صد سالہ جشن عثمانیہ …… میں رؤوں کے مسکراؤں

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

عثمانیہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقاریب کا آغاز ہوگیا۔
صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے بہ نفس نفیس تقاریب کا افتتاح کیا‘ شکر ہے… وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کانوکیشن میں اعلان اور انتظامات کے باوجود شرکت نہ کرسکے تھے جس کا غم اب بھی اردو والوں کو ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا آغاز بھی اردو ذریعہ تعلیم سے ہی ہوا تھا۔ ایک صدی کے دوران اردو ایک شعبہ تک سمٹ کر رہ گئی اور یہ شعبہ بھی چند طلباء و طالبات تک محدود ہوکر رہ گیا… شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ صد سالہ تقاریب میں دور دور تک اردو کا پتہ نہیں تھا۔ نہ تو بیانرس میں نہ ہی ’’لوگو‘‘ میں نہ دعوت ناموں میں…
اردو کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا جبکہ عثمانیہ کی پہچان اردو سے ہے جو تلنگانہ کی دوسری سرکاری زبان بھی تو ہے۔ اردو کے ساتھ یہ سلوک کم از کم نئی ریاست تلنگانہ میں تو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کے سی آر تو اردو کے عاشق ہیں‘ بڑی اچھی اردو بولتے ہیں‘ اردو کے فروغ کے حامی ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ سے تو اردو کی بھلائی کی توقعات نہیں رکھی جاسکتی۔ صد سالہ تقاریب کے موقع پر اردو ساوینیر شائع ہوا اور اس کا اجراء بھی ہوا ہے تو اس کا سہرا شعبہ اردو کی ان ہستیوں کے سر باندھا جاسکتا ہے جنہوں نے اپنی زبان کا حق ادا کیا۔
افتتاحی تقریب میں بہت ساری ہستیوں نے شرکت نہیں کی… اس کی علیحدہ علیحدہ وجوہات رہی ہوں گی۔ سب سے اہم وجہ تو یہی رہی کہ کیمپس میں نہ تو عثمانین تہذیب نظر آتی ہے اور نہ ہی وہ ماحول جس کے لئے کبھی یہ جامعہ ساری دنیا میں مشہور تھی…. جامعہ عثمانیہ نے ایک صدی مکمل کرلی… یہ ایک صدی بانیان و معماران جامعہ کے روج زوال کی شاہد ہے… کوئی قوم عروج سے زوال پذیر ہوتی ہے تو شاید اس کے اثرات اس قوم کی تعمیر کردہ عماراتوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا ثبوت جامعہ عثمانیہ کی عمارت ہے۔ پتھر سے بنی ہونے کے باوجود جانے کتنے شگاف، کتنی دراڑیں اس میں پڑگئیں جسے چھپانے کی بڑی حد تک کوشش کی گئی۔ مگر لاکھ کوششوں کے باوجود اس عمارت کے در و دیوار پر چھائی ہوئی یاس و حسرت، اُداسی و مایوسی کو رنگ برنگ قمقموں سے چھپایا نہیں جاسکا۔ لگتا ہے کہ جامعہ عثمانیہ اپنی صدی کا جشن نہیں ماتم منارہی ہو۔
وہ آنسو جو 1948ء میں اس کے کردار کے قتل کے بعد بہہ بہہ کر خشک ہوچکے تھے… ایک بار پھر چھلکنے کے لئے بے تاب ہیں… 1948ء میں اس مادر جامعہ نے اپنے فرزندوں کی شہادت اور یہاں سے ہجرت پر اتنے آنسو نہ بہائے ہوں گے جتنے اس نے مولانا آزاد کی بے بسی پر بہائے تھے جو ملک کے وزیر تعلیم نہرو کے قریبی ساتھی‘ ہندوستان کے وفادار جانباز مسلمانوں کے نمائندہ ہونے کے باوجود اردو ذریعہ تعلیم کے سلسلہ کو ختم کرنے سے نہ روک سکے۔
ملک کی پہلی اردو ذریعہ تعلیم والی جامعہ سے اس کی زبان، اس کا کردار یوں چھین لیا گیا جیسے کسی دوشیزہ کے سر سے آنچل کھینچ لیا گیا ہو یا کسی ماں سے اس کی اولاد چھین لی گئی ہو… وہ دور مجبوری‘ بے بسی بے وزنی کا دور تھا… سب ڈرے ہوئے سہمے ہوئے تھے۔ جنہیں جامعہ عثمانیہ کو تباہ کرنا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ ایک طویل وقفہ کے بعد سہمے ہوئے چہروں پر معاشی خوشحالی کی وجہ سے طمانیت واپس لوٹی… مگر جو جامعہ عثمانیہ سے دور ہوگئے تھے وہ اور ان کے بعد کی نسلیں واپس نہیں لوٹ سکیں۔ جہاں جہاں اردو زبان اور تہذیب برقرار رہ سکتی تھی وہاں وہاں ذاتی مفادات، سیاست، استحصال کی پراگندگی پھیلتی گئی۔ تقررات میں دھاندلیاں… داخلوں میں بدعنوانیاں‘ اقرباء پروری اور استحصال نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ حالات کے بہتر ہونے کے باوجود اردو زبان اور تہذیب کے نمائندوں کی تعداد گھٹتی رہی۔ شہر سے تعلق رکھنے والے طلبہ احساس برتری کے شکار انہیں ڈگری سے غرض‘ کلاس روم، کیمپس سے کیا لینا دینا… دور دراز کے علاقوں سے جو آئے… وہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو حالات سے ہم آہنگ کرلئے… کیمپس میں جن کی اکثریت ہو اس سے مل جل کر گزار لئے… ظاہر ہے کہ ان حالات میں ان ہی کے اثرات مرتب ہونگے۔ جن کی اکثریت ہو۔ صد سالہ جشن میں یہ اثرات نمایاں تھے۔ایک دور تھا جب کسی جامعہ کے کانوکیشن یا اہم اجلاس میں حیدرآباد کی نامور ہستیاں شریک ہوتی تھیں تو وہ اپنے تہذیبی ورثہ کی نمائندگی کیا کرتی تھیں۔ شیروانی، چوڑی دار پاجامہ، رومی ٹوپی… فرشی سلام….
لگتا ہے کہ اب یہ سب ماضی ا ور تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ صد سالہ افتتاحی تقریب میں ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمد محمود علی نے حیدرآباد کے روایتی لباس کو زیب تن کیاان کے علاوہ قانون ساز کونسل میں اپوزیشن لیڈر محمد علی شبیر، قاری نواب اقبال علی خاں کے علاوہ مدینہ ایجوکیشن سوسائٹی کے بانی سکریٹری جناب کے ایم عارف الدین جو اپنے دور میں عثمانیہ یونیورسٹی کے ممتاز اسٹوڈنٹ لیڈر اور اسٹوڈنٹس یونین کے وائس پرسیڈنٹ بھی رہے‘ حیدرآبادی شیروانی میں نظر آئے۔ البتہ تلنگانہ کے دو ڈپٹی چیف منسٹر میں سے ایک شہ نشین پر اور دوسرے سامعین میں نظر آئے‘ ایسا کیوں ؟ یہ سوال بہت سارے ذہنوں میں ضرور اُبھرا۔یقیناًیہ کسی امتیازی پالیسی کا نتیجہ نہیں ہوگا۔ البتہ رومی ٹوپی کے ساتھ جناب محمد محمود علی شہ نشین پر ہوتے تو اس کی شان بڑھ جاتی۔ اس تقریب کے لئے بانی جامعہ عثمانیہ دکن کے آخری تاجدار نواب میر عثمان علی خان کے ارکان خاندان کو مدعو کیا گیا۔شہزادہ مکرم جاہ بہادر اپنی عمر اور صحت کی بناء پر شریک نہ ہوسکے مگر انہوں نے وائس چانسلر کے نام جو پیام روانہ کیا وہی اس صدسالہ تقاریب کا حاصل ہے۔
جامعہ عثمانیہ کی ایک سو سالہ تاریخ اپنے دامن میں کئی تحریکات اور انقلابات کو سموئے ہوئے ہے۔ کبھی بائیں بازو کی طلباء تحریکات توکبھی علیحدہ تلنگانہ کی تحریک نے اس جامعہ کو عالمی سطح پر شہرت بھی دی اور اس کے نیک نامی کو متاثر بھی کیا۔ 1969ء کی تلنگانہ تحریک اس قدر شدید تھی کہ پورے ہندوستان کی یونیورسٹیز نے عثمانیہ یونیورسٹی 1969ء کے گریجویٹس کے لئے اپنے دروازے بند کردےئے تھے۔ کے سی آر اور کوڈنڈا رام کی قیادت میں تلنگانہ کی آخری تحریک انقلاب بن گئی اور آج علیحدہ ریاست تلنگانہ ایک حقیقت ہے تو عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ کی بدولت۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اِن طلبہ کے ساتھ مکمل انصاف نہیں ہوسکا۔ حکومتیں بنتی رہیں ختم ہوتی رہیں۔ ہر دور میں نئے طلبہ آتے ہیں‘ نئی تحریکات جنم لیتی ہیں اور کوئی تحریک ناکام ہوجائے تو بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب کہلاتی ہے۔
100برس کے دوران مادر جامعہ کے لاکھوں فرزندان ملک اور بیرون ملک میں خدمات انجام دیتے رہے۔راکیش شرما جیسا خلانورد جس نے زمین سے ہزاروں میل دور خلاؤں سے علامہ اقبال کے مصرعہ کو پیش کرتے ہوئے اپنے ملک اور اس ملک کو متحد رکھنے والی زبان اردو سے محبت کا اظہار کیا تھا کہ:
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘
آئین اسٹائن کے ہم عصر رضی الدین صدیقی جو جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جامعہ کراچی کے بھی وائس چانسلر رہے‘ ملک پاکستان سے اسلام کے پیغام کو عام کرنے والے شاہ بلیغ الدین‘ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور چیف سلیکٹر غلام احمد‘ محمد اظہرالدین، آصف اقبال ،ایم ایل جئے سمہا جیسے عظیم کرکٹرس، نرسمہا راؤ، چناریڈی، کرن کمار ریڈی، کیشو راؤ اور ان سب سے زیادہ اہم تلنگانہ کے بانی کے چندر شیکھر راؤ اس جامعہ کے سپوت ہیں۔ اسی جامعہ کے فرزندان نے پاکستان کا دستوربھی لکھا۔ امریکہ، انگلینڈ اور دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جامعہ کو اپنے فرزندان پر فخر ہو یا نہ ہو‘ ان کے سپوتوں کو اپنے مادر جامعہ پر ناز ضرور ہے۔ علامہ اقبال جیسی ہستی نے اس کی عظمت کا اعتراف کیا تھا۔ 1929ء میں اُن کی زندگی میں جامعہ عثمانیہ کے دامن ہی میں اقبال ڈے منایا گیا تھا‘ جو دنیا میں کسی بھی ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا موقف تھا۔
جامعہ عثمانیہ کے متعلق ہزاروں مضامین، سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ اس کی فن تعمیر کو خراج تحسین پیش کیا گیا کہ کس طرح یہ ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت ہے۔عمارت تو باقی رہ گئی مگر اس کی پہچان اسکا ’’لوگو‘‘ ہے جسے غیر محسوس طریقہ سے بدل دیا گیا۔ایک غیرت مند سیکولر کردار کے حامل مادر جامعہ کے سپوت کیپٹن پانڈو رنگاریڈی نے اس لوگو کی تبدیلی اور اس میں سے اردو حذف کئے جانے کیخلاف احتجاجی اقدام کے طور پر اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری واپس کردی تھی۔ افسوس کہ یونیورسٹی انتظامیہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اور صد سالہ تقریب میں تبدیل شدہ لوگو ہی استعمال کیا گیا‘ ایک ایسا لوگو جو بانی جامعہ کے سیکولر کردار کی عکاسی کیا کرتا تھا اسے مسخ کردیا گیا۔یہ تعصب پسندی، بیمار ذہنیت کی علامت ہے۔ یونیورسٹی کو ایسی ہی ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے اسے کون روکے گا جو روک سکتے ہیں‘ وہ تو اپنے آپکو اس عظیم جامعہ سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ ایک عثمانین کی حیثیت سے اس عظیم جامعہ کے مسخ ہوتے ہوئے کردار پر دل خون کا آنسو روتا ہے‘ اب آپ ہی بتائیں اس صد سالہ جشن میں رؤوں یا مسکراؤں…

(مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)