ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
نومبر۲۰۱۵ء میں جب بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تھا تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی ذلت آمیز شکست پر تقریبا پورے ملک میں لوگوں نے جشن منایا تھا۔ کانگریس، جے ڈی یو اور آرجے ڈی اتحاد کو ایک ایسے وقت میں بڑی کامیابی ملی تھی جب ہر طرف مودی کے گن گائے جا رہے تھے۔ بہار میں آرایس ایس کے فارمولے کو ناکامی اس لئے ہاتھ لگی کہ وہاں کی دو حریف سیاسی پارٹیوں نے’ مودی یگ‘ کے خطرات کو بھانپتے ہوئے بر وقت ایک ہونے کافیصلہ کرکے سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا، لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی پارٹی کا اتحاد دو مختلف کناروں کے سنگم جیسا تھا، تاہم حالات کے پیش نظر دونوں لیڈروں نے اپنی اپنی اناؤں کو قربان کیا اور مل کر ۲۰۱۵ء کا اسمبلی انتخابات لڑے اور کامیاب ہوئے۔
مرکزمیں مودی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد خوف و دہشت کا جو ماحول بنا تھا اس ماحول میں جمہوریت کی بقا اور سیکولرازم کی جنگ لڑنے والوں کیلئے یہ جیت جتنی اہم تھی وہیں فرقہ پرست طاقتوںکیلئے بڑا جھٹکا بھی ۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کی زبردست کامیابی کے بعد فاششٹ طاقتوں کو جو توانائی حاصل ہوئی تھی اور کھلم کھلا انہوں نے جس طر ح کی شر انگیزی شروع کردی تھی بہار کے نتائج کے بعد اس قسم کی سرگرمیوں پر بڑی حد تک بریک لگا تھا، اس لئے ملک بھر میں جمہوریت پسندوں نے دل کھول کر خوشیاں منائی تھیں۔
ٹھیک اسی طرح اتر پردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میںبی جے پی کی تاریخی فتح اور سیکولر جماعتوں کی شکست فاش کے بعد ہندو راشٹر کا خواب دیکھ رہے فرقہ پرست لوگوں کو ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا ہے اس لئے وہ ’مودی یگ کے بعد اب یوگی یگ کا جشن منا رہے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ جمہوریت پسندوں نے جب جشن منایا تھا تو خون کی ہولی نہیں کھیلی تھی، لیکن آج راشٹر واد اور دیش بھکتی کے نعرے لگانے والے ہر طرف کشت و خون کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔دو طاقتور فرقہ پرست لیڈروں کے ملک کی سیاست پر بر سر اقتدار آنے سے ان کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کہ ان کی نگاہ میں ملک کے آئین اور قانون کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ سونے پر سہاگایہ کہ بی جے پی کے وزراء، لیڈران، پولیس اور مقامی حکام کی ذرہ نوازی نے نفرت کی اس چنگاری کو ہوادینے میںگھی کا کام کیا ہے۔اس لئے ایک کے بعد ایک شہر کوفرقہ واریت کی یہ آگ اپنی چپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔
اتر پردیش کی باگ ڈور آدتیہ ناتھ یوگی جیسے سخت گیر لیڈر کے ہاتھ میں منتقل ہونے کے بعد سے ملک کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ ہندوستان کدھر جا رہا ہے،کس طرح کی طاقتیں پنپ رہی ہیں اور کون پیچھے جا رہا ہے۔نام نہاد گائے کے محافظوں نے جن کے بارے میں خود وزیر اعظم مودی نے کہاتھاکہ’’ ان دنوں بہت سے لوگوں نے گئو ركشا کے نام پر دکانیں کھول رکھی ہیں، کچھ لوگ جو پوری رات سماج مخالف سرگرمی کرتے ہیں لیکن دن میں وہ گئوركشک کا چولا پہن لیتے ہیں، میں ریاستی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسے گئوركشكوں کا ڈوزئیر تیار کریں ان میں سے۷۰۔۸۰ فیصد اینٹی سوشل عناصر نکلیں گے۔وہ سچے گئو رکشک ہیں تو پلاسٹک پھینکنا بند کروا دیں، گایوں کا پلاسٹک کھانا رکوا دیں تو یہ سچی گئو سیوا ہوگی کیونکہ سب سے زیادہ گائیں پلاسٹک کھانے سے ہی مرتی ہیں، رضاکارانہ خدمت دوسروں کو تکلیف دے کر نہیں ہوتی، وہ اپنی خوشی سے دوسروں کے بھلے کے لئے کام کرنے سےحاصل ہوتی ہے‘‘۔
ان کے اس بیان کا کچھ اثر ہوا اور اس قسم کے حملے بند ہوگئے ،مگر اتر پردیش میں بی جے پی کو امید سے زیادہ کامیابی ملتے ہی یہ عناصر پھر سے سرگرم ہوگئے۔یوگی آدیتہ ناتھ نے وزیر اعلی کا حلف لیتے ہی سب سے پہلے مذبح بند کرنے کا فرمان جاری کیا تو جیسے آرایس ایس ،وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ان گئوركشوں کی بانچیں کھل گئیں ۔اس اعلان کے بعد سے انہوں نے سڑکوں پر ننگا ناچ شروع کردیا اور قانون و انتظام کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بیف کی دکان کے ساتھ ساتھ مٹن ،مرغا اور مچھلی کی دکانوں کو بھی بند کرانا شروع کردیا۔
اس درمیان سب سے تکلیف دہ واقعہ راجستھان کے الور میں پیش آیا، جہاں مسلم ڈیری تاجروں پر گئوركشوں نے حملہ کردیا جس میں دودھ کے کارو باری پہلو خان کی موت واقع ہوگئی۔اس کے معاًبعد جھارکھنڈ میں ایک مسلم نوجوان کو ایک ہجوم نے مار مار کر اس لیے ہلاک کر دیا کیونکہ وہ ایک ہندو لڑکی سے پیار کرتا تھا۔اسی طرح رام نومی کے موقع پر بہار کے نوادہ میں فرقہ پرستوں نے جس طرح سے مرکزی وزیر کے اشارہ پر لوٹ مارکی اس سے ملک کی اقلیت میں خوف ودہشت اور بڑھ گئی ہے۔قابل توجہ بات یہ ہےکہ تشدد کے ہر واقعات میں پولیس نے اہم رول اداکیا ہے۔ اپنے فرائض کو بھو ل کر پولیس نے شرپسندوں کو روکنا تو دور انہیں کھلی چھوٹ دی اور خود تماشائی بنے رہی۔
بہار کے ضلع نوادہ کے بعد روہتاس اور مدھوبنی میں بھی رام نومی کےموقع پر فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات پیش آئے ۔نوادہ میں پولیس مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر انہیں ڈرا دھمکاتی رہی ہے ،جس سے ،وہاں کے مسلمان خوفزہ ہیں مگر ریاست کے لیڈران چپی سادھے ہوئے ہیں۔ابھی تک وزیر اعلی نتیش کمار اور آرجے ڈی کے صدر لالو پرساد یادو کی طرف سے فرقہ پرستوں کے اس خونی کھیل کے تعلق سے کوئی مثبت بیان نہیں آیا ہے۔ملک میں جس طرح کے حالات پے درپے پیش آرہے ہیں اس کی وجہ سے مسلمان انتہائی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں،مختلف اندیشوں میں گھیرے مسلمانوں کو موجودہ وقت میں کئی چیلنج درپیش۔حکومت ،وزراء اور سیاسی لیڈروں کی سرپرستی میں قرقہ پرستوں نے جس طرح کے حالات پیدا کردیے ہیں وہ ملک کی سالمیت کے لئے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔فضا میں گھبراہٹ اور بے چینی ہے مسلمانوں سے نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ظاہر ہے ان حالات کیلئے حکمراں اور حزب اختلاف کے لیڈران ذمہ دار ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق مرکز میں مودی حکومت کے بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آنےسے انصاف اور قانون کے نظام میں بھگوا رضاکاروں کی مداخلت اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں روزگار کے مسائل کے مزید سنگین ہونے کا خطرہ بڑھ گیاہے۔ بے روزگار کی شرح میں مسلسل اضافہ سےملک کی معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں مذبح اور گوشت کی دکانوں کے خلاف کارروائی سے بھی روزگار پر منفی اثر پڑا ہے۔ اتر پردیش میں مذبح کو بند کروائے جانے سے تین صنعتیں متاثر ہوئیں ہیں، ڈبہ بند گوشت، مویشی پروری اور چمڑے کی صنعت۔ ڈبے میں بند گوشت اور چمڑے کی مصنوعات ملک سے برآمد ہونے والی اہم مصنوعات میں شامل ہیں۔ ان حالات میں سب کا ساتھ اور سب کے وکاس کی بات بکواس معلوم ہوتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہےکہ وزیر اعظم نریندرمودی خود ایک بار پھر سامنے آئیں اور نام نہاد گائے کے محافظوں پر کارروائی کا حکم ریاستوں دیں تاکہ ملک بھر میں پھیلتی نفرت کی اس آگ کو بجھائی جا سکے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in