پروفیسر محسن عثمانی ندوی
مختلف سیاسی نظریات کے تجربے کئے جاتے رہے ہیں اسلام کا سیاسی نظریہ جو قرآن وسنت پر مبنی ہے وہ بھی تاریخ میں تجربہ سے گذر چکا ہے پہلا تجربہ قرون اولی میں کیا گیا تھا۔ اسلامی سیاست کے طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دور کے مسلم ملکوں کے نظام کا جائزہ لیتا رہے کہ وہ نظام اسلام کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اس طرح سے اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے اس کی تشریح کے بعد اس کی بھی ضرورت ہے کہ بتایا جائے کہ موجودہ عالم اسلام کا سیاسی نظام اسلام کے معیار مطلوب سے کس قدر نزدیک ہے یا کس قدردور ہے اور اس سے اسلام کی کیا نیک نامی یا بدنامی ہورہی ہے۔ ایک مدت سے علماء یہ محسوس کرتے تھے کہ مسلم ملکوں کا نظام اسلام کے جمہوری نظام سے یا شورائی نظام سے ہٹ چکا ہے اس میں بہت سی خرابیاں در آئی ہیں ۔ایسے میں جب کئی ملکوں میں انقلاب نے دستک دی تو امید کی کرن سینوں میں جاگی تھی۔ تمام مخلوقات میں انسان کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ حالات کو تبدیل کرسکتا ہے اور غلطیوں کو درست کرسکتا ہے یہ صلاحیت اللہ نے دوسری مخلوقات کو نہیں عطا کی ہے۔ انسان کو یہ حوصلہ دیا گیا ہے کہ وہ ماحول کے رحم وکرم پر نہ رہے اور جو نظام غلط ہے اس کو بدلنے کی کوشش کرے ۔ اس لئے عرب دنیا میں تبدیلی کی لہر چلی تو اہل عقل وشعور نے اس کا خیر مقدم کیا تھا ۔عرب دنیا میں جمہوریت کی بہار اور نسیم جاں فزا آنے کو تھی، Arab spring یعنی بہار عرب کے آنے کے بڑے چرچے تھے، آمد بہار کی خبر پورے گلستاں میں عام تھی، اسلامی ذہن کے لوگوں کو خوشی تھی کہ شاید اب صحیح اسلامی حکومت قدیم جابرانہ مسلم حکومتوں کی جگہ پر قائم ہوجائے اور جسے اسلامی جمہوریہ کہا جاسکے ، خیر مقدم کے لئے لوگوں نے راہ وفا میں دل سا ایک چراغ جلا رکھا تھا، لیکن پھر کیا ہوا ؟ یہ ہوا کہ کوئے وفا میں روشنی نہ ہوسکی اور وہی ہوا جو ایک شاعر دلنواز کلیم عاجز نے کہا تھا :
کچھ دور ہی بہارِ چمن آکے رہ گئی
ابھری نہ تھی کہ آرزو مرجھا کے رہ گئی
پھیلائے ہاتھ شاخ نے پھیلاکے رہ گئی
خوشبوئے گل نہ جانے کہاں جا کے رہ گئی
اک عمر گزری حسرت فصلِ بہار میں
اب تک تڑپ رہے ہیں اسی انتظار میں
فصل بہار کے انتظار میں واقعی اک عمر گذری تھی، صحیح اسلامی ریاست صرف خلافت راشدہ کے دور تک رہی ،اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے ملتے ہیں جس میں اسلام کا نظام حکمرانی جلوہ افروز نظر آتا ہے ورنہ بحیثت مجموعی اسلام صرف عبادات میں باقی رہا، اسلام نے جمہوریت اور آزادی رائے کا چراغ اس وقت روشن کیا تھا جب ساری دنیا میں استبدادی نظام اور موروثی بادشاہت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ،اسلام نے انسان کو بنیادی سیاسی اور سماجی حقوق اس وقت دئے تھے جب دنیا کے ملکوں میں ان کا وجود نہیں تھا آج اس دور میں جب ساری دنیا میں جمہوریت کا دلفریب نغمہ گونج رہا ہے انسانی حقوق کا چارٹر موجود ہے خود ہندوستاں کمے اندرلوگ اپنی مرضی سے جسے چاہتے ہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھاتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں بے راج اور بے تاج کردیتے ہیں ، لیکن عرب ملکوں میں قیصر و کسری کا استبداد ی نظام اور ملوکیت کا دلدوز دلفگار اور دلخراش ماحول چھایا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اسلامی اسٹیٹ کے مقاصد بھی ان سے پورے نہیں ہورہے ہیں، غیر اسلامی اور غیر جمہوری اور غیر عادلانہ حکومت کا زمانہ ان ملکوں میں اتنا طویل ہوگیا کہ بہت سے لوگ اسے اب ضروری نہیں سمجھتے ہیں کہ تبدیل لائی جائے، اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور استبدادی نظام کے خلاف کہیں صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے تو مفتیان حرم اس کے خلاف فتوی کی بندوق کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ حضرات صرف ذکر وفکر صبح گاہی اور مزاج خانقاہی کواوربے دین اور ظالم حکمراں کی بے چوں چرا اطاعت کو مکمل اسلام سمجھتے ہیں۔عرب ملکوں میں اور بالخصوص خلیجی ریاستوں میں درہم ودینار کے معاشی مفادات میں مشغول رہنے والے کچھ ظاہری طور پر دیندار لوگ خود کو ربانیت کا علم بردار کہتے ہیں ،ان کی ربانیت نماز وروزہ سے مکمل ہوجاتی ہے باقی اسلامی نظام اور قوانین شریعت کے نفاذ کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے،اور قوانین شریعت کے نفاذ کی تحریک کے علم برداروں پرمصر اور شام اور خلیجی ریاستیں ،سعودی عرب ، امارات اور بحرین ظلم کریں اور اپنے مفاد کے لئے ان کو دہشت گرد قرار دیں انسانی حقوق کو روند ڈالیں آزادی تحریر وتقریر کو کچل دیں اور عبد الفتاح سیسی جیسے غاصب اور غدار کی اربوں ڈالر سے مدد کریں اور اگر کوئی ملک جیسے قطر دینی جماعت کے لوگوں کو پناہ دے تو وہاں کی حکومت کو دھمکیاں دیں اور اس کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیں توان مسلم ملکوں کے نام نہاد دین داروں کے سروں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے ، ان میں بہت سے لوگ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔دنیاکے موجودہ جمہوری نظام کی طرح اسلام میں بھی ظلم کے خلاف احتجاج کا اور اپنی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کا پورا حق دیا ہے اور دنیا اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔ اخوان اور دوسری دینی تحریکات نے کئی عرب ملکوں میں حکومتوں کے خلاف احتجاج کی پر امن تحریکیں چلائی تھی لیکن یہ عرب حکومتیں پر امن احتجاج کو برداشت نہیں کرسکیں دنیا میں ہرجگہ احتجاج کا حق تسلیم کیا گیا ہے ۔ گاندھی جی نے اسی نظریہ کے تحت برطانوی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی اور دنیا میں آج بھی اظہار خیال کی آزادی کو کوئی نہیں روکتا ہے، لیکن ان مسلم حکومتوں میں کوئی آزادی نہیں ۔ حرمین شریفین کی سرزمین کے والی بھی جب خلاف اسلام حرکت کرنے لگیں اور دینی تحریکات پر دہشت گردی کا الزام لگا نے لگیں اور قطر سے اپنے تعلقات اس لئے منقطع کرلیں کہ وہاں اخوان کو پناہ دی جاتی ہے اور اس مقدس سرزمیں یعنی حجازکے علماء بھی اپنی حکومت کا ساتھ دینے لگیں تو مایوسی پیداہوتی ہے ۔ قیامت قریب ہے وہاں یہ فیصلہ ہوگا کہ کس کا نقطہ نظر درست تھا،ان علماء کا جواپنی حکومت کی غلط پالیسی کی تایید میں بیانات دیتے رہے اور ظلم کا ساتھ دیتے رہے یا وہ علماء جو اللہ کی شریعت کے نفاذ کی تحریک چلاتے رہے اور حکومت کے مظالم برداشت کرتے رہے، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ وفاداری اسٹیٹ کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ حکومت کے ساتھ ، اسلام میں اور جمہوریت میں حکومت پر ہر طرح کی تنقید کی اجازت ہے یہ اجازت عہد حاضرکی بیشتر مسلم حکومتیں دینے کے لئے نہیں تیار ہیں،اس اعتبار سے یہ سب صرف مسلم حکومتیں ہیں نہ کہ اسلامی حکومتیں۔ان حکومتوں میں بہت سی حکومتیں ہیں حہاں اسلامی قوانیں پر بھی عمل نہیں ہوتا ہے ۔ اسلامی قوانین یا خدائی قوانین ان ضابطوں کو کہتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی نبیوں اور پیغمبروں کے ذریعہ عام انسانوں کی ہدایت کے لئے بنایا ہے ۔ چنانچہ بہت سے عرب اور مسلم ملک ہیں جہاں شراب خانہ خراب پر کوئی پابندی نہیں ہے جہاں فحاشی کے اڈے موجود ہیں ، سودی کاروبار کی پوری اجازت ہے ۔ان برائیوں کے خلاف جب دینی تحریکیں مورچہ سنبھالتی ہیں تو ان کو پولیس اور فوج کی طاقت کے ذریعہ کچل دیا جاتاہے ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مغرب میں جمہوریت کے دعوے دارٍ مشرق میں اور عرب ملکوں میں جمہوریت کے مددگا نہ بن سکے ،کیونکہ عرب دنیا میں جمہوریت کے پردہ سے اور انتخابات کے ذریعہ جولوگوں کا پسندیدہ نظام نکل کر سامنے آیا وہ اسلامی نظام تھا اور جو لوگ منظر عام پر آئے وہ اسلام پسند اور دین وشریعت کے وفادار لوگ تھے۔ مغرب نے سوچا کہ دنیا میں ہر جگہ جمہوریت رہے لیکن عرب ملکوں میں جمہوریت نہ آئے تو بہتر ہے۔ چنانچہ پانسا پلٹ دیا گیا، اسلامی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا،استبدادی نظام پھر سے قائم ہوگیا اور اسلام پسند دار ورسن کے حوالے یا پس دیوار زنداں ڈال دئے گئے موج خوں سروں پر سے گذر گئی ۔ کرب وبلا کی خوں چکاں داستان پھر سے تازہ کی گئی اور جمہوریت کے چاہنے والے اہل اسلام جو اسلام کے سیاسی نظام کو دیکھنے کے لئے چشم براہ تھے سر راہ وفا د ل برباد کو ہاتھوں سے تھامے جمہوریت کا چہرہ زیبا دیکھنے کے لئے بس انتظار ہی کرتے رہ گئے ۔شام میں اسلام کی شام غریباں زلف جاناں کی طرح دراز ہوتی چلی گئی ۔ کوئی پوچھے ٹوے ہوئےٍ ارمانوں کا اور زخمی دلوں کا حال شیخ یوسف القرضاوی سے اور راشد الغنوشی سے اورہندوستان اور دنیا کی اسلامی جماعتوں سے وابستہ ہزاروں اہل فکر اور اہل قلم سے جنہوں نے اسلام کے سیاسی نظام کے روئے زیبا کے دیدار کی خاطر بہار عرب کا خیر مقدم کیاتھا ۔ یادوں کے زخم اتنے ہیں کہ مندمل ہونے کا نام نہیں لیتے اورسب کا ذکربھی مشکل ہے ۔ وا دریغا کہ ظلم کی چکی میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں بھی اہل ایمان پیسے جارہے ہیں دیندار اور تہجد گار لوگوں کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے ۔شام ومصر میں انقلاب بدوش اہل دین آزمائش کی بھٹی میں ڈالے جارہے ہیں۔ ایسے وقت میں ترکی ایسا مسلم ملک ہے جس نے بنگلہ دیش سے بھی احتجاج کیا اوراس نے مصر کی بھی مذمت کی جس کے صدر نے ایک سازش کے تحت محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور تر کی نے شام کے ظالم بشار الاسد کیخلاف سخت موقف اختیار کیااور اپنی سرزمین پر لاکھوں لاکھ شامیوں کو پناہ دی۔
یادش بخیر ، ۱۹۹۰ میں جب الجزائر میں بلدیہ کا الکشن ہوا تو اسلامی جماعت اسلامک سالویشن فرنٹ نے ۲۳۱ نشستوں میں سے ۱۸۸ نشستوں پر قبضہ کرلیا ، یہ الکشن کا پہلا مرحلہ تھا، حکمراں پارٹی نیشنل لبریشن فرنٹ نے صرف ۱۶ سیٹیں حاصل کی تھیں ، قوی امید تھی کہ دوسرے مرحلہ انتخاب میں جو بعد میں ہوتے یہی اسلامی جماعت کامیابی کاجھنڈا گاڑدیتی اور حکومت کی تشکیل کرتی، فرانسیسی استعمار سے رہائی کے بعد قربانیوں کا صلہ ملتا ، لیکن دوسرے مرحلہ کے آنے سے پہلے مغرب نواز فوج نے مغربی ملکوں کے اشارے پر حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور اس طرح اسلامک فرنٹ کو اقتدار میں آنے سے روک دیا ۔اس طرح سے مغربی ملکوں کی جمہوریت نوازی کا پرفریب چہرہ بے نقاب ہوگیا ۔
حماس فلسطین کی اسلام دوست دین پسند تنظیم ہے۔ ۲۰۰۶ میں جب اس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو اس کڑوے گھونٹ کو مغربی طاقتوں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا، چنانچہ اس کا راستہ روک دیا گیا ۔ مغربی حکومتیں جمہوریت کو پسند ضرور کرتی ہیں لیکن جب جمہوریت کے ذریعہ اسلام پسند اقتدار پر فائز ہوتے ہیں تو وہ جمہوریت کے خلاف سازش کرکے حکومت کا تختہ الٹ دیتی ہیں اور جمہوریت کی بہار پھر سے خزاں میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح ۳ جولائی ۲۰۱۳ مصر کی تاریخ کاوہ روز سیاہ ہے جب جمہوری اعتبارسے منتخب صدر محمد مرسی کی جائز اور جمہوری اور دستوری حکومت کا تختہ الٹ کر فوج برسر اقتدار آگئی ، وہ فوج جس کا کام سرحدوں کی حفاظت تھا اس نے ناجائز طریقہ سے زمام اقتدار پر قبضہ کرلیا ، الاخوان المسلمون کے سرکردہ لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا گیا، مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئیں ، مرنے والے ہزاروں کی تعداد میں تھے اور زخمی ہونے والے ا س سے کئی گنا زیادہ ۔ اخوان کے لیڈروں کو سزائے موت سنائی گئی ۔ ظلم وبربریت کی کوئی انتہا نہ تھی جو مصر میں جمہوریت کا راستہ روکنے کے لئے اختیار نہ کی گئی ہو ۔ افسوس صد افسوس کہ خلیجی ملکوں نے اسلام کے خلاف سازش کا پوراساتھ دیا۔ اور ر ہے ہمارے محترم پیر حرم ، تو علامہ اقبال ان کے بارے میں کہہ گئے ہیں ،’’ پیر حرم کو دیکھا ہے میں نے، کردار بے سوز گفتار واہی‘‘ ۔ آج کل پیر حرم مصر اور اپنے محرمملک یعنی خلجی ملکوں کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر قطر کے خلاف محاذ بنارہے ہیں اور ہر طرف سے اس کا محاصرہ کر ہے ہیں تعلقات منقطع کرہے ہیں۔ کیونکہ قطروہ واحد عرب ملک ہے جو اخوان سے اور حماس سے ہمدردی رکھتا ہے اور انکو پناہ دیتا ہے۔لوگوں کے ذہن میں یہ بات تازہ ہے کہ سعودی عرب وہ بد قسمت ملک ہے جس نے حرمین کے تقدس کا بھی لحاظ نہیں کیا اور اپنی دینی ذمہ داری کو بھی نہیں سمجھا اور مصر میں اسلامی جمہوریت کے داخلہ کا راستہ روک دیامحمد مرسی کی جائز حکزمت کا تختہ الٹا، اور بہار عرب کو خزاں آلودہ کردیااور اسلام پسندوں کوعبدالفتاح سیسی کے ذریعہ آتش وآہن کے سپرد کردیا،کیونکہ سعودی عرب کو اپنا مستقبل خطرہ میں نظر آنے لگا تھا کیونکہ اس کے یہاں ملوکیت اور موروثیت کا جوغیر اسلامی نظام رائج ہے اس کے خلاف ملک کے اندرمستقبل میں آواز اٹھ سکتی تھی۔اس لئے سعودی عرب نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ اسلامی ذہن پروان چڑھے اس پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے پابند سلاسل کردو ۔ اس طرح سے سعودی سازش کے ذریعہ اسلامی جمہوریت کا درخت اور اسلامی نظام سیاست کا پودا مرجھا گیا ۔ مغربی طاقتیں بھی اس سازش میں شریک تھیں، مغربی طاقتیں جمہوریت کی قائل ضرورہیں لیکن اس جمہوریت کی قائل نہیں ہیں جس کے ذریعہ اسلام ایوان سیاست میں داخل ہوسکے اورغم وافسوس کی بات ہے کہ تمام خلیجی ملک ان مغربی طاقتوں کے حاشیہ بردار، خوشہ چیں، مقلد اور زلہ ربا اوردست نگرہیں اور پیر حرم کا کیا کہنا وہ تو ڈونالڈ ٹرمپ کے ہاتھ پر حال ہی میں بیعت کرچکے ہیں اور چار ارب ملین ڈالر کا نذرانہ بھی پیش کرچکے ہیں تاکہ اسلحہ کے نام پر کھلونے ہاتھ میں پکڑا دیے جائیں ۔سعودی عقل پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے۔اگر سلمان بن عبد العزیز سچ مچ اپنے الزام میں مخلص ہیں کہ اخوان المسلمون دہشت گردوں کی جماعت ہے اور گردن زدنی ہے تو حرم شریف میں رمضان میں ختم قرآن کے موقعہ پر امام حرم سے یہ دعا بھی کروائیں کہ اے اللہ خادم الحرمین کو حسن البناء اور اخوان کے ساتھ محشور مت کر بلکہ جمال عبد الناصر اور عبد الفتاح سیسی کے ساتھ ان کا حشر کر ۔