عمیر کوٹی ندوی
اسرائیل کی حکومت بیت المقدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقوں پراپنے قبضے کے 50 سال پورے ہونے پرسلور جوبلی منا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں اس کے ظالمانہ اور اشتعال انگیز اقدامات نے دنیا کو ایک بار پھر اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔اقوام متحدہ نے اسرائیل کےناجائز تسلط اور فلسطینی باشندوں کے خلاف اس کی انتقامی پالیسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق ‘اوچا’ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کی بنیادی انسانی ضروریات کے فقدان کی اصل وجہ اسرائیلی قبضہ اور صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیاں ہیں۔اسرائیل نے بیت المقدس پر جون 1967ء میں غاصبانہ تسلط قائم کیا تھا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو اس کا یہ تسلط برطانوی اور عالمی سامراج کی سازشوں کے نتیجے میں سنہ 1922ء میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے وقت ہی قائم ہو گیا تھا ۔اس لئے کہ خلافت عثمانیہ کے سقوط کی شکل میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اجتماعیت کا شیرازہ بکھرگیا تھا اور اس کے بعد سے آج تک یہ زخم خوردہ ملت کہیں بھی اپنی اجتماعیت قائم نہ کرسکی۔ اسرائیل کا پچاس سالہ تسلط پرسلور جوبلی منانا محض بیت المقدس پر قبضہ کا ہی جشن نہیں ہے بلکہ سقوطِ خلافت عثمانیہ کے زخموں پر نمک پاشی بھی ہے۔ زخموں پر نمک پاشی کی اس کوشش میں وہ ملک یعنی برطانیہ بھی شامل ہے جس نے امت مسلمہ کوخاص طور پر ارض فلسطین کے مسئلہ پر کاری زخم لگانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا ہے کہ اگر اسے آئندہ دنوں ہونے والے انتخابات میں کامیابی مل جاتی ہے تو وہ فوری طور پر فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پرتسلیم کرلے گی۔ اس منشور میں کہا گیا ہے کہ لیبر پارٹی مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کے تئیں پابند ہے اور اس مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔منشور میں مسئلہ فلسطین کے حل کے ساتھ غزہ کی ناکہ بندی ختم کئے جانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔اس نے کہا ہے کہ ناکہ بندی، قبضہ اور ناجائز آباد کاری کا خاتمہ ہو۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس سے قبل برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالانے اپنے ایک بیان میں مسئلۂفلسطین کے تئیں برطانوی حکومت کے انکار کے رویہ کی شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی مساعی میں شامل ہونے اور مسئلہ کے دوریاستی حل پر سخت موقف اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اگر برطانوی اور عالمی سامراج کی کوششوں سے سنہ 1922ء میں سقوطِ خلافت عثمانیہ کا واقعہ پیش نہ آیا ہوتا اور ان کی سرپرستی میں ارض فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری نہ کی گئی ہوتی تو بات دوریاستی حل کی وکالت کی نہ ہوتی،نہ اسرائیل کی انتقامی پالیسیوں کے نتیجے میں بے شمار فلسطینیوں کی جانیں جاتیں ، نہ لاتعداد فلسطینی اپنے گھروں سے محروم کئے جاتے، نہ فلسطینی املاک پر غیر قانونی قبضے ہوتے اورنہ ہی غیر قانونی تعمیرات کا ظالمانہ چلن ہوتا۔ خود مذکورہ رپورٹ میں اپنی چھتوں سے محروم ہونے والے فلسطینیوں کے چونکا دینے والے اعدادو شمار پیش کیے گئے ہیں۔
اس وقت اسرائیلی حکومت گوکہ بیت المقدس پر ناجائز قبضے کی 50 ویں سالگرہ کو “سلور جوبلی”کے طورپر منا رہی ہے لیکن خود فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت بیت المقدس “آفت زدہ” شہر کا منظر پیش کررہا ہے۔سلور جبلی کے دوران جس طرح سے مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی کی جارہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔31؍مئی کو اسرائیلی پولیس کی فل پروف سیکیورٹی میں 150 یہودی آباد کاروں نے قبلہ اول میں گھس کر نام نہاد مذہبی رسومات کی ادائیگی کی آڑ میں مقام مقدس کی بے حرمتی کی۔ خبروں کے مطابق پولیس کی فل پروف سیکیورٹی میں یہودی آباد کار باب المغاربہ(مراکشی دروازے) سے داخل ہوئے اور کئی گھنٹے مسجد میں گھومنے پھرنے کے بعد باب السلسلہ سے باہر نکلے۔ اس کے بعداسی دن شام کے وقت پھر دسیوں یہودی آباد کار قبلہ اول میں داخل ہوئے۔ ان میں یہودی طلباء اور ان کے مذہبی رہنما بھی شامل تھے۔ یہودی شرپسندوں کوتو کھلی چھوٹ دی گئی ہے لیکن قبلہ اول آنے والے فلسطینی روزہ داروں کو روکنے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ یہودی آباد کاروں کومسجد اقصیٰ کی بےحرمتی کی کھلی چھوٹ دینے اور انہیں پولیس اور فوج کی طرف سے مکمل تحفظ فراہم کرنے پراردن کی حکومت نے اسرائیل سے شدید احتجاج کیا ہے۔اسی طرح اسرائیل نے انتہا پسندی اور مذہبی اشتعال انگیزی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے حال ہی میں مسجد اقصیٰ سے متصل”دیوار براق” کے صحن میں کابینہ کا اجلاس منعقد کرکے نہ صرف فلسطینی قوم بلکہ پورے عالم اسلام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔اسرائیلی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے لیے 28؍مئی کو صہیونی وزراء صحن براق میں جمع ہوئے۔ اجلاس میں فلسطین میں یہودی آباد کاری کے کئی منصوبوں کی منظوری دی گئی اور بیت المقدس کو یہودی رنگ دینے کے لیے 50 ملین شیکل کا بجٹ منظور کیا گیا۔
اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں القدس میں یہودی آباد کاری سمیت متعدد توسیعی منصوبوں کو منظوری دی گئی ہے۔ خبروں کے مطابق ان میں پرانے بیت المقدس میں زیرزمین راستے، سیڑھیاں، یہودی کالونی تک رسائی اور دیوار براق تک پہنچنے کے لیے راستوں کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔ حماس نے اس اجلاس کے انعقاد کو اسرائیل کی نئی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔حماس کے ترجمان عبدالطیف القانوع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ “دیوار براق کے صحن میں اسرائیلی کابینہ کے اجلاس کے انعقاد کی اشتعال انگیزی کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا…… اسرائیلی کابینہ کا اجلاس کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کومشتعل کرنے کی گھناؤنی صہیونی حرکت ہے۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد کیا گیا ہے جب حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ اسرائیل کے دوران اسرائیل کو اپنے ریاستی جرائم جاری رکھنےکی مکمل اجازت دی ہے”۔ حال ہی میں یہودی انتہا پسند گروپوں نے اسرائیلی حکومت کے تحفظ میں بیت المقدس میں’اسرائیلی پرچم بردار جلوس’ نکالا تھا۔یہی نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت نے مسجد اقصیٰ اور مقام مقدس میں واقع دیوار براق تک یہودیوں کی براہ راست رسائی کے لیے’ریل کار’ کے ایک نئے منصوبے پر کام شروع کردیا ہےجس کے ذریعہ ہرہفتے 1 لاکھ 30 ہزار یہودیوں کو مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کا موقع مل سکے گا۔ منصوبے کے مطابق ریل کار کے فضائی روٹ کی لمبائی 1400 سو میٹر ہوگی جس میں 40 بوگیاں ہوں گی۔ ہر ڈبے میں 10 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی جو 21 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی۔ان سب باتوں کےساتھ ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں اورسنہ 1967ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اس کے غاصبانہ تسلط پرہی نہیں اس کےسلور جوبلی منانے پر بھی بین الاقوامی سطح پر اعتراض ہو رہا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی نے کہا ہے کہ “سنہ 1967ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا تسلط بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے……عالمی قانون کی رو سے اسرائیل بیت المقدس پر سلور جوبلی منانے کا مجاز نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ کھلم کھلا انسانی حقوق کی پامالی ہوگی”۔ان سب باتوں کے باوجود اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی اور سلور جوبلی منانے کا سلسلہ جاری ہے۔