گوکل پوری کی جنتی مسجد مرمت و تزئین کے بعد نمازیوں کے حوالہ

یہ دوسری ایسی مسجد ہے جس میں آگ لگاکر شرپسندوں نے بھگوا جھنڈا لگا دیا تھا
اقتدار کیلئے نفرت کی سیاست ملک کیلئے انتہائی خطرناک: مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی: گزشتہ فروری میں دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں جو بدترین فسادہوا اس میں جانی ومالی نقصان ہی نہیں ہوابلکہ فرقہ پرستی کے جنون میں شرپسند عناصرنے بہت سی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی تھی، ان میں آگ لگائی گئی تھی اور اندرگھس کر اشتعال انگیز نعرے بازیاں بھی کی گئی تھیں، گوکل پوری میں واقع جنتی مسجد ایسی دوسری مسجد ہے جس کو فسادکے دوران نذرآتش کردیا گیاتھا، شرپسندوں نے اسی پربس نہیں کیا تھابلکہ اس کے دونوں میناروں پر بھگوا جھنڈا لگا دیا تھا، اس کی تصویریں تمام اخبارات میں شائع ہوئی تھیں اور سوشل میڈیاپر بھی اسے خوب وائرل کیاگیا تھا، مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء صوبہ دہلی کے رضاکاراور اراکین فسادکے دوران لوگوں کی مذہب سے اوپر اٹھ کر مددکررہے تھے اور جہاں کہیں سے کسی ناخوشگوارواقعہ کی اطلاع ملتی تھی تو انتظامیہ اور پولس کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرکے جمعیۃعلماء ہند کے لوگ اس علاقہ میں فوراپہنچ جاتے تھے چنانچہ جب جنتی مسجد کے تعلق سے خبریں عام ہوئی توجمعیۃعلماء دہلی کے ذمہ داران کا ایک وفدپولس کی معیت میں فوراوہاں پہنچ گیا اورمسجد کو جھنڈے سے پاک کرایا، قابل ذکر بات یہ ہے کہ گوکل پوری ایک ہندواکثریتی علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کے گنے چنے مکانات ہی ہیں،چنانچہ جیسے ہی حالات قدرے معمول پر آئے جمعیۃعلماء ہند نے مسجدوں کی مرمت کے کام کو خاص طورپر اولیت دی،آج تیسرے مرحلہ میں جنتی مسجد کے چاروں منزلوں کی تعمیر، مرمت اور تزئین کاری کے بعداب مسجد مقامی مسلمانوں کے حوالے کردی گئی ہے، اسی فساد کے دوران جیوتی نگرکے قبرستان کی چہار دیواری، پانی کی ٹنکی،قبرستان میں بنے گارڈ کے کمرے کو بھی شرپسندوں نے مکمل طور پر تباہ کردیا تھا، اس کی بھی مرمت کرائی گئی۔بھاگیرتی وہاراور کراول نگر میں تعمیر نواورمرمت شدہ 30 مکانات اہل خانہ کو سپردکردیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ پہلے مرحلے میں پچپن مکانات، دو مسجدیں، دوسرے مرحلے میں پینتالیس مکانات اور ایک مسجد، اب تک جمعیۃ علماء ہند نے دہلی فساد کے دوران تباہ شدہ 130مکانات کی تعمیر وتجدید کاری کرکے فساد متاثرین کے حوالے کرچکی ہے۔اور متاثرین کو انصاف دلانے اور بے گناہوں کی رہائی اور اصل خاطیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے وکیلوں کا ایک پینل تشکیل دیا ہے جو مظلومین کے مقدمات کی پیروی کررہاہے۔ ان وکیلوں کی کامیاب پیروی کے نتیجے میں اب تک 56 کیس میں ضمانتیں مل چکی ہیں۔
جنتی مسجد گوکل پوری کی ازسرنوتعمیر، تزئین کاری اور فسادات میں جلائے گئے مکانات متاثرین کے حوالہ کرنے کے موقع پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ہم اس کے لئے اللہ کا جس قدربھی شکر اداکریں، کم ہے، اس نے اس اہم کام کے لئے نہ صرف جمعیۃعلماء ہندکو ذریعہ بنایا بلکہ اس کے لئے وسائل بھی مہیاکرائے، انہوں نے کہا کہ دہلی فسادزدہ علاقوں میں اپنی روایت کے مطابق جمعیۃعلماء ہند نے مذہب سے اوپر اٹھ کر محض انسانی بنیادپر تمام متاثرین اورضرورت مندوں کو اپنی بساط بھر ریلیف مہیاکرائی ہے، آئندہ بھی انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا،ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف برپا ہونے والے فسادات کو مسلمانوں کو معاشی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی طور پر پیچھے دھکیلنے کا ایک حربہ قرار دیتے ہوئے،مولانا مدنی نے کہا کہ دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہونے والافساد انتہائی بھیانک اور منصوبہ بندتھا، اس میں پولس اور انتظامیہ کا رول مشکوک رہا ہے،جس کی وجہ سے جانی ومالی نقصان بھی یکطرفہ ہوا لیکن جس طرح مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا اورگھروں کو جلایا گیا وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ فساداچانک نہیں ہواتھا بلکہ اس کی پہلے سے منصوبہ بندی ہوئی تھی اور پولس وانتظامیہ کی نااہلی کے نتیجہ میں دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک بھیانک شکل اختیارکرلی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ منصوبہ بند فسادکی ذمہ داری سے حکومت بچ نہیں سکتی اور امن و امان کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے لیکن وہ فسادات کے دوران ہمیشہ امن و مان برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے اور ہندوستان میں اس کی ایک تاریخ ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا ہزاروں بارکا تجربہ ہے کہ فساد ہوتانہیں ہے بلکہ کرایا جاتاہے۔ اگرانتظامیہ نہ چاہے تو ہندوستان میں کہیں بھی فساد نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہاکہ بعض مرتبہ تو پولیس ایکشن ہوتا ہے اور دہلی فسادمیں بھی پولس کا یہی کرداررہاہے اور تمام حکومتوں میں ایک چیز جو مشترک نظرآتی ہے وہ یہ کہ حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتاہے اورمسلمان مارے بھی جاتے ہیں اورانہی کے مکانات ودوکان کو جلایا جاتاہے اور پھرانہی پر سنگین دفعات لگاکر گرفتاربھی کیا جاتاہے۔المناک پہلو یہ ہے کہ فسادات کے کسی ایک واقعے میں بھی قانون اور انصاف کے تقاضے کو پورا نہیں کیا گیا اور کسی قصوروار کو سزا نہیں دی گئی بلکہ قصورواروں کو انعامات سے نوازا گیا،اور ان کو وائی کلاس سیکورٹی بھی دی گئی یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بھی بلند ہوتے گئے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فسادات سے صرف مسلمان کو نقصان ہوتا ہے وہ غلط فہمی کے شکار ہیں، فسادات سے دراصل ملک برباد ہوتا ہے،اس کا وقار مجروح ہوتاہے اور معتبریت کو نقصان پہنچتا ہے، انہوں نے کہا کہ آج ملک میں ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والے ہر طرح کے جرائم کو ہندومسلم پہلو سے جوڑ دیا جاتا ہے،انتہا پسند تنظیمیں اور ملک کا متعصب میڈیا مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔انہوں نے رنکو شرما قتل معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قتل تجارتی بنیاد پر ہوا،اس طرح سینکڑوں قتل روزانہ ملک میں ہوتے ہیں لیکن کبھی میڈیا اور فرقہ پرست تنظیمیں اس کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیتیں۔ایسا لگتا ہے کہ اس افسوسناک واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا مقصد کسانوں کی تحریک اور کسانوں کی تحریک کے نتیجے میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پٹنے والی کھائی کو نقصان پہنچانا ہے،اور کسان تحریک سے لوگوں کی توجہ ہٹا کر ہندومسلم کی طرف کرنا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے صرف فساد زدگان کی بازآباد کاری ہی نہیں بلکہ انہیں پیروں کھڑا کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے، اسی مشن کے تحت دہلی فساد متاثرین میں سے کچھ لوگوں کو تجارت کے لئے مالی مدد،آٹو رکشا، بیٹری رکشا خرید کر دینا اور بچیوں کی شادی میں بھی مالی تعاون کرنا ہے۔
اخیر میں مولانا مدنی نے اپنے گہرے دکھ کا اظہار رکرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے فسادات کے برعکس حالیہ فسادات میں یہ چیز دیکھنے میں آئی کہ شرپسندوں نے منصوبہ بند طریقے سے عبادت گاہوں کو ٹارگیٹ کیا اور ان کو نقصان پہنچایا جو کہ فرقہ پرستی کی انتہا ہے، جب کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہر عبادت گاہ چاہے مسجد ہو یا مندر یا دوسری عبادت گاہیں، سب کو عزت کی نظر سے دیکھاجانا چاہیے اوراس کا احترام کرنا چاہیے۔ اس حساس مسئلے پرارباب اقتدار کو سوچنا چاہیے،لیکن افسوس سیاست داں اقتدار کی خاطر ملکی اور وعوامی مسائل کی جگہ صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کررہے ہیں جو کہ ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔