کیا کسان تحریک کا موازنہ تبلیغی جماعت سے کرنا ضروری تھا؟

سپریم کورٹ کے تبصرہ کے بعد لوگوں کے من میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ کہیں تبلیغی جماعت کا نام لے کر کسان تحریک کو بدنام کرنے کی کوئی سازش تو نہیں ہو رہی، یا پھر انھیں ہٹانے کا راستہ تو تلاش نہیں کیا جا رہا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ میں آج تبلیغی جماعت مرکز سے متعلق داخل ایک عرضی پر سماعت ہو رہی تھی جب چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنے ایک تبصرہ میں کہا کہ انھیں ڈر ہے کہیں کسان تحریک کا حال بھی تبلیغی جماعت جیسا نہ ہو جائے۔ اس تبصرہ کو بیشتر نیوز پورٹل نے شہ سرخی بنائی اور ایک بار پھر تبلیغی جماعت کے تعلق سے سوشل میڈیا پر تبصرہ شروع ہو گیا۔ اس درمیان ایسے سوال بھی اٹھے کہ کیا کسان تحریک کا موازنہ تبلیغی جماعت سے کیے جانے کی ضرورت تھی؟
ٹوئٹر پر ایک صارف نے سوال کیا ہے کہ یہ کیسی لاعلمی ہے! جب مختلف ہائی کورٹس کے ذریعہ تبلیغی جماعت کو بری قرار دیا جا رہا ہے، تو سپریم کورٹ کے ذریعہ کیا گیا تبصرہ تبلیغی جماعت پر ایک الزام کی طرح ہے۔ کچھ ایسے بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ کہیں تبلیغی جماعت کا نام لے کر کسان تحریک کو بدنام کرنے کی کوئی سازش تو نہیں ہو رہی ہے، یا پھر انھیں ہٹانے کا راستہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے حکومت سے تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گائیڈ لائن جاری کرکے کورونا پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی اقدام کیے جانے چاہئیں۔
دراصل کووڈ پروٹوکول نافذ ہونے کے بعد تبلیغی جماعت مرکز میں لوگوں کے جمع ہونے کے خلاف داخل ایک عرضی پر سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔ اس دوران سپریم کورٹ نے کسان تحریک پر فکر کا اظہار کیا۔ عدالت نے مرکز سے پوچھا کہ کیا کسان تحریک میں کووڈ-19 کے گائیڈ لائنس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا بوبڈے نے حکومت سے کہا کہ ’’بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے کو لے کر گائیڈ لائنس جاری کی جانی چاہیے۔ اگر احتیاط نہیں برتی گئی تو بیماری کے پھیلاؤ کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے حکومت سے تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’’حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اب کسان جمع ہو گئے ہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ انھیں کورونا سے کوئی خاص تحفظ حاصل ہے۔‘‘
(قومی آواز)