2020 کا آخری چاند اپنی چاندنی بکھیرتا ہوا رخصت ہونے کی اجازت چاہ رہا ہے

 مشتاق احمد نوری

یہ سال بے حد ڈراؤنا رہا کبھی سرکار نے ڈرایا NRC لگانے کی دھمکی دی مسلمان خوفزدہ ہوٸے ۔بلقیس دادی کی قیادت نے شاہین باغ بسایا شاہین باغ کو اتنی شہرت ملی کہ ہر صوبے ہر شہرمیں شاہین باغ بس گیا اس آندولن کو عورتوں لڑکیوں اور بچیوں نے مل کر چلایا۔ پولیس نے ظلم کی انتہا کردی جامعہ ملیہ کے طلبا پر بربریت کی انتہا کردی گئی لائبریری میں پڑھ رہے طلبا پر یوں لاٹھیوں کی بارش کی گئی گویا وہ دنیا کے بدترین کرمنلز ہوں۔ کسی کی آنکھ پھوڑی گئی کسی کا سر پھٹا کسی کے پیر ٹوٹے لیکن حیرت کی انتہا رہی کہ آر ایس ایس کی چہیتی وی سی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ ان پولیس والے کی وردی میں آر ایس ایس کے غنڈے بھی تھے جو جامعیہ کے بچوں پر بے دردی سے لاٹھیاں برسارہے تھے جنکی شناخت بھی کی گئی لیکن ظلم کی فریاد کوئی سننے کو تیار نہیں مظلوم کو ظالم کہا گیا اور ظالم دیش بھکت بتائے گئے ۔ پیس فل آندولن کاریوں پر باہری آدمیوں نے گولی چلائی بے جے پی کے نیتاؤں نے گالیاں دی ” گولی مارو سالوں کو “ کے نعرے دٸے لیکن وہ سب سرکار کی نظر میں دیش بھکت ثابت ہوئے ۔ دہلی میں یوجنا بدھ طریقے سے فساد برپا کیا گیا مسلمانوں کو قتل کیا گیا ان کا گھر اور دوکانیں جلائ گئیں وہ سارے دیش دروہی دیش بھگت کہلائے اور جنہوں نے NRC کے خلاف آواز اٹھائی انہیں دیش دروہی میں شمار کرکے دہلی فساد میں بُک کردیا گیا اور جیل کی سلاخوں میں دھکیل دیا گیا کوئی فریاد سننے والا نہیں اور نہ ہی اس کے خلاف آواز اٹھی وجہ یہ کہ اپنے پر ہورہے ظلم کی آواز اٹھانے والے کو غدارِ وطن کا نام دیکر جیل کی خوراک بنائی گئی اور جس نے بھی اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اسے دیش بھکتی کی سند عطا کی گئی ۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے تو سارے حدود پار کرلئے اور وہاں کی پولیس نے جس ننگے پن کا مظاہرہ کیا اور جس بربریت کو پیش کیا اس کی مثال کبھی نہیں ملی۔مرکزی سرکار کی پولیس کو کتنی پاور دی گئی ہے اس کا ذکر آئین میں بھی نہیں کیونکہ ہوم منسٹر کے اشارے پر وہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی ہے۔

آر ایس ایس کے غنڈے جے این یو میں داخل ہوکر مارپیٹ کرتے ہیں وہاں کی لیڈی پریسیڈنٹ پر لوہے کے روڈ سے حملہ کر سر پھوڑتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ مجرم کون ہے لیکن دہلی پولیس کچھ نہیں جانتی کہ اندھ بھکتی میں انہیں ظالم مظلوم نظر آتے ہیں اور مظلوم ہی ظالم نظر آتے ہیں۔

صدی کا سب سے بڑا انصاف بھی اسی سال ہوا اور سپریم کورٹ نے ” آستھا “ کی بنیاد پر بابری مسجد کا فیصلہ سنایا اور جیف جسٹس کو انعام کی شکل میں راجیہ سبھا کی ممبری نصیب ہوئی ۔ جب فیصلے یوں ہونے لگیں تو عدلیہ پر اعتماد ختم ہوجاتا ہے لیکن کوئی کرہی کیا سکتا ہے۔

پورا ملک کرونا کا شکار رہا ۔گودی میڈیا نے کرونا کا ختنہ کروا کر اسے مسلمان بنا دیا اور ٹھیکرا تبلیغی جماعت کے سر مڑھ دیا ۔مرکز نظام الدین کے ” حضرت جی “ نے ایک کڑوڑ روپیہ دیکر خود کو کورنٹاٸین کر سرکار کی زد سے بچ گئے اور بے چارے تبلیغی بھاٸ خصوصاً غیر ملکی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دئے گئے لیکن ایک بھی تبلیغی کا کرونا ٹسٹ پوزیٹو نہیں آیا وہ تو بھلا ہو عدلیہ کا جس کی آنکھ کا پانی ابھی خشک نہیں ہوا ہے جس نے ان سب کو بے قصور پاکر جیل سے رہائی کا حکم سنایا۔

اس کرونا نے ہندو مسلم میں کوٸ تمیز نہیں کیا اور لاکھوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سرکار کی بھی عجب نیتی رہی کہ ہر موت کو کرونائی موت میں شمار کرنے کی ہدایت جاری کردی کہ جتنی موت اسی حساب سے ورلڈ بینک سے قرض لئے گئے وہ رقم کب کہاں خرچ ہوئی یہ کسی کو نہیں معلوم۔ اس کرونا نے دیش کی معیشت کو بھی تباہ کردیا ہمارا جی ڈی ایف لڑھک کر کس گدال کھاتے میں چلا گیا اس کی ذمہ داریوں لینے کو کوئی تیار ہی نہیں۔ کرونا کی رخصتی کب ہوگی یہ کسی کو نہیں معلوم۔

دیش کا سب سے بڑا آندولن کسان آندولن کی شکل میں سامنے ہے۔ کسان بل کسان کے حق ہی میں نہیں لیکن پوری مشنری یہ ثابت کرنے پر تلی ہے کہ سب کسان کے فاٸدے کے لیے ہے۔یوں کہیں مرکزی سرکار سے پائجامہ غلط کٹ گیا اب اپنی غلطی ماننے کی بجائے وہ کچھّے کے فاٸدے گنانی میں لگی ہے۔

ہم بھارت واسیوں نے بہت بڑی قربانی دیکر ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا لیکن وہی ایسٹ انڈیا کمپنی امبانی اور اڈانی کی شکل میں پورے ملک پر راج کرنے کا سپنا سجائے واپس آگئی ہے یہ کسان بل مرکزی سرکار نے نہیں بنایا بلکہ یہ انہیں لوگوں نے بنایا ہے تاکہ کسان کا سارا اناج ان کے گودام میں آجائے اور اپنی من مانی قیمت پر اسے فروخت کرسکیں۔

پورے ملک میں ہزاروں کمپنیاں ہیں جو لاکھوں پروڈکٹ بناتی ہیں اور ہر پروڈکٹ کی قیمت لاگت سے چار پانچ گنا طے کرتی ہے اور خریدار مجبوراً اتنی قیمت چکانے پر مجبور ہوتا ہے ۔ایک معمولی پارلے جی کا بسکٹ پانچ روپئے میں ملتا ہے تو آپ ایک چونّی کم نہیں دے سکتے لیکن ایک کسان ہے جو اپنے خون پسینے سے اناج پیدا کرتا ہے لیکن اسے اپنے پروڈکٹ کی قیمت طے کرنے کا اختیار نہیں ۔یہ کتنی نا انصافی ہے سوچ کر دم گھٹنے لگتا ہے۔

یہ کسان بل ان کے حق میں ہے ہی نہیں بلکہ نٸ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے ہے۔ وہ دن دورہ نہیں جب چاول چار پانچ سو روپئے کیلو ہوگا ۔ آٹا دَلہن تلہن مکئی کی قیمت آج سے چار سو گنا زیادہ ہوگی اور سارے لوگ خریدنے پر مجبور ہونگے ان اندھ بھکتوں کو کون سمجھائے کہ یہی قیمت انہیں بھی چکانی ہوگی۔

مودی جیسا ”معصوم “ آدمی دنیا کا واحد شخص ہے جو ہرکام دیش کے فاٸدے کے لٸے کرتا ہے لیکن فاٸدہ صرف بڑے بزنس گھرانے کو ہوتا ہے۔ غالب کا مصرع گنگنانے کو طبیعت مچلتی ہے ۔۔۔۔۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔

اس دیش کو مکمل فروخت کرنے کی تیاری ہوچکی ہے۔ ہوائی اڈے بک گئے ہوائی جہاز بکنے کو تیار۔ ریل بھی اڈانی کو بیچنے کی تیاری ہوچکی کسان بیچ دئے گئے ۔ ریزو بینک کے لاکھوں کڑوڑ نکال لئے گئے سارے سونے بک گئے لیکن یہ رقم کہاں گئی کسی کو نہیں معلوم۔

سرکار کی جتنی کمپنیاں کڑوڑوں کا فائدہ دے رہی تھیں سب گجراتی احباب میں تقسیم کردی گئیں لیکن آواز کون اٹھائے۔ہر پارٹی اپنے ایم ایل کو کڑوڑوں میں ٹکٹ فروخت کرتی ہے اچھے سیاست داں کہاں سے آئینگے؟ راجیہ سبھا کی سیٹ کی بولی پچاس کڑوڑ سے شروع ہی ہوتی ہے تو کیسے لوگ وہاں پہونچیں گے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اس کسان آندولن نے عجب وکرال روپ اختیار کرلیا ہے لاکھوں کسان دہلی کے بوڈر پر اس سردی میں جان ہتھیلی پر لیکر اپنے حق کی لڑاٸی لڑ رہے ہیں اب تک پچاس سے زاٸد کسان نے اپنی جان کی قربانی دے دی ہے لیکن سرکار کو کوئی فکر نہیں کہ وہ نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہے ۔ ناچ میری بلبل کہ پیسا ملے گا گنگنائے اور ایک اور غلامی کے لئے تیار رہئے۔

آج نئے سال میں ہر ایک شہری کو ان مسائل پر غور کرنا ہوگا ورنہ نقصان جب ہوگا تو اندھ بھکت بھی اس کی زد میں آئینگے

لگے گی آگ تو آئینگے گھر سبھی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے