شاباش ام الخیر …..

ایم ودودساجد

2011میں جب ہندی میڈیم سے آنے والی راجستھان کی ایک عجیب الخلقت اور پریشان حال لڑکی انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقدپرسنالٹی ڈویلپمنٹ ورکشاپ کے اسٹیج پر گرتی پڑتی پہنچی تو نیچے بیٹھے ہوئے تین سو سے زیادہ اسٹوڈینٹس اسے دیکھ کر ہنس پڑے۔ان نوجوانوں کی ہنسی بڑھتی چلی گئی۔ورکشاپ کے مقبول عام استاذ محمدمنور زماں نے اس انتہائی نظم وضبط کے حامل پروگرام میں پہلی بار ایسی صورت حال کا سامنا کیا تھا۔لیکن آج ورکشاپ کے 21ویں دن وہ ہر قیمت پر دو چھوٹی اور کمزور ٹانگیں رکھنے والی اس لڑکی کو اسٹیج پر انگریزی میں بولتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔اس سے پہلے 20دنوں تک یہ لڑکی اسٹیج پر جانے کے لئے اپنے حواس جمع کرتی تھی لیکن طلبہ کے ہجوم میں پیچھے رہ جاتی تھی۔آج اس نے پوری طاقت کے ساتھ اپنا ہاتھ لہرایاتھا اور استاذ نے باقی سب کو روک کرصرف اسی کو اسٹیج پر آنے کی اجازت دی تھی۔جب اسے دیکھ کرسب بلند آواز میں قہقہے لگانے لگے تواستاذنے صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرنے کے باوجود اس کیفیت سے مقابلہ کیلئے اس معذور لڑکی کو اکیلا چھوڑ دیا۔اسٹیج کے وسط میں پہنچنے کے بعداس نحیف ونزار لڑکی نے ایک نظر اپنے استاذ پر ڈالی اورہمت رکھنے کا اشارہ پاکردوسری نظر سامنے بیٹھے ہوئے تین سو سے زیادہ طلبہ پر ڈالی۔اس نے پوری طاقت سے کہا کہ —-آپ سب میرے ہم جماعت ہو۔ہنسو‘خوب ہنسو۔میں چاہتی ہوں کہ ورکشاپ کے باقی 20دن بھی آپ سب مجھ پر یوں ہی ہنسو۔مجھے یہ سب منظور ہے۔لیکن میں یہ نہیں چاہتی کہ میری زندگی کے باقی ایام میں یہ دنیا مجھ پر ہنسے۔‘‘

جی ہاں!یہ قصہ اسی لڑکی کا ہے جس نے حال ہی میں یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ام الخیر کی کہانی کوئی دیومالائی قصہ معلوم ہوتی ہے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کی جو کہانی آپ زیر نظر سطور میں پڑھیں گے وہ حرف بہ حرف صحیح اور مستند ہے۔جب کلاس کے استاذ نے یہ معاملہ میرے سامنے رکھا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ اس لڑکی کی خصوصی نگہداشت رکھئے۔ضرورت پڑنے پر اسے وہیل چیر بھی فراہم کیجئے۔ورکشاپ کے باقی 19دنوں میں اس کا بہر طور خیال رکھا گیا۔ام الخیربچپن میں ہی نہ صرف ہڈیوں کے گھلنے یا خطرناک حد تک کمزور ہونے کی بیماری کا شکار ہوگئی تھی بلکہ اضافی طورپر اس کا قد بھی انتہائی کم نکلا۔انگریزی میں ایسے لوگوں کو DWARFیعنی بونا کہتے ہیں۔اسلامک سینٹر کے اسٹیج پر اس کے پستہ قد کو دیکھ کر ہی اس کے ساتھی اس پر ہنسے تھے۔لیکن اس نے جب منہ کھولا تو ہال میں موجود تمام قدآوراسٹوڈنٹس کو اخلاقی طورپرپست کردیا۔اخلاق کی اسی بلندی نے ام الخیر کوساری پستیوں کو عبور کرنے کا حوصلہ بخشا تو آج وہ ہندوستان کے سب سے باوقار سول سروسز کے امتحان میں کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ گوکہ اس کا رینک 420 ہے تاہم معذوری کے زمرہ میں وہ میرٹ میں سب سے اوپر ہے۔لہذا اسے آئی اے ایس کا زمرہ ملنا طے ہے۔ ام الخیر 17 فریکچرس سے متاثر ہے اور اب تک سات سرجریز ہوچکی ہیں۔ ۔۔۔

ام الخیرجب محض دس مہینہ کی تھی توکوئی گھریلو تنازعہ ہوا اوراس کی والدہ کو چھوڑکر اس کے والد نے دوسری شادی کرلی۔راجستھان کے ایک گاؤں پالی میں اب ام الخیر اپنی تنہا ماں کے لئے سکھ کی بجائے مزید دکھ کا سامان بن گئی۔لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے۔اس نے ہمت نہیں ہاری اورمحنت کرکے ام الخیر کی پرورش کی۔لیکن اسی دوران ماں سخت بیمار ہوگئی اور یہاں تک کہ دماغی توازن بھی قائم نہ رہا۔ام الخیر کی دادی نے اپنے ناخلف بیٹے کو سخت سست سنائی اور اس پر راضی کرلیا کہ وہ کم سے کم ام الخیر کو اپنے پاس دہلی لے جائے اور اس کی تعلیم وتربیت کو آگے بڑھائے۔دہلی آنے کے بعدام الخیرایک طرف جہاں اپنی اصل ماں سے محروم ہوگئی وہیں دوسری طرف سوتیلی ماں کی بدسلوکی کا شکار ہوگئی۔شام کو جب ام الخیر پڑھنا چاہتی تو اس کی سوتیلی ماں گھر کے تمام بلب بند کرادیتی۔2003میں جب ام الخیر آٹھویں کلاس میں تھی تواس کی اصل والدہ بھی اس دنیا سے کوچ کرگئیں۔2004میں ام الخیر نے اپنی سوتیلی ماں کا گھر بھی چھوڑ دیا اور دہلی کے ترلوک پوری علاقے میں کرایہ پررہنے لگی۔اس نے بچوں کو ٹیوشن پڑھایا اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔اس دوران اسے کسی نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد ہونے والی سالانہ پرسنالٹی ڈویلپمنٹ ورکشاپ میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔ام الخیر نے انتہائی نامساعد حالات میں ہندی میڈیم سے تعلیم حاصل کی تھی لیکن یہاں انگریزی کا ماحول دیکھ کر وہ احساس کمتری کا شکار تھی اور چاہتی تھی کہ وہ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرلے۔دہلی میں اس طرح کے کورسز کی سینکڑوں مہنگی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ام الخیر کے بس میں نہیں تھا کہ وہ ایسی کسی مہنگی دوکان سے انگریزی کی تربیت حاصل کرے۔اسلامک سینٹر میں اس نے محض چالیس روزہ ورکشاپ سے جو کچھ حاصل کیااس نے ام الخیر کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔جب اس نے کئی مرکزی وزیروں کی موجودگی میں آخری دن کی تقریب میں انگریزی میں تقریر کی تو اس کے قد کی پستی اس کے خیالات کی بلندی کے آگے کہیں گم ہوکر رہ گئی۔اس کے خیالات سن کرسب حیرت زدہ رہ گئے۔اس نے کہا کہ میں نے یہاں سیکھا ہے کہ زندگی کتنی ہی مشکل ہو ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔اس نے کہا کہ جو کچھ میں نے یہاں سیکھا ہے اس کی روشنی میں ‘میں بھی کل کی افسرہوسکتی ہوں۔اس نے کہا کہ انسان کا ظاہری قداس کی شخصیت کا معیار طے نہیں کرتا بلکہ انسان کا باطنی قداس کی شخصیت کا معیار طے کرتا ہے۔اس نے کہا کہ پستہ اور دراز قدہونا انسان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن اپنے اخلاق کو بلند کرنا یقیناًانسان کے بس میں ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ جب ام الخیر نے مئی2011کی مذکورہ تقریب میں شاندار انگریزی میں تقریر کی اور بیسٹ نوبلائٹ 2011 ایوارڈکی مستحق قرار پائی تومرکزی وزیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے محض چالیس دنوں میں حاصل کردہ تربیت کا امتحان لینے کی غرض سے اس سے کہا کہ بریانی بنانے کی ترکیب انگریزی زبان میں بتائیے۔ اس کا جواب سن کر فاروق عبداللہ لا جواب ہوگئے۔اس نے انگریزی میں کہا کہ سر!میں نے جھگیوں میں کس مپرسی کی زندگی گزاری ہے۔ میں آپ کو صرف دال بنانے کی ترکیب بتاسکتی ہوں‘بریانی بنانے کی نہیں۔بریانی بنانے کی ترکیب وہ بتائے جس نے کبھی بریانی بنائی اور کھائی ہو۔‘‘2012میں ام الخیر کو معذوروں کی بین الاقوامی کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کے لئے جنوبی کوریاجانے کا موقع ملا۔2013میں قومی خواتین کمیشن نے اسے ایوارڈ برائے غیر معمولی خاتون سے نوازا۔2014میں حکومت جاپان نے یک سالہ لیڈرشپ ٹریننگ پروگرام کیلئے جاپان مدعو کیا۔اس وقت بھی ام الخیر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔جب میں نے سول سروسز کے نتائج آنے کے بعدام الخیر کو فون کرکے مبارکباد دی تو ام الخیر روپڑی۔اس نے کہا کہ سر!آپ تو عربی داں ہیں۔ام عربی میں ماں کو کہتے ہیں اور خیر تو آپ جانتے ہی ہیں۔یہ نام تو میرا ہے لیکن دراصل ام الخیر تو میری ماں تھی۔اور آج جب میں دنیا بھر کے معذوروں کو یہ پیغام دینے کے لایق بنی ہوں کہ ظاہری قد کی پستی کامیابی کی بلندیوں تک پہنچنے میں کوئی روکاوٹ نہیں ہے تواعلی اقدارکی حامل میری ماںیہ سب دیکھنے کیلئے موجود نہیں ہے۔

مسلم نوجوان ہر سال کم یا زیادہ‘سول سروسز میں کامیاب ہوتے ہی ہیں۔لیکن اس سال مسلم نوجوانوں کی کامیابی کے بہت سے عنصر ایسے ہیں کہ جن پر تفصیل سے لکھا جانا چاہئے۔آزاد ہندوستان میں جب سے سول سروسز کے امتحانات شروع ہوئے ہیں مسلم نوجوانوں کی سب سے زیادہ تعداد پچھلے سال 38آئی تھی۔38تک یہ تعدادبتدریج پہنچی تھی لیکن اس بار38سے 50تک پہنچنااور وہ بھی ایسے ماحول میں کہ جب پورا ملک اور خاص طورپر کمزور طبقات مایوسی کا شکار ہوں‘ ایک غیر معمولی حصولیابی ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی حصولیابی یہ ہے کہ غلام اور آزادہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی معذور‘پستہ قدمسلمان لڑکی نے آئی اے ایس کا زمرہ حاصل کیا ہو۔مولانا عبدالحمید نعمانی درست کہتے ہیں کہ کتنے ہی دوسرے لوگ کامیاب ہوتے ہیں تو کیا آر ایس ایس والے جشن مناتے ہیں؟ان کا خیال ہے کہ خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہنا چاہئے۔شور مچاکردوسروں کو بیدار نہیں کرنا چاہئے۔میری عرض یہ ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ اتنی تعداد میں مسلم نوجوان اس وقت سول سروسز میں آئے ہیں جب محض چند ادارے اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ اگر متمول مسلمان اس طرح کے چند اور ادارے قائم کریں تو اس تعدا دمیں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ام الخیر کی کامیابی نے مسلمانوں کو ایک راستہ اور دکھا دیا ہے۔ایسی نہ جانے کتنی ام الخیر ہوں گی جورہ نمائی کو ترستی ہوں گی۔وہ اپنے درمیان ایسی ام الخیرکو تلاش کریں اور کچھ نہ سہی تو کم سے کم زبان سے ہی ان کا حوصلہ بڑھاکرترقی کی اس سیڑھی پر چڑھنے کا راستہ دکھائیں جس سیڑھی کو راجستھان کی اس ام الخیر نے عبور کرکے دکھادیا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں