ہندتو کے سایے میں ہندوستان!

(505)خبر در خبر

شمس تبریز قاسمی
اتر پردیش ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا کل رقبہ243286 کیلومیٹر پر مشتمل ہے ،22 کڑورسے زیادہ یہاں کی کل آبادی ہے جس کی تعداددنیاکے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے اور اسی لئے اسے منی ہندوستان کہاجاتاہے ، اس صوبے میں تقریبا 80 فیصد ہندؤں کی آبادی ہے ،19 فیصد مسلمان ہیں اور ایک فیصد میں سکھ ،جین اور دیگر مذاہب کے پیروکارشامل ہیں ،سیاست اور حکومت میں شروع سے اس صوبے کا نمایاں کرداررہاہے ،دہلی تک پہونچنے کیلئے کامیابی کے ساتھ یوپی کا سفر عبور کرنا ضروی ہوتاہے ،چناں چہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو اس صوبے میں 80 میں سے 73 سیٹوں پر کامیابی ملی اور حکومت سازی کی راہ بہت آسان ہوگئی ،2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی اس صوبے نے ماضی کی طرح بی جے پی کا دل کھو ل کر استقبال کیا، 42 فیصدعوام نے یکطرفہ بی جے پی کو ووٹ دیا اور اس طرح 1977 میں جنتا پارٹی کی تاریخ ساز فتح کے بعد پہلی مرتبہ کوئی پارٹی اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی ،اندراگاندھی جیسی قدر آور لیڈر کا ریکاڈ بھی پیچھے چھوٹ گیا جنہوں نے 1980 میں 39.3 فیصد ووٹ حاصل کرنے اور 72 فیصد سیٹیں لینے کا ریکاڈ قائم کیاتھا۔حالیہ اسمبلی انتخابات میں میں 325 سیٹیں حاصل کرنے والی بی جے پی کو 42 فیصد ووٹ ملا ہے ،2014 کے لوک سبھا انتخاب میں 42.5 فیصد ووٹ ملا تھا،جبکہ سماج وادی پارٹی کی کارکردگی1993 میں اس کے قیام کے بعد سے سب سے خراب ثابت ہوئی اور گزشتہ تین دہائی سے اتر پردیش کی سیاست میں ہنگامہ برپاکرنے والی پارٹی صرف12 فیصد سیٹ اور 21 فیصد ووٹ پر سمٹ کر رہ گئی ،حالیہ الیکشن نے سب سے زیادہ بی ایس پی کو کمزور ثابت کیا جسے صرف 22 فیصد ووٹ ہی مل سکے حالاں کہ لوک سبھا کے مقابلے میں تین فیصد ووٹ کا اضافہ ہواہے لیکن سیٹوں کی تعداد میں یہ پارٹی صرف 19 پرہی محدود ہوگئی جو بی ایس پی کی نہ صرف سب سے شرمناک شکست ہے بلکہ اس کی تین دہائی کی بااثر سیاست کو بے نام ونشان کرنے کیلئے کافی ہے ، کانگریس صرف 8 فیصدووٹ لانے میں کامیاب ہوسکی جو کل تک ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔مسلمان بھی حاشیئے پر چلے گئے ،جس اسمبلی ہاؤس میں ستر کے قریب مسلم نمائند ے رہاکرتے تھے وہاں اب صرف 25 ایم ایل رہ گئے ہیں،فیصد کے اعتبار سے یہ تعداد 17 سے گھٹ کر 6 پر آگئی ہے اور 2012 میں منتخب ہوئے 68 میں سے صرف 11 کو کامیابی ملی ہے ،سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جس پارٹی کی حکومت بن رہی ہے اس میں برائے نام بھی کوئی مسلم نمائندہ نہیں ہے۔
ووٹوں کا یہ تناسب بتارہاہے سیاست کچھ بدل گئی ہے ،جن بینادوں پر پہلے ووٹنگ ہورہی تھی اس میں تبدیلی آگئی ہے ،ذات پات کی سیاست ختم ہوگئی ہے ،مایاوتی کو مکمل دلت ووٹ نہیں مل سکاہے اور نہ ہی ایس پی کانگریس کو سیکولر ووٹ مل پایا ہے ،کیوں کہ اتر پردیش کے 80 فیصد ہندؤوں میں 20 فیصد کے قریب شیڈول کاسٹ کی آبادی ہے ،45 فیصد اوبی سی کی آبادی ہے جس میں نو فیصد یادو ،ساڑھے تین فیصد کرمی ،دوفیصد لوہاڑ،ایک فیصد جاٹ ،دوفیصد ملاح ،دوفیصد تیلی،ڈیڑھ فیصد کمہار،ڈیڑھ فیصد کنہار،ایک فیصد سے زائد نائی،ڈیڑھ فیصد کاچی اور دو فیصد گداریہ شامل ہیں،علاوہ ازیں یہاں 13 فیصد برہمن اور ساڑھے سات فیصد ٹھاکر برادری کے لوگ ہیں۔ایس پی اور بی ایس پی کی جیت میں مسلمانوں کے ساتھ ایس سی اور اوبی سی برادری کے لوگوں کا نمایاں کردرا ہواکرتاتھا اور اس کا شمار سیکولر ووٹوں میں ہوتاتھا لیکن 2014 کے بعد سے یہ سیکولر ووٹ بینک سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کو ملنے کے بجائے بی جے پی کو ملنے لگاہے ،اسی کا نتیجہ ہے کہ دلت ووٹوں کے سہارے سیاست میں نمایاں اثر ورسوخ رکھنے والی مایاوتی کی ہاتھی حالیہ الیکشن میں چاروں شانے چت ہوگئی ، ایس پی کو تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرناپڑا ، یوں ہندؤوں کے اتحاد کے سامنے مسلمانوں کا اتحاد بے معنی ہوکر رہ گیا، بی جے پی کو ہرانے کی کوشش میں مصروف مسلمان خود طرح بری طرح ہار گئے اور اب ہندتو کے سایے میں ہندوستان اور مسلمانوں کامستقبل ہے۔
ایس پی ۔کانگریس اتحاد اور بی ایس پی کو ملے ووٹ کو اگر ایک ساتھ ملالیا جائے تو یہ تعداد تو کل 51 فیصد ہوتی ہے ،اب اندازہ لگائیے ایک طرف ایک پارٹی تنہا 42 فیصدسے زائد ووٹ لارہی ہے دوسری طرف ایس پی ،کانگریس اور بی ایس پی جیسی تمام پارٹیوں کو 51 فیصد ووٹ مل رہے ہیں ،فرض کرلیجئے اگر بہار کی طرح یہاں بھی عظیم اتحاد ہوتاتو دونوں فرنٹ کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہوتا ،آئندہ دنوں میں بی جے پی کا ووٹ فیصد مزید بڑھے گا کیوں کہ جس طرح آر ایس ایس زمینی سطح پر سماج میں زہر گھول رہی ہے ،گھر گھر دستک دیکر ہندؤوں کو مذہب کے نام پر ذات برادری سے علاحدہ کرکے متحدکرہی رہے اس کا اثر بڑھتا جارہاہے ،ہندوسماج سے کہاجارہاہے کہ اس ملک میں آٹھ سوسال تک مسلمانوں نے ہم کو غلام بنائے رکھا،1857 میں انگریزوں کے ذریعہ آزادی ملی لیکن 1947 میں پھر کانگریس کے ہاتھوں اقتدارچلاگیا اور ہندوسماج کا استحصال کیا،اب وقت آگیا ہے مکمل آزادی کے حصول کا ، آج دیوبند سے دہلی آنے کے دوران ٹرین میں ایک نوجوان کو کہتے ہوئے میں نے سناکہ جب تک کانگریس سے مکمل آزادی نہیں مل جاتی ہے ملک کو آزاد نہیں کہاجائے گا۔تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ آئندہ دنوں میں بہار کے حالات بھی یوپی سے کچھ مختلف نہیں ہوں گے ۔
یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج پر غورکرنے کے بعد واضح طور پر یہی بات سامنے آرہی ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کی جڑیں مضبوط ہورہی ہے ، ہندتو کے نام پر ذات برداری سے قطع نظر کرکے تمام ہندوو متحد ہورہے ہیں،ترقی او رذات پات کے بجائے آئیڈیا لوجی او ر نظریات کی جنگ سیاست میں حاوی ہوگئی ہے اور 1925 میںآر ایس ایس نے جس مشن کی شروعات کی تھی آج اس کو کامیابی مل گئی ہے،کانگریس ، ایس پی ،بی ایس پی جیسی نام نہاد پارٹیوں کا ووٹ بینک ختم ہوگیا ہے دوسری طرف 80 فیصد ہندؤوں کو متحدکرکے مسلمانوں کو بی جے پی نے بے حیثیت ثابت کرکے دکھادیا ہے کہ 20 فیصد ووٹ کے بغیر بھی ہم عظیم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔اب20 مسلمان متحدہوکر بھی بی جے پی کی راہ میں کوئی روڑنہیں اٹکاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے اتحاد سے کوئی اور سیکولر پارٹی کامیاب ہوسکتی ہے ، اس لئے اسدالدین اویسی ،مولانا عامر رشادی ،ملی تنظیموں اور علماء کرام پر سیکولر طاقتوں کی شکست کا الزام عائد کرنا بے معنی اور حقائق کے سراسر خلاف ہے ، چند سیٹوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کا ووٹ تقریبا متحدرہاہے ،نام نہاد قائدین کی اپیل پر اب خودان گھروالے بھی توجہ نہیں دیتے ہیں۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل موضوع بحث بن گیا ہے ،مسلم قیادت کشمکش کی شکار ہے ،ملی تنظیموں کی زبانیں خاموش ہیں کیوں کہ جس کانگریس سے مسلمانوں نے اپنا مستقبل وابستہ کیاتھا اب اس کا وجود نیست ونابودہونے کے قریب ہے ،مسلمانوں کی اپنی کوئی سیاسی قیادت نہیں ہے ، بی جے پی کا اصل مشن آر ایس ایس کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ہندوراشٹر کا قیام ہے۔
stqasmi@gmail.com