ایم ودودساجد
ملت ٹائمز
تین دہائیوں پر محیط اپنے صحافتی سفر میں مجھے ایسی مشکل صرف ایک بار درپیش ہوئی ہے جیسی آج درپیش ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع کروں اور کیسے شروع کروں۔ہندوستان کے مسلمان دہائیوں سے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف واضح موقف اختیار کرتے رہے ہیں۔ان کے علماء اس لعنت کے خلاف اسلامی نقطہ نظر کھول کھول کر بیان کرتے رہے ہیں۔لیکن پچھلے دنوں داعش جیسی انتہائی دہشت گردتنظیم کے خلاف منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں دہشت گردجماعتوں کی بجائے ہندوستان میں موجوددوسرے مسلم طبقات پر جو لعن طعن کی گئی وہ بجائے خودنظریاتی دہشت گردی کے مترادف ہے۔ دہشت گردی کے جھوٹے اور فرضی الزامات کے تحت جو مسلم نوجوان اب تک گرفتار ہوئے ہیں اس کانفرنس میں ان کے لئے ہمدردی یا تشویش کا ایک لفظ نہیں کہا گیا۔ جو مسلم نوجوان برسوں کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد عدالتوں سے باعزت رہا ہوچکے ہیں ان کی مشکل زندگی اور ان کی بازآبادکاری کے تعلق سے بھی ایک لفظ نہیں کہا گیا۔بے گناہوں کو ماخوذ کرنے کے تعلق سے ایجنسیوں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ غیرملکی دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی اس کانفرنس میں خود اپنوں کے خلاف دہشت گردانہ لب ولہجہ اختیار کیا گیا۔ یعنی ایک دہشت گردی ختم نہیں ہوئی اور دوسری دہشت گردی شروع کردی گئی۔
علماء اور عوام کسی بھی مسلک کے ہوں‘مجھے ان کے خلاف سخت لب ولہجہ اختیار کرنے میں سخت تردد ہوتا ہے۔حدیث رسول بھی ہے:ان العلماء ورثۃ الانبیاء : علما نبیوں کے وارث ہوتے ہیں۔پچھلے دنوں شاتم رسول کملیش تیواری کے خلاف مالدہ(مغربی بنگال)میں ادارہ شرعیہ کی جانب سے جومتشددریلی منعقد کی گئی تھی میں نے اس کے تعلق سے جائزہ لیتے ہوئے منتظمین کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔اسی طرح تین سال قبل ممبئی کے آزادمیدان میں رضا اکیڈمی کی جومتشددریلی ہوئی تھی اس کا جائزہ لیتے ہوئے بھی میں نے منتظمین کا دفاع کیا تھا۔لیکن گزشتہ8فروری کونئی دہلی میں دہشت گردی کے خلاف ’’آل انڈیا تنظیم علماء اسلام‘‘کے بینر تلے جو’’آزاد ہندوستان میں صوفیوں کی پہلی بار تاریخی پہل ‘‘ہوئی اس نے مجھ جیسے لاکھوں امن پسندوں کو لرزہ براندام کردیا۔ اس کانفرنس میں استعمال ہونے والی زبان نے اندیشوں‘وسوسوں اور لامحدودخطرات کے امکانات پیدا کردئے۔ایک طرف بظاہر جبہ ودستارپوش یہ ’’علماء‘صلحاء اور صوفیا‘‘اور دوسری طرف ان کی یہ جاہلانہ ‘عامیانہ اورسوقیانہ زبان۔انہوں نے دہشت گردی کے خلاف بولتے ہوئے جو کچھ کہا اس سب کا مفہوم یہ تھاکہ:
1 ہم وہ واحد فرقہ ہیں جو صحیح العقیدہ اور امن پسند مسلمان ہیں اور
2 ہمارے علاوہ جتنے بھی مسلمان ہیں وہ سب دہشت گرد ہیں
ان علماوصلحا اور صوفیا واتقیاء نے صرف اشاروں کنایوں میں ہی بات نہیں کی بلکہ صاف صاف بتادیا کہ ان کے نشانہ پر کون ہے اور یہ بھی کہ وہ خود کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کانفرنس تو دہشت گردی کے خلاف کی تھی لیکن ہر مقرر نے موضوع سے ہٹ کروقف بورڈز اور اسی طرح کے دوسرے اداروں میں سیاسی طورپرمقرر لوگوں کے خلاف زہر اگل کر یہ بتادیا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔انہوں نے صاف طورپراپنے علاوہ ہر مسلک سے وابستہ افراد کو دہشت گرد اور دہشت گردوں کا حامی بتادیا۔اخبارات میں اور خاص طورپر ایک اخبار میں اس کانفرنس کی جورودادشائع ہوئی وہ خاصی ایڈیٹنگ اور’’کتربیونت‘‘کے بعد شائع ہوئی۔مگر اس کے باوجود اس کی زبان ایسی خطرناک تھی کہ اس کو جوں کا توں نقل کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔اب اندازہ لگائیے کہ کانفرنس کے منتظمین نے جو پریس ریلیز اخبارات کو جاری کی تھی اس کا کیا حال ہوگا۔میرے پیش نظر وہ مکمل پریس ریلیز ہے۔اس کو پڑھ کریہ یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ یہ کسی انسانی ہاتھ نے تیار کی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ خدا نے کسی خونخواراور آدم خور درندے کوکچھ وقت کے لئے قوت گویائی اور قوت تحریر دے دی ہے۔جس نے یہ زبان بولی اور لکھی ہے۔یہ لوگ لم یات نظیرک فی نظر کے جس خالق کا پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں اس کی کتابوں میں کہیں یہ زبان نہیں ملتی۔کہیں نہیں ملتا کہ ان کے علاوہ باقی سب کافرودہشت گرد ہیں۔اور جس رحمت للعالمین سے عشق کا یہ دعوی کرتے ہیں اس کا حال یہ ہے کہ اپنے کھلے دشمنوں کو بھی سینہ سے لگاتا ہے اور اپنے قتل کے درپے سفاکوں کو بھی معاف کردیتا ہے۔یہاں مسلکی نظریاتی بحث مقصود نہیں ہے۔اس لئے آج مسلکی نظریہ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
مشکل یہ ہے کہ اس موضوع پرمحدودکالم میں سب کچھ لکھنا ممکن نہیں۔لیکن چندپہلوؤں پر مختصراً بات کرنا ضروری ہے۔تصوف یا صوفی ازم پر ہندوستان کے نام نہاد صوفیوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔اس لئے کہ اس کی جڑیں ہندوستان میں نہیں بلکہ عراق اور دوسرے غیرممالک میں ہیں۔پھر ہم تو اس تصوف کو جانتے ہیں جوشیخ جیلانی اور خواجہ معین الدین اجمیری سے ہوتا ہواخواجہ قطب الدین بختیارکاکی اور حضرت نظام الدین ’’اولیا‘‘جیسے ہزاروں پاکبازاولیاواتقیا اور صوفیاوصلحا تک پہنچا اور جن کی برکت سے آج برصغیر میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔یہ برگزیدہ لوگ نہ بریلوی تھے اور نہ دیوبندی‘نہ وہابی تھے اور نہ کچھ اور۔یہ صرف اور صرف مسلمان اور مبلغین اسلام تھے۔انہوں نے سب کو گلے لگایا۔اسی لئے ان کے بدترین دشمنوں نے بھی اسلام قبول کیا۔ ہندوستان میں آباد تمام مسلمان انہی کے مرہون منت ہیں۔انہوں نے کبھی غیروں تک کے خلاف یہ زبان استعمال نہیں کی جو آج ان کی پیروکاری کا دعوی کرنے والے اپنوں کے ہی خلاف کر رہے ہیں۔اور خدا کاشکر ہے کہ فروعی مسلکی مناقشوں کے باوجود ہندوستان میں کبھی ایسی زہرآلود فضانہیں تھی۔یہ لعنت محض چند برسوں میں نمودار ہوئی ہے اور سرکاٹنے والوں کے سرداربنتے ہی اس کے پر نکل آئے ہیں۔تین برس قبل اترپردیش کے ایک شہر میں ایک بڑااجلاس کرکے ’’آل انڈیا علماومشایخ بورڈ‘‘نے اس مسلکی دہشت گردی کی بنیاد رکھی تھی ۔اس کے بعدمرادآباد کے ایک نام نہاد مفتی نے درجنوں مسلمانوں کے نکاحوں کی تجدید کرائی کیونکہ ان کی میت کی نماز جنازہ ایک ’’دیوبندی‘‘نے پڑھادی تھی۔اور دہلی میں زیر بحث کانفرنس کے بعد تو تمام حدود توڑ ڈالی گئیں۔اودے پور(راجستھان) میں ایک 88سالہ مسلمان کی نعش کوقبر سے نکالا گیا اور اس کے گھرپھنکوادیا گیاکیونکہ اس نے اپنی زندگی میں خود کو صرف مسلمان بتایاتھا۔جبکہ یہ قبرستان مسلمانوں کا نہیں بلکہ’’مسلمانوں میں ایک خاص مسلک‘‘کے ماننے والوں کا تھا۔کیا اس سے بڑی دہشت گردی اور کوئی ہوسکتی ہے؟ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں شاید اس طرح کا کوئی اور واقعہ اب تک نمودار نہ ہوا ہو۔ایسا کوئی واقعہ خود پیغمبر اسلام کے زمانہ میں بھی رونما نہیں ہوا۔کیا منافقین آپ کے زمانہ میں موجود نہیں تھے؟اور کیا اللہ کے نزدیک منافقین سے زیادہ کوئی اور مستحق عذاب ہے؟قرآن کہتا ہے: ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار: بلاشبہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے۔لیکن کیا اللہ کے رسول کے زمانہ میں منافقین کو موت نہیں آئی؟اور کیا ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفنایا نہیں گیا؟کیا اللہ کے رسول کو ان کی منافقت کا علم نہیں تھا؟
ہندوستان میں دوسرے ہزاریے کے خاتمہ کے بعد دہشت گردی مخالف سینکڑوں کانفرنسیں ہوچکی ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ اس سلسلہ کی سب سے پہلی کانفرنس دیوبند میں ہی ہوئی تھی۔اس کے بعد بہت سے مقامات پر اس طرح کے پروگرام کئے گئے۔لیکن کسی ایک کانفرنس میں بھی ایسی بے ہودہ اور احمقانہ زبان استعمال نہیں کی گئی۔ملاحظہ فرمائیے یہ زبان: وقف بورڈ اور حج کمیٹی سے وہابی قبضے ہٹانے کی مانگ ‘یونیورسٹیوں سے وہابی سلیبس(نصاب تعلیم) کوختم کرنے پرزور ‘اقلیتی اداروں کے عہدوں پر صوفیوں کو ذمہ داری دینے کا مطالبہ‘وغیرہ۔پریس ریلیز میں ایک جگہ کہا گیا: آزاد ہندستان میں پہلی بار ایسا دیکھا گیا کہ علماء نے پہلے عام اجلاس میں لوگوں کی رائے لی اور پھر مشورہ کر کے دہشت گردی کے خلاف قرآن کی روشنی میں ’کھلا فتوی ‘ جاری کیا ہو۔‘‘سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کسی ایک طبقہ کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ دوسرے طبقہ کے خلاف فتوی جاری کرے؟آخر قرآن میں ایسی کون سی آیت ہے جو ایسا فتوی جاری کرنے کی چھوٹ دیتی ہے؟قرآن کہتا ہے:ان اکرمکم عنداللہ اتقکم‘تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جو تم میں زیادہ خوف خدا رکھتا ہے۔قرآن دوسری جگہ کہتا ہے : انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم‘مسلمان آپس میں (ایک دوسرے کے)بھائی ہیں لہذااپنے دوبھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو۔ایک اور جگہ قرآن کہتا ہے:واعتصموابحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا‘ اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔کیا تنظیم علماء اسلام کے مفسرین قرآن بتائیں گے کہ وہ کون سا قرآن ہے جس کی روشنی میں انہوں نے پرامن اور امن پسند مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا فتوی جاری کیا ہے؟
(مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف تجزیہ نگار ہیں )