محب اللہ قاسمی
رمضان المبارک جونیکیوں کا پربہار مہینہ ہے ،جس میںاللہ تعالی کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے اور جہنم سے چھٹکارے کے لیے بخشش کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔جو بندۂ خدا اس مبارک مہینے میں خلوص نیت اور ثواب کی امید کے ساتھ روزوں کا اہتمام کرے،قیام لیل (تراویح) کا خیال رکھے اور اس مہینے کے آخری عشرے کی طاق راتوں(شب قدر) میں شب قدر کی تلاش کے مقصد سیعبادت کا خاص انتظام کرے تو اللہ تعالی اس کے تمام (صغیرہ )گناہوں کو معاف فرما دے گا جو ماضی میںاس سے سرزد ہوئی ہوںگی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ)
’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب(ثواب کی امید) کے ساتھ، اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ جس شخص نے ایمان اورثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان میں قیام کیا (یعنی راتوں میںعبادت کی) تو اس کے وہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے اس نے پہلے کیے ہوںگے۔اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیںگے جو اس نے پہلے کیے ہوںگے۔‘‘(متفق علیہ)
مذکورہ بالا حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس مہینے کی افضل ترین عبادت روزہ ہے۔ یہ طلوع فجر سے غروب آفتا ب تک کھانے ،پینے اوربیوی کے ساتھ جنسی تعلق سے خود کو روکے رکھنے کانام ہے۔ مگر ان جائز اعمال سے اجتناب اور خود کو ان چیزوں سے بچاکر رکھنا اس وقت معتبر اور لائق اجروثواب ہوگا جب ان کی انجام دہی مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ہو۔ یعنی ایمان اور احتساب کے ساتھ۔
ایمان کی شرط جس طرح دیگر تمام عبادات میں بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، اسی طرح روزے میں بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص جو اللہ پر ایمان نہ رکھتا ہو ،منکر خدا، یا مشرک ہو،اسے رمضان کے روزے رکھنا بہت پسند ہو ،وہ اس کا اہتمام کرتا ہو، اس کے باوجود اس کا یہ عمل (روزہ رکھنا) عنداللہ قابل قبول ہوگا نہ اسے اجر ملے گا۔اس لیے کہ ایمان کی شرط اور روزے کی فرضیت کا اعتقاد ضروری ہے ،اسے محض ایک رسم سمجھ کر انجام دینا درست نہیں ہے۔
دوسری شرط (احتساب) کی ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہے اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کی امید رکھنا ۔ وہ مسلمان جو رمضان المبارک کے روزے پابندی سے رکھتے ہیں ،مگر وہ صرف لوگوں کی دیکھا دیکھی میںیاعار اور شرمندگی سے بچنے یا ریا و نمود کی خاطر ایسا کرتے ہیں ، وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہیںگے۔ احتساب کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے روزے کا حتساب کرے کہ وہ روزے کی حالت میں غیبت،چغلی، جھوٹ،ظلم و زیادتی سے پرہیز کرتا ہے یا نہیں! ورنہ ان تمام برائیوں سے نہ بچنے کی صورت میں محض بھوکے پیاسے رہنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من لم یدع قول الزوروالعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ(بخاری)
’’جوشخص (حالت روزہ میں بھی) جھوٹی گواہی اور اس پر عمل سے باز نہ آئے ، اللہ تعالی کو ایسے شخص کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے۔‘‘(بخاری)
یہی حال رمضان المبارک میں قیام لیل (تراویح)اور شب قدر کی عبادتوں کا ہے۔ چنانچہ شروع میںحدیث پیش کی گئی اس میں ایمان اور احتساب کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس لیے قیام لیل اور خاص کر شب قدر میں عبادت کی صورت میں بھی ان دونوں شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔روایت کے آخر میں نتیجہ کے طور پر جس انعام کا ذکر کیا گیا ہے وہ بخشش خداوندی ہے کہ اللہ ایسے نیک بندوں کے ان اعمال کے نتیجے میں ان کے وہ قصور اور گناہ معاف فرمادے گا جو ان سے پہلے سرزد ہوئے تھے۔یہ اجر رمضان کے روزے کے ساتھ قیام لیل اور لیلۃ القدر کے ساتھ بھی ہے۔
جہاں تک گناہوں کی معافی کا تعلق ہے ،اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس سے مراد وہ چھوٹے گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ رہے بڑے گناہ اور وہ گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں، ان کی معافی بیشتر روایات کے مطابق توبہ کی صورت میں ہوگی اور اس صورت میں جب کہ وہ بندہ معاف کر دے جس کی حق تلفی ہوئی ہو۔
آخر میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ گزشتہ گناہوں سے معافی کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب بندہ آئندہ گناہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ کیوں کہ گناہ اور نافرمانی درحقیقت اللہ کے ساتھ بغاوت ہے جسے اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس مبارک مہینے کے روزے میں ان جائز چیزوں سے رکنے کا مطلب یہی ہے کہ بندہ میں تقوی (جو روزے کا مقصد ہے)کی ایسی صفت پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ کے تمام احکام کا پابند ہوجائے۔ اسی کی رضا کی خاطر اپنا طرز عمل اورمقصد حیات متعین کرے، اس کارب جن باتوں کا حکم دے انھیں کرے اور جن باتوں سے روکے ان سے بچ کر مکمل عبودیت کا ثبوت پیش کرے ، اللہ تعالی امت مسلمہ کو اس ماہ مبارک میں عبادت واطاعت کی توفیق دے اور اس کی بے پناہ برکات و فیوض سے نوازے ۔ آمین