادہ متزلزل نہیں ہوا ہے، اُن کے چھوٹے بھائی سے اکثر اُن کی خبر لیتا رہتا ہوں، ہر بار وہ انسان اپنے بجائے دوسروں کی خبر خیریت پوچھتا ہے۔
لیکن ایک شکایت اُن لوگوں سے ہے جو خود کو قوم کا رہنما بتاتے ہیں، یا وہ لوگ جو شرجیل امام سے اپنی رشتےداری جوڑتے ہیں، کیا اُن لوگوں نے نے کبھی کوئی ایسی کوشش کی جس سے ان کی محبت نظر آئے، کیا کوئی ایک احتجاج کیا؟ کیوں کہ مجھے تو نظر نہیں آتا، ہاں اُن کے کچھ قریبی لوگ اُن کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ جلد از جلد اُن کی رہائی ہو اور وہ آزاد فضاء میں سانس لے اور پھر سے اپنے علم کے موتی لوگوں کے بیچ بانٹ سکے، اور ہم سب اس کے علم سے فیض یاب ہوں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں