عظیم اللہ صدیقی قاسمی
مختلف عنوانات سے عورتوں پر ہورہے مظالم پر کافی بحث و مباحثے ہو تے رہتے ہیں ، لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر یہ گفتگو سیاست یا مذہب کا رخ اختیار کرکے اپنامقصد کھو دیتی ہے اور پھر عورت کا اصل درد ہمیشہ کی طرح بے بحث و بلا تذکرہ ہو کر رہ جاتاہے۔ کبھی لوجہاد تو کبھی طلاق سے پیداشدہ مسائل اور عورتوں پر ہورہے نام نہاد مظالم کے خلاف صدائیں بلند ہوتی ہیں ، مسلم پرسنل لاء کو اصل مورد الزام قرارد ے کر وزیر اعظم سے لے کر یوپی کے چیف منسٹر تک ہر کوئی اشک بہار ہے ہیں،یوپی کے چیف منسٹرتو دروپدی کے چیرہرن سے تعبیر کرنے سے بھی نہ چوکے ۔لیکن یہاں بھی یہی ہو ا کہ عصبیت کی چادریں اوڑھ کراصل بیماری کا حل تلاشنے کے بجائے مذہب کو نشانہ بنایا گیا اور بھی ایک خاص مذہب کو،مگر کوئی اس عام وباء پر کوئی تنقید نہیں کرتا جو پدرسری معاشرے میں عورت کے ساتھ اس طرح کے سلوک کو جائز قرار دیتا ہے ، جس کا جغرافیہ مسلم معاشرے سے کے لر برہمن چوپالوں تک پھیلا ہوا ہے ،اصل بات کو عورتوں کے مسائل کا ہے، جب بات عورتوں کے اصل مسئلے کی ہو تو اس طرح خاموشی اختیار کی جاتی ہے کہ مانو اسے سند جواز بخش دیا گیا ہو یااس کو ظلم اس لیے نہیں کہا جارہا ہو کیوں کہ اسے باہو بلی سماج کے چند عناصر کی رضامندی حاصل ہے ۔اگر ہمار ا سماج اور ہماری حکومت عورتوں پر ہورہے مظالم کا ننگی آنکھوں سے مطالعہ کرتی تو ورنداون کی بیواؤں کی مظلومیت پر بھی بات کی جاتی جو ہندو سماج سے متعلق ہے۔
مغربی یوپی کا مقبول مذہبی شہر ورنداون، جو متھرا سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، کبھی مہابھارت کے عظیم کردار شری کرشن کے عہد طفولیت کا وطن تھا،آج ہندستان کی مظلوم ہندوبیوہ عورتوں ، اپنوں سے دھتکاری ہو ئی ابھاگنوں کی آہو و فغاں کا شہر بناہوا ہے ۔جی ہاں وہ ہندستان جہاں عورت کو کالی ، درگا، لکچھمی کی شکل میں پوجا جاتا ہے ، جہاں ماں کو مختلف شکلوں میں دیوی مان کر پرستش کی جاتی ہے، جہاں کی تہذیت اور تمدن پر ہندستانیوں کو فخر ہے اور جہاں کے لوگ مغرب کے اولڈ ایج ہوم کا مذاق اڑاتے ہیں، اسی ہندستان میں ان عورتوں کا ایساد رد چھپا ہے ، جس پر بدقسمتی سے زیادہ چرچا نہیں ہوتا ۔ماضی میں فلم ساز دیپا مہتا نے ’واٹر ‘‘فلم کے ذریعے جب یہ سچ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا توچند شدت پسندعناصر کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور آخر۱۹۹۹ء میں بنارس میں اس کی شوٹنگ روکنی پڑی تھی۔درحقیقت کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ان بیواؤں کے موضوع پر کوئی عام بحث ہو اور دنیا اس سیاہ حقیقت سے کھل کر واقف ہو،کیوں کہ اس کی زد میں ہندو سماج کا اعلی طبقہ آتا ہے او ریہ وہی طبقہ ہے جو بھارت ماتا، گاؤ ماتا کے تقدس کی بات تو خوب زور سے کرتا ہے مگر جب اپنی اصل ماں کا معاملہ آتا ہے ، اپنی بیوہ بہن اور رشتہ دار کا معاملہ آتا ہے تو احترام دور کی بات انھیں جینے کے لیے گھر میں جگہ بھی نہیں دیتے ، مذہب کے نام پر ان پر مظالم کو روا رکھتے ہیں اور جب انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو اس کے علم برداروں کو مذہب کی توہین کرنے والا قراردے کر زندان میں چنوانے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔جی ہاں ہندستا ن کے برہمن سماج میں نو جوان سے جوان لڑکی جب بیوہ ہوجاتی ہے تو دوسری شادی ممنوع ہونے کی وجہ سے وہ ایک لاچار عورت بن کر رہ جاتی ہے ، برہمنی سماج اور علوم کے ماہر ڈاکٹر نو راللہ اقبالی(مہپتیا مدھوبنی) کہتے ہیں کہ’’ بیوہ عورت نیوگ کے بڑے عذاب سے گزرنا نہیں چاہتی، اس لیے وہ مٹھوں اور دھرم شالاؤں میں پناہ لیتی ہے ، برہمن سماج میں اگر عورت کا شوہرمرجاتا ہے اور وہ بے اولاد ہے تو تین بچہ ہونے تک اسے آنجہانی شوہر کے سب سے قریبی رشتہ دار سے جسمانی تعلق قائم کرنا پڑتا ہے ، جسے ایک پاکیزہ عورت کا ضمیر قبول نہیں کرسکتا۔‘‘کسی عہد میں ستی کا رواج تھاکہ اس عورت کو شوہر کے انتقال کے بعد جینے کا حق نہیں ہے لہذا اسے شوہر کے چیتا کے ساتھ زندہ جلادیا جاتا تھا ،یہ شکر کہیے ملکہ وکٹوریہ کا، کہ انھوں نے باضابطہ قانون بنا کر۱۸۲۹ء میں اسے مجرمانہ عمل میں شامل کرایا،نیپال میں تو ۱۹۲۰ء تک یہ عمل جاری رہا ، عہد وسطی کے مورخین کا ماننا ہے کہ ہندو مذہبی کتابوں میں ستی کا کوئی ذکر نہیں ہے ، یہ صرف اور صرف عورتوں کے خلاف ایک مخصوص بیمار سوچ تھی جو اسے فروغ دے رہی تھی۔لیکن آج بھی اسی سوچ کے تحت بیوہ عورت کے ساتھ وہی رویہ اپنایا جاتا ہے ، فرق اتنا ہے کہ کل وہ آگ کے شعلوں میں جل کر کچھ دیر کے بعد ٹھنڈا ہو جاتی تھی اور آج وہ ہر پل جلتی ہے اور ہر پل یہ شعلہ اس کی زندگی اور ارمانوں کے ایندھن سے طاقت پاکر مزید بھڑکتا چلاجاتا ہے۔ایک عورت بیوہ ہونے کے بعد اپنوں کی نگاہ میں ملعون ہو جاتی ہے ، اسے گھر میں ایک حد سے آگے نہیں چلنے دیا جاتا ہے ، شوہر کی جائیداد میں حق نہیں ملتا، شوہر کے گھر سے بھاگنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر وہ مجبور ہو کر اپنے وطن سے دور کسی آشرم میں سدا کے لیے داسی بن کر زندگی گزارنے چلی جاتی ہے ، جہاں اذیتوں کا ایک نیادور شروع ہو تا ہے ۔
ورنداون میں چار ہزار آشرم ہیں جہاں یہ بیوائیں پناہ لیے ہوئی ہیں، ان کے رشتے دار انھیں ٹرینوں پر سوار کرکے یہاں بھیج دیتے ہیں اور وہ بھی اس عقیدے کے ساتھ یہاں آجاتی ہے کہ کرشن کی نگری میں رہ کر شاید اسے سکون اور بھگوان کی قربت حاصل ہو جائے ، لیکن یہاں آکر ان کی دشواری مزید بڑھ جاتی ہے ، زیادہ تر آشرم کے پاس کوئی معقول نظم نہیں ہے ، وہ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی انتظام نہیں کرپاتے اور یہ عورتیں بھیک مانگنے پر مجبور ہوتی ہیں ، یہ بھی کہاجاتا ہے کہ آشرم سے جڑے بعض افراد عورتوں کو جسم فروشی کے دھندہ میں ڈال دیتے ہیں ، نوجوان بیوہ عورتوں کو مالداروں کے گھروں پر شب گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے،یہ راقم بھی ایک باروہاں جا چکا ہے ، وہا ں بے بس ، پاؤں سے معذور او رانتہائی کمزور بے سہارا عورتوں کو گرتے پڑتے دیکھا ہے ، جن کی مظلومیت دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں ، ہر طرف ٹی بی ، ایس ٹی ڈیز اور ڈائسینٹری کی مریض ضعیفہ پھیلی ہو ئی ہیں جن کے رشتے دار خود کو اعلی خاندان کا ہندو مانتے ہیں اور پڑوس کی دلتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ہی ایک بہن کیسی ذلیل زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔وہاں آشرم میں نہ ضروری ٹوائلیٹ ہے اور نہ ہی صاف پانی کا نظم ہے ، یہاں کی بیوہ نہ تو پینشن جانتی ہیں اور نہ صحت عامہ کے سرکاری اسکیموں سے واقف ہیں ۔ابھی چند سال قبل قومی کمیشن برائے خواتین نے اپنی رپورٹ میں خلاصہ کیا تھا کہ ۸۰فی صد بیوائیں جاہل ہیں جب کہ ۶۰ فی صد معذوری کی عمرمیں داخل ہو چکی ہیں ، بعض تو ایسی معذور ہیں کہ خود کا کھانا نہیں بنا سکتیں اور انھیں اپنے قیام گاہ تک جانے کے لیے جب سیڑھیوں پر چڑھنا ہوتا ہے تو کئی بار وہ بے سود ہو کر زمین پر گرجاتی ہیں ۔نومبر ۲۰۰۸ء میں ان کے مسائل کو لے کر ایک سماجی کارکن مسٹر رویندر بانا نے سپریم کورٹ میں پی آئی ایل داخل کی تھیِ، سپریم کورٹ نے قومی کمیشن کو سروے کرکے رپورٹ داخل کرنے کا حکم دیا ، کافی لام بندی کے بعد کمیشن نے رپورٹ پیش کی ، یہ بہت ہی دل شکن بات ہے کہ سرکار کی جانب سے متعدد کوششوں کے باوجود بھی ان تک ایک پائی کی مدد بھی نہیں پہنچی ۔ آشرم اور دھرم شاملہ کے لوگوں نے ان کی مدد کے لیے سیوا دستی سسٹم شروع کیا جس میں وہ زائرین کے لیے بھجن گاتی ہیں اور اس کے بدلے اسے تین سے چار روپے یا چاول کی ایک یا دو مٹھی دی جاتی ہیں جو بہت ہی ناکافی ہو تی ہے ، افسوس یہ ہے بھجن گانے کے نام پر کچھ نام نہاد زائرین وہاں عیش کوشی بھی کرتے ہیں،یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بھجن گانے والی زیادہ تر عورتیں مغربی بنگال اور بہار کی ہوتی ہیں،جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہار اوربنگال میں بیوگی کا زخم کافی گہرا ہے۔ کمیونسٹ سرکار کے دور میں ایسی کوشش بھی ہوئی تھی مگر سبھی عورتوں نے واپس جانے سے منع کردیا ، کیوں کہ اب وہ ان مکروہ چہروں کو اپنا شکل دکھانا نہیں چاہتی تھیں جو ان کے قریبی ہونے کے باوجود انھیں ایسی بے چارگی کی زندگی دینے کے ذمہ دار تھے ، ایک عورت کے لیے اپنوں کی بے وفائی سے زیادہ بڑا کوئی صدمہ نہیں ہوتا ۔ادھر ان آشرموں میں ان پر ہونے والے مظالم ، عصمت دری پر نوٹس دلانے کے باوجود بھی سرکار کارروائی نہیں کرتی ہے، مظلوم بیواؤں کی زبان بھی اس خوف سے گنگ رہتی ہیں کہ آخر یہاں سے بھگایا گیا ،تو وہ کہاں جائے گی ؟
سوال یہ ہے کہ طلاق کے نا م پر عورتوں پر ہورہے مظالم کے خلاف یوپی سرکار بہت ہی سنجید ہے ، تو پھر اسے متھرا کے آشرموں میں عورت پر صدیوں سے چلے آرہے نظام کے تحت ہو نے والا ظلم کیوں نہیں نظر نہیں آتاَ ، اسے ان بیواؤں کی گونگی چیخ کیوں نہیں جگارہی ہے؟ یہ کیا ٰظلم نہیں ہے یا اسے ظلم اس لیے نہیں کہا جارہا ہے کیوں کہ اسے برہمن سماج کا مذہب ایک پاکیزہ عمل سمجھتا ہے ؟ بات جو ہو اگر مسلم سماج میں طلاق کے مظالم پر بات ہو گی تو ورنداون کی بیواؤں کی بات بھی ضرور ہو نی چاہیے ؟ اور یوپی کی سرکار قانون بنا کر ایسے انسانوں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے رشتے داروں کو گھر سے باہر کردیتے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہندو مذہبی رہنما اس کے خلاف کھل کر میدان میں آئیں تب ہی جا کر سسکتی انسانیت جاگ سکتی ہے اور عورت کا اصل درد محسوس کیاجاسکتا ہے ۔