زیور میں مسلم خواتین کے ساتھ درندگی اور انتظامیہ کی خاموشی

تیشہ فکر : عابد انور

مسلم خواتین پر ان دنوں میڈیا کو بہت پیار آرہا ہے۔ وہ مسلم خواتین کے استحصال پر گھڑیالی آنسو بہا رہا ہے۔ وہ تین طلاق کے معاملے پر ہفتے تین دن، بحث، اسٹوری اور خصوصی پروگرام ضرور چلاتا ہے۔ اس کے بہانے میڈیا کا مقصد صرف اسلام پر حملہ کرنا ہے اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کرنی ہے کہ اسلام خواتین کو حقوق نہیں دیتا، طلاق کے نا م پر مسلم خواتین کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا جاتا ہے۔مسلمانوں میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ساری مسلم خواتین دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں۔ مسلم سماج مسلم خواتین کو کسی طرح کے حق دینے کو تیار نہیں ہے ۔مسلم خواتین کے ساتھ دورہ جاہلیت جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمان پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ تمام طبقوں مذہبوں میں مسلم خواتین کی طلاق کی شرح بہت کم ہے۔ اسلام نے مسلم خواتین کو جو حقوق دئے ہیں وہ تمام مذاہب اور معاشرے کے لئے مثال ہے۔ اسی مثال پر چل کر تمام مملک نے خواتین کو حقوق دئے ہیں۔ مسلم خواتین کو چاہئے کہ وہ میڈیا کے جھانسے میں نہ آئیں۔وہ اس طرح کا ماحول پیدا کرکے مسلم خواتین کو بھیڑیے کے باڑے میں دھکیلنا چاہتاہے۔ اگر میڈیا اور عدالت کو مسلم خواتین سے ہمدردی ہوتی تووہ مسلم خواتین کے ساتھ ڈھائے جانے والے مظالم اور فسادات کے دوران کی جانے والی آبروریزی کے خلاف آواز اٹھاتی، ان کے خلاف سخت کارروائی کرتی۔ گزشتہ سال اگست میں ہریانہ میں دو مسلم لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی ہوئی تھی، دو کو قتل کیا گیاتھا، کچھ کو بے رحمی سے مارا گیا تھا۔ دونوں مسلم بچیوں کی اجتماعی آبروریزی ان کے ماموں اور ممانی کے سامنے کی گئی تھی اور یہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھاکہ دونوں لڑکیاں موت کے منہ میں چلی گئی ہیں۔ مگر میڈیا بالکل خاموش رہا تھا۔ بات بات پر کینڈل مارچ کرنے والے صفحہ ہستی سے غائب تھے۔انڈیا گیٹ پر دھرنا مظاہرہ کرنے والے بھی کہیں دیکھائی نہیں دیتے تھے۔مسلم خواتین پرنام نہادمظالم کارونارونے والی تنظیمیں بالکل کومے میں تھیں۔ نربھیا اور ممبئی آبروریزی کیس میں زمین آسمان ایک کرنے والا میڈیا کسی کونے میں دبک کر بیٹھ گیا تھا اور بی جے پی اور آرایس ایس کے تلوے چاٹ رہا تھا۔چیخ چیخ کربولنے والی اینکرنے بھی خاموشی کی دبیز چادر اوڑھ رکھی تھی۔ گزشتہ جولائی کے اواخر میں بلند شہر کے پاس قومی شاہرہ پرآبروریزی کے معاملے میں زبردست طریقے سے اچھالاگیا تھا اس واردات میں اس بار کی طرح گاڑی کو روک لیا گیا اور واردات کو انجام دیا گیا۔ گاڑی میں کل آٹھ افراد سوار تھے، جن میں سے چار خواتین اور چار مرد تھے۔جب کہ اس معاملے میں ایس ایس پی، ایس پی، ڈی ایم سمیت تمام بڑے افسران اور پولیس اہلکار کو معطل کردیا گیاتھا۔ متاثرین کو معاوضہ دیا گیا۔پولیس نے خاطیوں کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔اس کے باوجود الہ آباد ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھااور یوپی حکومت کو نوٹس جاری کرکے کہاتھا کہ وہ پولیس کی جانچ سے مطمئن نہیں ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ اس میں اعظم خاں کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا اور اعظم کواس کیس پر تبصرہ کرنے پر غیر مشروط طور پر معافی مانگی پڑی تھی۔قومی انسانی حقوق کمیشن نے از خود نوٹس لیا تھا۔ اس معاملے میں عدالت سے لیکر جمہوریت کے چاروں ستون کی نیند حرام ہوگئی تھی۔ایسا محسوس کرایا گیا تھا کہ ہندوستان میں اس سے بڑا سانحہ اب تک ہوا ہی نہیں ہے۔ 25دن میں انصاف نہ ملنے پر متاثرین نے خودکشی کی دھمکی دی تھی ۔اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا تھا۔ ممبران پارلیمنٹ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔ کینڈل مارچ بازوں نے انڈیا گیٹ سمیت جگہ جگہ دھرنے اور مظاہرے کئے تھے۔ہر ظلم کے خلاف آوازاٹھانا چاہئے خواہ وہ کسی کے ساتھ بھی ہو۔لیکن زیور ۔ بلندشہر قومی شاہراہ پر ہونے والے سنگین واردات میں سب خاموش ہیں۔ کینڈل مارچ کرنے والی خواتین بھی نہ جانے کہاں سوئی پڑی ہیں۔ مسلم خواتین کا رونا رونے والی مسلم مہیلا منچ بھی کان میں تیل ڈال کر سو رہی ہیں۔خواتین اور خواتین سے متعلق تنظیمیں بھی اس وقت بھی سو رہی تھیں جب ہریانہ میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیاتھا۔نہ تو عدالت ، نہ انتظامیہ، نہ مقننہ، نہ میڈیا، نہ این جی اوز نہ خواتین کمیشن نے کوئی کارروائی کی۔کیا ہندوستان کا قانون مسلمانوں کے لئے الگ ہے۔متاثرین اگر مسلمان ہیں بدمعاشوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس کا ثبوت ماضی میں ہونے والے واقعات ہیں۔ ہریانہ میں کارروائی کے نام پر اب تک کچھ خاص نہیں کیا گیا ہے۔نہ معاوضہ، نہ پولیس کی معطلی اور نہ ہی کسی ادنی سے لیکر اعلی افسرکے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔مسلمان اس رویہ کو کیا سمجھیں گے۔ کیا حکومت نے غیر اعلانیہ طور پر مسلمانوں پر مظالم روا رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کا خون، عزت و آبرو، جان و مال او ر سب کچھ مباح قرار دیا گیا ہے۔
ضلع گوتم بدھ نگر کے زیور میں جو اندوہناک واقعہ پیش آیا اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ حکام کی منشا ہی نہیں ہے کہ مجرموں کے خلاف کارروائی ہو، اس کا ثبوت یہ ہے کہ متاثرہ خواتین کہہ رہی ہیں کہ ہمارے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے لیکن یوگی حکومت کے لیب میں یہ ثابت نہیں ہورہا ہے۔ایس ایس پی کابیان بھی نقل کررہے ہیں۔ ایس ایس پی لو کمار نے بتایا کہ زیور علاقے کے سبوتا گاؤں کے قریب گزشتہ رات نصف درجن مسلح بدمعاشوں نے ایکو گاڑی میں جا نے والے ایک خاندان کے ساتھ واردات کو انجام دیا۔ بدمعاشوں نے گاڑی کے ٹائر میں گولی مار کر اسے روکا۔ متاثرہ خاندان کے سربراہ کی بہن کی ڈیلیوری ہونے والی تھی۔ اس کی بہن بلند شہر کے ایک ہسپتال میں داخل تھی، جسے دیکھنے کے لئے وہ اپنے خاندان کے ساتھ بلند شہر جا رہا تھا۔ جب وہ رامنیر کے پاس پہنچا، تبھی بدمعاشوں نے کار کو اپنا نشانہ بنایا۔ مخالفت کرنے پر بدمعاشوں نے خاندان کے سربراہ کو تین گولیاں ماریں، جس سے اس کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔ بدمعاش متاثرہ خاندان سے زیور اور قریب 45 ہزار روپے لوٹ کر فرار ہوگئے۔ مغربی اتر پردیش کے زیور کے قریب ایک شخص کے قتل اور چار خواتین کے ساتھ ہوئے مبینہ گینگ ریپ معاملے میں رپورٹ درج کرکے تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔دوسری طرف اس معاملے میں ایک متاثرہ خاتون نے بی بی سی کے نامہ نگار دویا آریہ کو مبینہ واقعہ کی معلومات دی۔ اس عورت نے کہا، ’’ہماری گاڑی پنکچر ہو گئی تھی۔ا سٹپنی لگانے کے لئے ہم گاڑی سے اترے۔ وہاں چھ افراد جمع ہو کر آ گئے۔ہمیں مارتے اور چھیڑتے جنگلوں میں لے گئے۔ہماری تلاشی لی۔ ہمارے سارے پیسے، زیورات سب لے لئے۔ہمیں مار لگا کر ہمارے آدمیوں کو باندھ کر ہمارے ساتھ بدتمیزی (آبروریزی) کی۔وہاں میرا بچہ بھی تھا۔ وہ اسے گولی مارنے جارہے تھے۔میرے ہاتھ میں ہزار روپے رہ گئے تھے۔ پانچ پانچ سو روپے کے دو نوٹ میں نے بچے کی جیب میں رکھ دیئے۔ اس کی جیب میں سے ہزار روپے نکال کر وہ اسے گولی مارنے جا رہے تھے تو میں نے کہا مجھے مار دو۔انہوں نے ہمارا منہ بند کر دیا تھا اور ہاتھ پاؤں باندھ دیے تھے۔پولیس وہاں تین چار گھنٹے کے بعد پہنچی۔ تب انہوں نے ہمیں بچایا۔ لوگوں نے بتایا کہ جب پولیس آئی تھی بدمعاش وہیں تھے اور پولیس کے آنے کے بعد ہی بھاگے تھے لیکن پولیس نے اس کا پیچھا نہیں کیا اورآسانی سے بدمعاشوں کو جانے دیا۔اس وقت تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ یوپی حکومت کا رویہ دیکھ کراندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں متاثرین کو انصاف دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یوپی کے ایک وزیرسریش کھنہ نے نہایت بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ اتنا بڑا صوبہ ہے یوپی، کرائم فری بنانا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا اتنا بڑا صوبہ ہے ہم نے کبھی زیرو کرائم کی بات نہیں کی تھی۔ لیکن کوئی بھی مجرم ہو اسے سزا ملے گی۔ وزیر کا یہ بیان چار خواتین کے گینگ ریپ کے بعد آیا ہے۔اسی طرح ابھی گزشتہ مہینے مظفر نگر میں ایک مسلم لڑکی کوراشن والوں نے راشن دینے کے نام پر بلایا اور چھ لوگوں نے اجتماعی آبروریزی کی، تین دن کے بعد معاملہ درج ہوا لیکن کاررائی صفر رہی۔
بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں مسلمانوں کی زندگی جس طرح دوبھر کی جارہی ہے گزشتہ دنوں ہونے والے واقعات اس کے ثبوت ہیں۔ جھارکھنڈ میں مسلم نوجوانوں کو گائے کے نام پر، کبھی لو جہاد کے نام ،پر تو کبھی سوشل میڈیا پر کچھ لکھنے کے نام پر اور تو کبھی بچہ چوری کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔ اترپردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گجرات اور دیگر ریاستوں میں جس طرح مسلم خواتین کی بے حرمتی ، مسلمانوں کو قتل اور زدوکوب کیا جارہا ہے وہ بی جے پی کی مسلمانوں کے تئیں نفرت کا آئینہ دار ہے۔ گزشتہ سال میں ہی قومی دارالحکومت سے تقریبا 60 کلومیٹر دور درندگی کا ایک ایسا واقعہ پیش آیاتھا ، جسے سن کر ہر کسی کا دل دہل جائے گا۔ گڑگاؤں سے ملحقہ ہریانہ کے سب سے پسماندہ ضلع میوات کے تاوڈو حلقہ کے گاؤں ڈنگرہیڑی میں بدھ کو 24,25 اگست کی رات درندوں نے وحشیانہ اور انسانیت کی ساری حدیں پار کر دی تھیں۔ حیوانوں نے سب کو یرغمال بنایا، پھر ماموں اور ممانی کے سامنے بھانجیوں کی اجتماعی آبروریزی کی اور پھر بدمعاشوں نے بھانجیوں کے سامنے ماموں اور ممانی کا بے رحمانہ قتل کردیا۔ڈنگرہیڑی گاؤں میں دو قتل، ایک نابالغ اور ایک شادی شدہ لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کے واقعہ نے میوات میں لوگوں کو دہلادیا ہے۔ بدمعاشوں نے گھر میں رکھے زیورات اور نقدی کی لوٹ مار کی اور پھر لوہے کی چھڑی اوردھار دار ہتھیاروں سے سات افراد کو زخمی بھی کر دیاتھا۔ اس وحشیانہ واقعہ کو رات میں تقریبا ایک بجے انجام دیا گیا، جس وقت سبھی لوگ گہری نیند میں تھے۔آبروریزی کی شکار ہوئی دونوں لڑکیوں نے بتایا کہ رات تقریبا ایک بجے بدمعاش آئے۔ پہلے ان کے والدین اور ماموں اور ممانی کے ہاتھ پیچھے کی جانب باندھ دیے۔ اس کے بعد انہوں نے لاٹھی مار کر ان کو جگایا۔ پھر ان کے والدین اور ماموں اور ممانی کے سامنے چار بدمعاشوں نے ریپ کیا اور اس کے بعد ان کے سامنے ہی ان کا قتل کر دیا۔ظہورالدین نے بتایا کہ بدمعاشوں نے اس کے بیٹے ابراہیم اور اس کی بیوی رشیدہ کا قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ سات دیگر افراد کو زخمی کر دیا اور ملزموں نے اسی دوران گھر میں رکھے سونے وچاندی کے زیور اتاور نقد رقم لوٹ کر فرار ہوگئے۔میوات میں مسلم لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرنے والے ملزم آر ایس ایس سے منسلک ہیں۔ 24 اگست کو گرفتارکئے گئے ملزم گورکشک کمیٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ملزم راہل ورما کے فیس بک آئی ڈی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کا کارکن ہے اور آر ایس ایس کے کیمپ میں مسلسل موجود رہتا آیاہے۔وہی راؤ امرجیت کے فیس بک پیج سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت رکھنے والا انسان ہے اور ساتھ ہی اس نے اپنے کو مودی بھکت بھی بتایا ہے۔
بلند شہر میں ہونے والے واقعہ کو جس طرح اترپردیش حکومت ، ملک کا میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے سنجیدگی سے لیا تھا اسطرح وہ زیور کے سانحے کو نہیں لے رہے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ متاثرین مسلمان ہیں اور بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں مسلمانوں کو انصاف دلانا حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں ہے۔ اس لئے پولیس اب تک کچھ بھی نہیں کرپائی ہے اور نہ ہی یہاں کے ایس ایس پی ، ڈی ایم اور دیگر اعلی افسران کو معطل کیا گیا ہے۔یہاں کی پولیس بھی اگر متاثرہ مسلمان ہے ان کا رویہ ٹال مٹول کا رہتا ہے۔وہ دل و جان سے مجرموں کو بچانے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ بات ہوا میں نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خاطیوں کو سزا نہ ملنا یہ ثابت کرتا ہے۔ پولیس اور سیکورٹی ایجنسی میں متعصب افسران کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔ہریانہ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا ہے، مسلم لڑکیوں کو نشانہ بناکر آبروریزی کی گئی ہے لیکن سزا کے معاملے میں معاملہ ہمیشہ صفر رہا ہے۔یہ آبروریزی کا معاملہ کب تھمے گا۔ مسلم تنظمیں بھی فرداً فرداً جاتی ہیں اور اپنی اپنی ڈفلی بجاتی ہیں۔ متحد ہوکر مسلم تنظیموں نے اب تک کوئی آوا ز نہیں اٹھائی ہے۔کیا اسی طرح ہندوستان میں مسلم عورتوں کی عزت لٹتی رہیں گی۔ مسلمان بچیاں انصاف پانے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہیں گی۔کیاہم قورمہ، بریانی کھاکر سیمنار میں گرجتے برستے رہیں گے؟یہ پیغام کب دیں گے کہ جو عزت دامنی، نربھیا اور مورتھل کے متاثرین کی ہے وہیں ہریانہ ، زیوراورمظفر نگر کی مسلم بچیوں کی بھی ہے۔ بلند شہرسانحہ میں جس طرح تیز رفتار سے کارروائی ہوئی اسی طرح ہریانہ اور زیورسانحہ متاثرین مسلم خواتین کے ساتھ درندگی کرنے والوں کے خلاف کیوں نہیں کی گئی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے عدالت، انسانی حقوق کمیشن، انتظامیہ اور حکومت کے تمام بازوں مسلمانوں کے خلاف بغض رکھتے ہیں اور ان کے خاطیوں کو سزا دینا نہیں چاہتے اگر ایسا نہیں ہوتا تو الہ آباد ہائی کورٹ بھی بلند شہر معاملے کی طرح از خود کارروائی کرتی۔انسانی حقوق کمیشن از خود نوٹس لیکر حکومت کو ہدایت دیتا۔
abidanwaruni@gmail.com